اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تاج کی بجائے عمامہ ’’ایرانی انقلاب‘‘۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پروفیسر سعید امیرارجمند اپنی تصنیف ’’تاج کی بجائے عمامہ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’اس کتاب کا مقصد 1979ء کے ایرانی انقلاب کی تشریح اور عالمی تاریخ میں اس کی اہمیت کا تعین ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ بات واضح ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب ایک دہشتناک شورش ہے اتنی اہم اور ایسی کہ دنیا کی تاریخ میں اس سے قبل نہیں ہوئی۔ جیسے 1789ء کا فرانسیسی انقلاب اور 1917ء کا روسی انقلاب (یہ انقلاب سوویت یونین کا نکتہ آغاز تھا)
ان سطورنے طالب علم کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ کیا فرانسیسی انقلاب اور روسی انقلاب دونوں کشت و خون سے خالی تھے کہ جناب ارجمند کے نزدیک ’’ایرانی انقلاب دہشت ناک شورش ہے ،
ان کے نزدیک؟ پرامن انقلاب کب اور کہاں آئے وہ اگر اس کی بھی کچھ تفصیل لکھ دیتے تو ہم جیسے پڑھنے والوں کے لئے مناسب رہتا۔
ان کے خیال میں ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ ایرانی انقلاب نے دنیا کو حیران کردیا یہ دعویٰ معقول ہے اس کے باوجود کہ یہ پچھلی صدی (بیسویں) حیرانیوں سے پُر ہے۔
ایک جدید ریاست میں ایک مذہبی حکومت کے قائم ہونے کے امکان بارے کم ہی لوگ سوچتے ہوں گے اور بہت ہی کم اس طور ایک عوامی انقلاب کے ممکن ہونے کے بارے میں سوچتے ہوں گے جس نے اس خشک اور ٹیڑھے واقعہ کو مزید حیران کن بنادیا۔
وہ آیت اللہ (سید روح اللہ خمینی موسوی) کی شاہ کے ملک میں اسلامی مذہبی حکومت کے جھنڈے کو بلند کرنے کی کامیابی تھی۔ ایران کے اس آخری شہنشاہ کا اقتدار ختم ہوا جو اپنی مراجعت (ملک چھوڑنے تک) ایک بڑی اور جدید اسلحوں سے لیس مسلح افواج کا کمانڈر انچیف تھا‘‘۔
ان کے خیال میں ’’ایک عوامی انقلاب جو ایک مذہبی ریاست کے قیام کے لئے آگے بڑھے اتنا ہی ناممکن لگتا ہے جتنا کہ مضحکہ خیز اور واہیات‘‘۔ گو ابھی ہمیں حتمی رائے قائم کرنے (مصنف اور مترجم بارے) سے اجتناب کرنا چاہیے پھر بھی یہ سوال اہم ہے کہ کیا اگر کسی ملک میں عوامی طاقت سے مذہبی حاکمیت کے لئے انقلاب آتا ہے تو وہ مضحکہ خیز اور واہیات ہوگا؟
ایسا ہے تو پھر فرد طبقے اور قوموں کے حق حکمرانی والی وہ ساری باتیں کیا قرار پائیں گی جن سے لوگوں کو بہلایا جاتا ہے کہ حق حکمرانی کے اصل مالک عوام ہیں وہ جسے چاہیں حکمرانی عطا کریں۔
بادشاہت تو عوام کے حق حکمرانی کو نہیں مانتی۔ مذہبی حکمرانی بھی حکومت الٰہیہ کی دستار سجالیتی ہے۔ دونوں باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن یہ بھی تو مدنظر رکھنا ہوگا کہ 1979ء کے ایرانی انقلاب سے قبل بھی تو ایران کے نظام حکمرانی میں مذہب کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔ ثانیاً یہ کہ 1789ء کے انقلاب فرانس کے سوا کس نے کامل جمہوریت کی طرف پیش قدمی کی۔
مکرر یہ بات پیش نظر رکھنا ہوگی کہ انقلاب بہر طور خون بہائے اور خون دیئے بغیر برپا نہیں ہوتا۔ انقلاب کے بعد کیا انقلابی قیادت اپنے وعدے پورے کرپاتی ہے یا انقلاب کی کوکھ سے ایک نئی سخت گیر سامراجیت کا ظہور ہوتا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
یہاں کتاب کے ترجمے اور پروف کی اغلاط کی طرف متوجہ کرنا بھی ازبس ضروری ہے۔ پروفیسر ظفر علی خان صاحب علمی شخصیت ہیں۔ قبل ازیں بھی متعدد کتابوں کے تراجم کرچکے۔ ’’تاج کی بجائے عمامہ‘‘ کے ترجمے میں سب سے بڑا جھول یہ ہے کہ ایسا لگتا ہے لفظ بہ لفظ ترجمے کو ضروری خیال کیا گیا جس سے ترجمے کا حقیقی حسن، جملہ بندیوں اور ربط دونوں متاثر ہوئے۔ پروف کی غلطیاں بھی ہیں مطالعہ کا ذوق رکھنے والوں کو کتاب پڑھتے ہوئے دونوں باتیں گراں گزریں گی جیسا کہ مجھ طالب علم کو گراں گزر رہی ہیں۔
ایرانی انقلاب کی ظہور پذیری سے قبل بادشاہت کے خلاف ایرانی تودہ پارٹی کی طویل اور منظم جدوجہد ہے۔ تاریخ و سیاسیات کے طالب علم کی حیثیت سے میرا نہیں خیال کہ ایرانی انقلاب کے بانی سید روح اللہ خمیمنی موسوی (آیت اللہ) کو گاندھی کی طرح دیکھا سمجھا گیا ہو۔
کرم چند گاندھی مختلف حالات میں سیاسی رہنما بن کر ابھرے۔ ابھرے یا ابھارے گئے برصغیر کے کچھ دوسرے رہنمائوں کی طرح؟ اس سوال پر تقسیم شدہ برصغیر میں تحقیق و مکالمے کے دروازے آج بھی بند ہیں۔
ایرانی تاریخ میں 1501ء کے بعد شیعت (مکتب امامت) کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اس سے قبل عربوں کے ہاتھوں ایران کی فتح کے بعد ایرانی مقبوضہ جات میں مکتب خلافت نے اپنے اثرات قائم کئے۔
کیا محض اہل تشیع کے چوتھے امام، امام زین العابدینؑ کا ننھیالی طور پر ایرانی ہونا
(جیسا کہ مسلم تاریخ میں لکھا ہے کہ امام زین العابدینؑ کی والدہ محترمہ ایران کی شہزادی تھیں دوسری خلافت کے دور میں ایران "فارس” کی فتح کے بعد خلافت کے دارالحکومت مدینہ لے جائی گئیں جہاں انہیں رسول اکرمؐ کے نواسے اور تیسرے امام، امام حسینؑ کے عقد میں دے دیا گیا) تھا۔
غالباً یہ واحد وجہ ہرگز نہیں۔ اسے واحد وجہ کے طور پر پیش کرنے والوں نے ایرانیوں کے من حیث القوم شیعت قبول کرنے کے عمل کو اس رشتے سے جوڑتے ہوئے جو دلائل دیئے کیا ان دلائل کی کسوٹی پر مکتب خلافت کو بنیادی اساسی نظریہ جاننے والی ماضی کی مسلم ریاستوں اور حکمرانوں کے فہم وغیرہ کو دیکھا پرکھا جاسکتا ہے؟
اپنی تین چار ہزار سالہ تاریخ میں ایرانیوں نے مفتوحیت کے دور سے نکلنے کے بعد ہمیشہ مذہب اور بادشاہت کے اشتراک کو قبول کیا۔
ایرانیوں کا شیعت و امامت سے رجوع کرنا اور 1979ء کے ایرانی انقلاب دونوں کے درمیانی عرصہ کی تاریخ پھر سے پڑھنے سمجھنے اور رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
اسے عربوں اور ایرانیوں کے قدیم تنازعات کے تنازعوں میں سمجھنے کی کوشش اس لئے وقت کا ضیاع ہے کہ سائرس اعظم کی فتح بابل کا وقت بابلی تہذیب کا زوال عروج پر تھا
یقیناً اس زوال سے حمو ربٰی کے بابل اور ریاست کے لئے انسانی تاریخ کے اولین تحریری دستور کی اہمیت ختم نہیں ہوجاتی۔ اسی طرح قدیم یمنی اور بابلی تہذیبوں کے ساتھ بلاد عرب کے سب سے قدیم خطے شام کی تاریخ اور تہذیب و تمدن کے ارتقا کو بھی ان تہذیبوں کے پڑوسی ایران کو جاننے سمجھنے کے لئے مدنظر رکھنا ازحد ضروری ہے۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ مختلف ادوار میں بادشاہتوں سے ریلیف لینے اور بعض دیگر معاملات میں ریاست کے خلاف منظم ہوئی عوامی لہروں میں شیعہ علماء کا کردار بہرطور رہا۔ ایرانی شیعہ علماء زمانہ قدیم سے ہی ایک ایسی ریاست کی آرزو رکھتے تھے جو ان کے عقائد کے اطلاق و عمل کے حوالے سے ’’مثالی‘‘ ہو۔
1979ء کا ایرانی انقلاب اس دیرینہ خواب کی تعبیر ہے۔ تعبیر چونکہ ایک انقلاب کے نتیجے میں حاصل ہوئی سو اس میں خوب خون بہا یہ حقیقت ہے
اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے کتاب کے اردو ترجمے کا مطالعہ کرنے والوں کو یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ برصغیر کا بٹوارہ پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے ہوا تو یہ فریب کے سوا کچھ نہیں
کیونکہ بٹوارہ کبھی پرامن طور پر نہیں ہوتا۔ نفرت اور خون کسی حد تک اس بٹوارے کا رزق بنتا ہے۔ ہمارے ہاں بٹوارے کے بعد زیادہ خون بہا۔
انقلاب اپنے سماج پر تسلط رکھنے والی حاکمیت کے خلاف ردعمل میں برپا ہوتا ہے۔ اس ردعمل کے مقامی اور بیرونی کردار بہت اہم ہوتے ہیں البتہ انقلاب کو تقدس کا غلاف پہنانے کا مقصد نئی سامراجیت کو امر ربی کے طور پر پیش کرکے حکومت الہیٰہ کے اس تصور کو دوام دینا ہوتا ہے جس کے بغیر مذہبی حاکمیت کی گرفت مضبوط نہیں ہوتی۔
ایرانی انقلاب کا اساسی نظریہ ولایت فقیہہ ہے۔ ولایت فقیہہ کی حاکمت اولیٰ کو اگر سو فیصد درست مان لیا جائے تو اموی خلافت کے خاتمے کا سبب بننے والی ابو مسلم خراسانی کی تحریک کا نتیجہ علوی حکمرانی کی صورت میں نکلنا چاہیے تھا عباسی خلافت کے طور پر نہیں۔
مسلم کتب تواریخ میں ابو مسلم خراسانی اور جناب امام جعفر صادقؑ میں ملاقات اور گفتگو کا ذکر تفصیل سے موجود ہے۔ بہرطور یہ ہمارا موضوع ہرگز نہیں۔
ہمارا موضوع یہ ہے کہ ایرانی انقلاب کو انقلاب برپا ہونے کے بعد لکھی گئی کتب اور ایرانی تاریخ کی مدد سے سمجھا جائے یا محض ولایت فقیہہ کی حاکمیت اعلیٰ کے روحانی و سیاسی تصور سے جس کے پیروکاران اور بیرونی ہمدردوں کا خیال ہے کہ یہ امامی ولایت نظریہ حکومت سازی یعنی حکومت الٰہیہ کا نکتہ آغاز ہے ۔
اور یہ کہ ایرانی انقلاب نوید ہے مظلومین جہاں کے لئے ان کی دادرسی کا ایک مرکز بہرطور موجود ہے۔
طالب علم پروفیسر سعید امیر ارجنمد کے ان بعض الفاظ سے بھی خود کو متفق نہیں کرپارہا جو انہوں نے ایرانی انقلاب کی بعض بڑی شخصیتوں اور بالخصوص بانی انقلاب کے لئے استعمال کئے۔ ان الفاظ کے بغیر بھی تجزیہ ممکن تھا کیونکہ حاکمیت کا جبر ایک حقیقت ہے بالخصوص اس صورت میں جب حاکمیت نے انقلاب کی کوکھ سے جنم لیا ہو۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: