اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’مقدمہ سرائیکستان‘‘، شکریہ عبید خواجہ ||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امریکہ میں مقیم ہمارے دوست اور برادرِ عزیز عبید خواجہ نے سرائیکی قومی جدوجہد کے بانیوں میں سے ایک جناب ریاض اختر ہاشمی ایڈووکیٹ مرحوم کی کتاب کا ترجمہ ’’مقدمہ سرائیکستان‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ مرحوم ریاض ہاشمی نے جب اپنی تصنیف لکھی ان دنوں وہ بہاولپور صوبہ بحالی تحریک کے روح رواں تھے۔کتاب کا نام ’’بریف برائے بہاولپور صوبہ‘‘ رکھا گیا۔
جناب ریاض ہاشمی مرحوم نے سیٹھ عبیدالرحمن مرحوم، بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ مرحوم، قاری نورالحق قریشی ایڈووکیٹ، شفیع اختر ایڈووکیٹ اور دیگر بزرگوں و نوجوانوں کے ساتھ مل کر 1980ء کے حصول کی جدوجہد کے لئے سرائیکی صوبہ محاذ کی بنیاد رکھی۔
سرائیکی صوبہ محاذ کے ابتدائی ساتھیوں اور ہمدردوں کی ایک طویل فہرست ہے فرداً فرداً مرحوم و زندہ محترم شخصیات کے اسمائے گرامی کے لئے کالم کے دامن میں گنجائش نہیں اس لئے ہر دو کے ہمدردان تحریر نویس کی پیشگی معذرت قبول کرلیں۔
عبید خواجہ نے ’’مقدمہ سرائیکستان‘‘ کے عنوان (کتاب کے نام) کے ساتھ ضمنی پٹی میں وضاحت کے لئے لکھا ہے‘‘ سرائیکی قوم اور صوبے کی تحریک بین الاقوامی تاریخ واقعات اور بہاولپور صوبہ تحریک کے تناظر میں جائزہ‘‘، 270 صفحات کی اس کتاب میں کچھ نادر تصاویر بھی شامل ہیں۔
کتاب کے لئے تقریظات لکھنے والوں میں معروف دانشور جناب اسلم رسولپوری محترمہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ، مجاہد جتوئی، عاشق خان بزدار، پروفیسر عامر فہیم، امجد بخاری اور یہ تحریر نویس بھی شامل ہے۔
عبید خواجہ نے ریاض ہاشمی مرحوم کی کتاب کا ترجمہ کرکے سرائیکی قومی سوال اور قومی جدوجہد بارے مکالمے کے خواہش مندوں کے سامنے سرائیکی قوم کا مقدمہ رکھ دیا ہے البتہ اچھا کیا کہ ’’ہائو ہو‘‘ کرتے ہوئے ٹوڈیو کو جواب نہیں دیا۔
جواب دینا اس لئے بھی نہیں بنتا کہ سرائیکی قومی سوال اور قومی جدوجہد سنجیدہ موضوعات ہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ کسی خطے میں بسنے والے اپنی زبان، تہذیب، قومی تاریخ۔ شناخت بارے خود فیصلہ کرتے ہیں اس فیصلے کے معاون کے طور پر ان کے پاس دستیاب تاریخی شواہد اور روایات و اقدار کے ساتھ اپنا تہذیبی ورثہ ہوتا ہے۔
سرائیکی قومی جدوجہد میں شریک قوم پرستوں اور اہل دانش نے کبھی مکالمے سے انکار نہیں کیا۔ البتہ یہ درست ہے کہ ان عناصر سے مکالمہ ممکن نہیں جو قومی سوال اور اس پر منظم ہوئی جدوجہد کے ساتھ تاریخ کا انکار کرکے کہیں آئو بات کرتے ہیں ۔ ’’اس لئے کہ ہم پنجاب کی تقسیم نہیں چاہتے‘‘۔
سرائیکی وسیب کے لوگوں کی قومی سوال اور شناخت پر جدوجہد پنجاب کی تقسیم کے لئے نہیں ہے۔ پنجاب تو 1947ء کے بٹوارے میں تقسیم ہوچکا اور پھر پنجاب کے بھارتی حصے کے تین صوبے بن گئے۔
واہگہ کے اس طرف کے پنجاب میں شامل سرائیکی وسیب کے دو حصوں سابق صوبہ ملتان جیسے رنجیت سنگھ نے مقبوضہ بنایا اور برطانوی راج میں رنجیت سنگھی انتظام برقرار رہا۔
ثانیاً سابق ریاست بہاولپور جس کے سربراہ نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے وقت پاکستان سے رضاکارانہ الحاق کیا۔ یہاں ایک بات اہم یہ ہے کہ موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا کے 2اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کو سرائیکی وسیب سے الگ کرکے لارڈ کرزن نے نوتشکیل شدہ این ڈبلیو ایف پی نامی صوبے میں شامل کیا تھا۔
سرائیکی قومی سوال اور جدوجہد کے حوالے سے کچھ پنجابی قوم پرست خواتین و حضرات معاندانہ طرزعمل اپناتے ہوئے نفرت و حقارت کے ساتھ جو پھبتیاں کستے ہیں اس سے دوریاں تو بڑھ سکتی ہیں بلکہ بڑھ رہی ہیں مکالمے کی فضا نہیں بن سکتی۔
دلچسپ بات یہ ے کہ اب کچھ عرصہ سے چند پنجابی قوم پرست "سپت سندھو ” اکائی کی بات کرنے لگے ہیں۔
کیا یہ سپت سندھو راجہ داہر کی مملکتِ سندھ کے اس نقشے پر ہے جو سیالکوٹ سے آگے دریائے توی کے کنارے تک تھی یا پھر ایک نیا فریب ہے سرائیکیوں کا کمبل چرانے کے لئے؟
عبید خواجہ کی ترجمہ کردہ ’’مقدمہ سرائیکستان‘‘ کے گیارہ ابواب اور ضمیہ جات ہر دو میں تفصیل کے ساتھ قومی سوال، قومی تحریک اورصوبے کے قیام کی جدوجہد پر بات کی گئی۔
یوں تو مکمل کتاب ہی اہم اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے لیکن تین تحریریں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں اولاً ’’ریاض ہاشمی اور سرائیکی قومی مسئلہ‘‘۔ ثانیاً ’’مسئلے کی کیفیت‘‘۔ ثالثاً ’’تشکیل نو کی وجوہات‘‘۔
کتاب کا تیسرا باب ’’تشکیل نو کا عہد‘‘ اور چوتھا ’’زبان و ثقافت‘‘ بھی قومی سوال پر مطالعہ کرنے والے اور خود سیاسی کارکنوں کے لئے خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ ’’مقدمہ سرائیکستان‘‘ کی اشاعت کےبعد سرائیکی وسیب کی بعض جماعتوں اور شخصیات نے کتاب دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے وسیب زادوں تک کتاب پہنچانے کے لئے خصوصی تعاون کیا یقیناً اس کی اہمیت ہے مگر یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ سرائیکی قوم پرست جماعتیں اس کتاب کو اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت کا حصہ بنائیں۔ کتاب میں دنیا کے مختلف حصوں میں قومی بنیادوں پر ریاستوں کے معرض وجود میں آنے پر بھی بات کی گئی۔ تاریخ و تہذیب ، تمدن اور سیاسی جدوجہد پر سیر حاصل بحث بھی۔
بہاولپور کی آئینی حیثیت والا حصہ تو بطور خاص پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ محترمہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ صاحبہ لکھتی ہیں ’’ریاض ہاشمی صاحب کی کتاب الگ صوبے کا مقدمہ ہے ” ۔ زندہ حقیقت بھی یہی ہے کہ جب یہ کتاب لکھی گئی تب بہاولپور صوبہ بحالی کی تحریک عروج پر تھی۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور بالخصوص مارشل لائوں میں سابق ریاست بہاولپور اور ملحقہ سرائیکی علاقوں میں الاٹ منٹوں کے نام پر ہوئی لوٹ مار اور آبادی کے تناسب کو مجرمانہ انداز میں تبدیل کرنے کے عمل کے بعد بہاولپور اور دوسرے سرائیکی علاقوں کے بزرگوں، سیاسی کارکنوں، اہل دانش اور قانون دانوں نے ضروری سمجھا کہ سابق ریاست کی حدود پر مشتمل صوبہ بنوانے کی بجائے قومی سوال اور شناخت کی بنیاد پر جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔
سرائیکی صوبہ محاذ کی تشکیل اسی سوچ کا اظہار تھا۔ سرائیکی صوبہ محاذ کے قیام سے قبل سرائیکی وسیب میں ’’سرائیکی لوک سانجھ‘‘ کے پلیٹ فارم سے لوک دانش، تہذیبی و تاریخی ورثے اور سماجی شعور کو اپنے عصر سے جوڑنے کے ضمن میں جو کام ہوا وہ بھی سرائیکی قومی جدوجہد کی تاریخ کا شاندار حصہ ہے۔
کتاب میں معروف دانشور اور سرائیکی صوبہ محاذ کے (اُس وقت) کلچرل سیکرٹری جناب اسلم رسول پوری کی تحریر بھی شامل ہے۔ جناب اسلم رسولپوری وسیب کی ان شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے قومی سوال اور تاریخ پر بے پناہ کام کیا۔
1960ء، 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں جن بزرگوں نے پمفلٹوں اور خطوط کے ذریعے قومی سوال کو زندہ رکھا ان میں مرید حسین خان راز جتوئی بھی شامل ہیں۔
ادبی و تہذیبی ثقافتی میدانوں کے ساتھ صحافتی دنیا میں حضرت مولانا نور احمد خان فریدی مرحوم مترجم و شارع دیوان فرید، سرائیکی سٹوڈنٹس فیڈریشن کے بانی عمر علی خان بلوچ، لالہ سید زمان جعفری، سید حسن رضا بخاری المعروف رضو شاہ ، مظہر عارف ، ڈیرہ اسماعیل خان سے سعید اختر سیال، بلند اقبال، ڈی جی خان سے مرحوم حمید اصغر شاہین و منظوربوہڑ مرحوم اور دیگر بزرگوں نے اپنے اپنے سفر حیات کا بڑا حصہ سرائیکی قومی جدوجہد کو دیا۔
سرائیکی قومی تحریک آج جس مقام پر ہے اس میں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے احباب کا کردار مثالی رہا۔
صحافتی میدان میں جناب منیر احمد دھریجہ اور ظہور دھریجہ (ثانی الذکر اب معروف قوم پرست رہنما ہیں) مرحوم خان محمد رضوانی و عمر علی خان بلوچ مرحوم ، لالہ مسیح اللہ خان جامپوری اور ارشاد احمد امین کا کردار بھی لائق تحسن ہے۔
ہمارے برادر عزیز عبید خواجہ خوش قسمت ہیں کہ انہیں محسن ملت سرائیکی، ریاض ہاشمی اور ان کے رفقا کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
تب عبید خواجہ کا آتش جواں تھا جب انہوں نے بطور طالب علم تحریک میں حصہ ڈالا۔ قیدوبند اور تشدد کی صعوبتیں برداشت کیں۔ عبید خواجہ ان دنوں ہمارے مرحوم دوست لالہ سید زمان جعفری کی تصنیف ’’ایس ایس بی‘‘ (سرائیکی سندھی بلوچ) کا اردو ترجمہ کرنے میں مصروف ہیں۔
عبید خواجہ برسوں سے امریکہ میں مقیم ہیں غم ہائے روزگار انہیں اپنی دھرتی تاریخ، جدوجہد سے الگ نہیں کرپایا۔ ’’مقدمہ سرائیکستان‘‘ کی ملک کے معروف اشاعتی ادارے فکشن ہائوس کے زیراہتمام اشاعت ہوئی۔
ہماری یعنی سرائیکی وسیب کی آج کی نسل کے لئے یہ کتاب اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ سرائیکی قومی سوال اور قومی جدوجہد کا تذکرہ کرتے ہوئے یقیناً کچھ بزرگوں دوستوں کے اسمائے گرامی رہ گئے ہوں گے۔
ہمارے ہاں چونکہ زودرنجی کا ہر وقت دور دورہ رہتا ہے اس لئے عرض کردوں کہ جن شخصیات کا ذکر نہیں کرپایا وہ بھی وسیب کے لئے قابل احترام ہیں۔
باردیگر برادر عبید خواجہ کا شکریہ کہ انہوں نے ایک اہم قومی دستاویز کا اردو ترجمہ کرکے پڑھنے والوں کے وسیع حلقے تک سرائیکی قومی جدوجہد کا مقدمہ پہنچایا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: