نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان صاحب کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کروانے کے بعد اقتدار میں آئے سیاستدان 1990ءکی دہائی سے بہت ”کائیاں اور تجربہ کار“ شمار ہوتے رہے ہیں۔ حکومت سنبھالنے کے چند دن بعد ہی مگربے بس اناڑی نظر آناشروع ہوگئے جو پنجابی محاورے کے مطابق ”ہن کی کرئیے؟!“والے مخمصے میں گرفتار ہیں۔
دعویٰ ان کا یہ ہے کہ ”ریاست کو دیوالیہ“ ہونے سے بچانے کے لئے انہوں نے حب الوطنی کے جذبے سے سرشارہوکر اپنی ”سیاست“ قربان کردینے کی جرا¿ت دکھائی۔ ”ریاست“مگر ان کی احسان مندی محسوس نہیں کررہی۔ حکومت میں شامل جماعتوں کے مقابلے میں عمران خان صاحب نے بھی اپنی سیاست کو مزید جارحانہ بنالیاہے ۔روایتی اور سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال کے علاوہ پوری توانائی کے ساتھ شہرشہر جاکر اپنا پیغام پہنچاناشروع ہوگئے۔ بھان متی کا کنبہ دِکھتی حکومت کے پاس اس پیغام کے توڑکے لئے کوئی ”سودا“ نظر نہیں آرہا۔ سیاسی محاذ پر بے تکے دِکھتے اقدامات لیتے ہوئے وہ مسلسل خفت کا سامنا کررہی ہے۔
عمران خان صاحب کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد پر بالآخر عدالتی مداخلت کی وجہ سے گنتی کروانا پڑی تو عمران خان صاحب سمیت تحریک انصاف کے 120سے زائد اراکین نے قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے سپیکر کے دفتر بھجوادئے۔ سپیکر راجہ پرویز اشرف نے تاہم بہت سوچ بچار کے بعد صرف گیارہ استعفوں کو منظور کیا۔ پارلیمانی کارروائی کو کئی دہائیوں سے رپورٹ کرنے کے باوجود میں آج تک سمجھ نہیں پایا کہ فقط ان گیارہ استعفوں کو ایسی ”پذیرائی“ کیوں فراہم ہوئی۔غالباََیہ فرض کرلیا گیا کہ اگر ان پر ضمنی انتخابات ہوئے تو اکثر نشستوں پر حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے نمائندے کامیاب ہوکر قومی اسمبلی میں آجائیں گے۔اتوار کے دن ان نشستوں میں سے آٹھ پر ہوئے انتخابات نے مگر اس سوچ کو غلط ثابت کردیا۔
عمران خان صاحب بھی اپنے تئیں ”وکھری نوعیت“ کی سیاست کررہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں لوٹنے کو وہ ہرگز آمادہ نہیں۔ اس کے باوجود جن آٹھ نشستوں پر انتخاب ہوئے ان میں سے سات پر خود امیدوار تھے۔ غالباََ ان تمام نشستوں کو جیت کر وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ عوام کی اکثریت ان کی چلائی ہر سیاسی چال کو بغیر کوئی سوال کئے سراہتی ہے۔اس کے علاوہ یہ بھی سوچا ہوگا کہ اتوار کے روز ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج انہیں وطن عزیز کا مقبول ترین سیاستدان ثابت کرنے کے علاوہ تحریک انصاف کے اس مطالبے کو بھی تقویت پہنچائیں گے کہ پاکستان کے موجودہ حالات فوری انتخاب کے متقاضی ہیں جو عمران خان صاحب کی اقتدار میں جلد از جلد واپسی کو یقینی بنائیں۔
عاشقان عمران خان صاحب نے اپنے قائد کے فیصلے کو یہ سوچتے ہوئے سراہا کہ اس کے ذریعے ”امپورٹڈ حکومت“ کے خلاف ”ریفرنڈم“ کا ماحول بن جائے گا۔ عمران خان صاحب کی ان تمام حلقوں سے جیت جن پر وہ خود کھڑے ہوئے حکومت کو ”اصولی اور اخلاقی“ بنیادوں پر مستعفی ہونے کو مجبور کردے گی۔یہ کالم لکھتے وقت عمران خان صاحب محض کراچی کی ایک نشست سے واضح طورپر ناکام ہوئے ۔ ”ریفرنڈم“ کا ماحول مگر کئی ٹھوس وجوہات کی بنا پر بن نہیں پایا ہے۔
مثال کے طورپر فقط ایک نکتہ آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔ہمارے تبصرہ نگاروں کی کافی تعداد بہت دنوں سے اصرار کئے چلے جاری ہے کہ عمران خان صاحب کی اصل طاقت کا راز Youth Bulge ہے۔ 18سے 35سال کے درمیان والی عمر پر مشتمل نوجوان جو محض سوشل میڈیا کی بدولت اپنا ذہن بناتے ہیں۔جن سات نشستوں پر اتوار کے دن انتخاب ہوئے ہیں ان میں سے فقط ملیر کو چھوڑ کر باقی تمام حلقوں میں اوسطاََ 50ہزار کے قریب نئے ووٹوں کا اندراج ہوا ہے۔ ہم بآسانی فرض کرسکتے ہیں کہ نئے ووٹروں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہوگی۔ فرض کیا اس کا 50فی صد حصہ بھی دل وجان سے عمران خان صاحب کا متوالا بن چکا ہے تو اتوار کے دن جن حلقوں پر انتخاب ہوئے وہاں پولنگ بوتھوں کے باہر ایسے نوجوانوں کی لمبی قطاریں نظر آنا چاہیے تھیں۔ اتوار کے دن اپنے فون کو مسلسل استعمال کرتے ہوئے میں اس تاثر کی تصدیق میں مصروف رہا۔ جو منظر متوقع تھا وہ مگر برسرزمین برپا ہونے کی کماحقہ تصدیق نہیں ہوئی۔یہ حقیقت مجھے یہ سوال اٹھانے کو اُکساتی رہی کہ عمران خان صاحب کے متوالے شمار ہوتے نوجوان اگر بھاری بھر کم تعداد میں انہیں ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشنوں تک نہیں آئے تو لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا مقابلہ کرنے تحریک انصاف کے متوقع لانگ مارچ میں کیوں شریک ہوں گے۔ اکثر نشستیں جیت کر بھی عمران خان میری دانست میں ”ریفرنڈم“ کا ماحول نہیں بناپائے۔ یہ پہلو مگر اتوار کے دن اپنے قائد کی ”رحجان ساز“ جیت کی بابت شاداں محسوس کرتے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر چھائے حامی نظرانداز کرتے رہے۔
”موروثی سیاست“ کا خاتمہ بھی تحریک انصاف کا کلیدی پیغام تصور ہوتا ہے۔اتوار کے دن مگر ملتان میں برطانوی دور سے ابھرے دو اشرافی خاندان یعنی گیلانی اور قریشی ہی ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔گیلانی یہ کالم لکھتے وقت بالآخر طویل عرصے کے بعد قریشی خاندان کو پچھاڑچکے تھے ۔یہ پہلو بھی زیر غور لانا ہوگا۔”موروثی سیاست“اگرچہ ایمل ولی خان کے حوالے سے چارسدہ میں بحال ہوتی نظر نہیں آئی۔
اتوار کے دن ہوئے انتخاب نے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ بیشتر حلقوں میں نام نہاد الیکٹ ایبلز اب بھی اہمیت کے حامل ہیں۔عام انتخابات کے دوران تحریک انصاف اپنے طاقت ور بیانیے کے باوجود انہیں نظرانداز نہیں کر پائے گی۔ملیر کے حاکم بلوچ رواں صدی کے آغاز سے ملیر میں ایسے ہی الیکٹ ایبل بن کر اُبھرے ہیں۔2013ءکے عام انتخاب میں مسلم لیگ (نون)کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔اتوار کے روز اپنی جیت کے لئے انہوں نے پیپلز پارٹی کے ”تیر“ کا سہارالیا۔
اتوار کے روز ہوئے ضمنی انتخابات کے نتائج شروع ہونے کے فوری بعد جو سوالات میرے ذہن میں آئے آپ کے روبرو رکھ دئے ہیں۔انہیں لکھنے کا مقصد محض یہ اصرار کرنا ہے کہ اتوار کے روز ہوئے ضمنی انتخابات کو ”ریفرنڈم“ یاT-20جیسے میچ کی صورت نہ لیا جائے۔عام انتخابات کے ذریعے کسی جماعت کو اقتدارمیں لانے کی بے شمار وجوہات ہوتی ہیں۔انہیں یک سطری پیغام کے ذریعے سمجھایا نہیں جاسکتا۔اتوار کے دن نتائج آجانے کے بعد فی الوقت اس سوال پر کامل توجہ دینا ہوگی کہ فوری انتخاب کے حصول کے لئے عمران خان صاحب کو اب کونسی نئی چال کھیلنا ہوگی؟لانگ مارچ یا صدر عارف علوی کی معاونت کی بدولت ”نیوٹرلز“سے ”متحرک“ کردار کی توقع۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر