مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

منٹو اور نانگلی!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

گھریلو عورت ہو یا کوٹھے پہ بیٹھنے والی، دفتر میں کام کرنے والی ہو یا فلم میں، وہ پسند کے معیار پہ تبھی اترے گی جب اس کا جسم مرد کی ترتیب دی ہوئی پیمائش کے مطابق ہو۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزمرہ کی زندگی میں عورت کی چھاتی کو جنسی تحریک کا محور سمجھنا ذہنی جہالت کے سوا کچھ اور نہیں۔ لیکن وقت، زمانے اور معاشرت و تہذیب کا کہنا ہے کہ عورت کی چھاتی سے جنسی حظ اٹھانے والوں کی کمی نہیں۔ چٹانوں کے ابھار، پہاڑیوں کی گولائیاں، مدور گھاٹیاں، نشیب و فراز جیسے معنی خیز الفاظ سے صفحات پہ لگی کالک کسی سے چھپی نہیں۔

مرد چھاتیوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے اس کا نقشہ اردو ادب میں منٹو سے بہتر کوئی نہیں کھینچ سکتا۔

لیکن رندھیر کی زبانی گھاٹن لڑکی کے جسم کا نقشہ منٹو کو بہت مہنگا پڑا اور افسانہ بو لکھنے کی پاداش میں فحش نگاری کے الزام میں عدالت کا سامنا کرنا پڑا۔ رندھیر کا کردار نہ انوکھا تھا نہ مختلف، وہی کچھ تو تھا جو مرد عورت کے لیے محسوس کرتا ہے۔ لیکن ذہن کے نہاں خانوں میں چھپی گندگی کو الفاظ کا روپ دینا معاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جس پہ منٹو نے چڑ کر پوچھا کہ چھاتی کو چھاتی نہ کہوں تو کیا کہوں؟

یہ سوال منٹو کی ذہنی سطح کی ایک جھلک تھا جہاں وہ چھاتی کو بھی ہاتھ پاؤں آنکھ کان کی طرح ایک نارمل عضو سمجھتا ہے۔

داد نہ دینا زیادتی ہوگی جب نظر آتا ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے منٹو نے چھاتی سے جڑی وحشت کو زائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے زندگی کے ان مسائل کے متعلق لکھا جن سے عورت دن رات نبرد آزما رہتی ہے۔

’منی رو رہی ہے، دودھ کے لیے، یہ دودھ۔ ماں بننا اچھا ہے۔ مردوں کی کتنی بڑی کمی ہے کہ وہ کھا پی کر سب ہضم کر جاتے ہیں۔ عورت کھاتی بھی ہے اور کھلاتی بھی ہے۔ اپنے بچے کو پالنا کتنی شاندار چیز ہے۔ یہ دودھ، یہ سفید آب حیات ہے۔ ‘
(افسانہ۔ شاردا )

زبیدہ کا جسم لہولہان ہے، خون بستر پر پھیلا ہوا ہے اور زبیدہ استرے سے اپنی چھاتیاں کاٹ رہی ہے۔ اس نے دوڑ کر اس کے ہاتھ سے استرا چھین لیا اور پوچھا یہ کیا کر رہی ہو؟

”زبیدہ نے اپنے پہلو میں لیٹے ہوئے بچے کی طرف دیکھا اور کہا ’ساری رات بلکتا رہا ہے۔ لیکن میری چھاتیوں میں دودھ نہ اترا۔ لعنت ہے ایسی۔۔۔‘ ۔
( افسانہ۔ اولاد )

شاید منٹو نے یہ کردار اس عورت کی کہانی سن کر تراشا ہو جس نے سماجی نظام کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے چھاتیوں کا سہارا لیا۔ نانگلی نام تھا اس عورت کا۔

برٹش انڈیا کا زمانہ ہے، ہر ریاست کا راجہ اپنا قانون ترتیب دیتا ہے۔ کیرالہ ریاست کے راجہ نے ٹیکس کا نیا نظام وضع کیا ہے۔ یہ اونچی ذات والوں کا نچلی ذات پہ طاقت کے سہارے راج کرنے کی کوشش ہے جو شاید آج بھی ختم نہیں ہوئی۔ اپنی بودی دلیلوں کے سہارے غریبوں کا خون چوستے سرمایہ دار۔ چودہ برس کی عمر کے بعد مچھیرے پہ جال رکھنے کا ٹیکس ہے تو مونچھ رکھنے کے شوقین پہ مونچھ کا۔

عورت کا کیا کریں؟ کس چیز پہ ٹیکس لیں؟ اچھا چھاتی جو سامنے کی چیز ہے، چلو پھر لگا دو چھاتیوں پہ ٹیکس۔

روایات کے مطابق قدیم زمانے میں چھاتی ایک نارمل عضو ہی سمجھی جاتی تھی۔ جنس کا تعلق مرد و عورت میں اعضائے مخصوصہ کے ساتھ تھا اس لیے قدیم پینٹنگز میں عورت کھلے عام دودھ پلاتی نظر آتی ہے۔ سترہویں صدی میں ڈچ سیاح جان نی ہاف نے برصغیر آ کر شاہی دربار دیکھا تو لکھا کہ مرد اور عورتیں صرف نچلا دھڑ کپڑے سے ڈھکتے ہیں۔ اسی صدی میں اطالوی سیاح پیٹرو ڈیلا ویلا نے زیمورن راجہ کے دربار کا حال سناتے ہوئے کہا کہ راجہ کی بہن اور بھانجیوں نے کمر کے گرد سلک کا کپڑا باندھ رکھا تھا۔ جسم کا بلائی حصہ ننگا جن پہ ڈھیروں زیورات پہنے گئے تھے۔

وکٹورین دور کی اخلاقیات جب برصغیر تک پہنچیں تو اونچی جاتی کی عورتوں کو یہ حق ملا کہ چھاتی برہنہ رکھیں یا نہیں لیکن غریب جاتی کی عورت کو یہ حق نہیں دیا گیا۔ مستند روایات کے مطابق مسئلہ برہنہ چھاتی نہیں بلکہ ذات پات اور پدرسری کا نظام تھا جس کے مطابق شرفا کی کچھ عورتوں کو ان کی مرضی کرنے کی اجازت دی جا سکتی تھی مگر غلام ابن غلام کی عورت کو نہیں، جو نسل در نسل راجہ کی ملکیت تھے۔

ایسی ہی ایک عورت تھی، نانگلی!

نانگلی ذات و پات کے نظام کو ہلانا چاہتی ہے۔ کچھ ایسا سوچے بیٹھی ہے جس کی کسی کو بھی کانوں کان خبر نہیں۔

ٹیکس انسپکٹر آتا ہے،
نانگلی پیسہ نکال، چھاتی ٹیکس۔
تو ٹھہر ابھی لائی۔
نانگلی کوٹھڑی میں جاتی ہے۔ کچھ کھٹر پٹر کی آواز آتی ہے۔
انسپکٹر اتاؤلا ہوا جا رہا ہے۔
جلدی کر نانگلی، ابھی بہت جگہ جانا ہے مجھے۔
نانگلی ہاتھ میں کچھ تھامے باہر آتی ہے۔ انگلیاں خون میں ڈوبی ہوئی ہیں۔
یہ کیا؟
چھاتیاں۔
کیا؟

انہی پہ پیسہ لینے آیا تھا نا تو۔ راجہ کی ملکیت ہیں نا یہ۔ چل لے جا انہیں، دے دینا اپنے راجہ کو۔ کہہ دینا نانگلی پرائی چیز پاس نہیں رکھتی۔

پاؤں کے پاس ٹپکتا ہوا خون، نانگلی کی سماج کو چیلنج کرتی ہنسی اور ہرکارے کے ہاتھ میں خون سے لت پت دو چھاتیاں۔

نانگلی مر تو گئی مگر امر کر گئی تاریخ۔

راجہ چھاتی ڈھانپنے پہ ٹیکس لیتا تھا، نئے زمانے نے چھاتی دکھانے پہ ٹکٹ لگا دیا۔ دنیا بھر کا ادب ہو، یا آرٹ، چھاتی کو ایک عام عضو کی بجائے جنسی علامت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ پردہ سکرین پر چھاتیوں کو خاص زاویے سے فلما کر جذبات برانگیختہ کرو، مال بیچو، چاہے عورت کی ذات مٹی میں مل جائے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ چولی کے پیچھے کیا ہے جیسی شاعری عورت کے حصے میں ہی کیوں آئی؟ دھوتی کے پیچھے کی طرف تو کبھی کسی نے اشارہ نہیں کیا۔

ذلت کے اس کھیل میں عورت کو بھی باور کروا دیا گیا کہ چھاتی اس کی ذات کو پرکشش بنانے کا اہم آلہ ہے۔ آئیڈیل پیمائش کیا ہونی چاہیے؟ کمر کتنی پتلی، چھاتی اور کولہے کتنے بڑے؟ اگر وہ انچ سینٹی میٹر کے دائرے میں نہیں آتی تو کھیل سے باہر۔

گھریلو عورت ہو یا کوٹھے پہ بیٹھنے والی، دفتر میں کام کرنے والی ہو یا فلم میں، وہ پسند کے معیار پہ تبھی اترے گی جب اس کا جسم مرد کی ترتیب دی ہوئی پیمائش کے مطابق ہو۔

ایک خاتون کہتی ہیں،

” جن بچیوں کی چھاتی گرو نہیں ہوتی ان کے مسائل بھی بے شمار۔ شادی نہیں ہو رہی، ریجیکٹ کیا جا رہا ہے۔ اگر ہو رہی ہے تو کمپلیکس اتنا ہے کہ بس نہیں چل رہا پتھر باندھ کر کپڑے پہنیں کیونکہ انہیں لگتا ہے جسم پہ پہنا جوڑا سوٹ نہیں کرے گا، برائیڈل ڈریس بیکار جائے گا۔ جن کی شادی ہو چکی ہے وہ کہتی ہیں شوہر کہتا ہے یوں لگتا ہے کسی لڑکے سے بیاہ رچائے بیٹھا ہوں۔

کہاں تک سنائیں ہزاروں افسانے ”

ان ہیلوں حربوں سے عورت کے لاشعور میں فیڈ کر دیا گیا کہ اگر زندگی کی دوڑ میں آگے نکلنا ہے تو جسم کو پرکشش ہونا چاہیے۔ اور یہ کلیہ محض فلم ایکٹریس پر منطبق نہیں ہوتا، شادی بیاہ کے لیے بھی وہی لڑکی چنی جائے گی جو خوبصورت دکھے، چہرے سے بھی اور جسم سے بھی۔

جدید طب نے صدیوں سے ترتیب دیے ہوئے زاویوں کے کھیل سے فائدہ اٹھانے کی سوچی۔ عورت کے دماغ میں یہ بیج تو بویا جا چکا تھا، اب صرف فصل کاٹنی تھی۔ چھاتی کو پرکشش بنانے کے لیے سرجری کے ذریعے سلیکون پیڈز رکھے جانے لگے۔ ان خواتین کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، وہ جاننا کسی کا درد سر نہیں۔

بریسٹ کینسر کے بعد چھاتی کٹوانے والی خواتین کی پریشانی بھی کسی سی مخفی نہیں۔ ایک تو بیماری دوسرے چھاتی کو ٹٹولتی متجسس نظریں، مجبوراً بہت سوں کو پلاسٹک سرجن کی مدد لینی پڑی۔ یعنی موت کے منہ میں کھڑی عورت کی کینسر زدہ چھاتی کو بھی معافی نہیں مل سکتی۔

منٹو اور نانگلی یہ پیغام دیتے ہیں آج کی عورت کو کہ اسے اپنے جسم کے اس حصے کو نارمل عضو سمجھے جانے پہ اصرار کرنا ہو گا۔ یہ تبھی ممکن ہے جب چھاتی کے ساتھ وابستہ جنسی علامت کا تصور معاشرے اپنے ذہن سے مٹا ڈالے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: