اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

درسی کتب کے ذریعے تاریخ کا قتل ||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تاریخ کا قتل آخر کیا کیوں جاتا ہے؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ کوئی بھی ریاست کبھی یہ نہیں چاہتی کہ اس کی جغرافیائی حدود میں بسنے والے لوگ پورا تو کیا نصف سچ بھی جان پائیں۔ لوگ اگر سچ جان لیں گے تو ریاست کی لگوائی نظریوں، مفادات، پروپیگنڈے اور عقیدوں کے تعصبات والی دکانیں بند ہوجائیں گی۔ پاکستانی ریاست کا معاملہ اس حوالے سے مختلف بھی ہے اور دلچسپ بھی۔

یہ ریاست ایک بٹوارے سے معرض وجود میں آئی۔ جن علاقوں کے لوگ مسلمانوں کے لئے الگ مملکت چاہتے تھے وہ علاقے اس کے جغرافیہ کا حصہ نہیں بنے جو اس کے جغرافیے کا حصہ بنے وہ اپنی ہزاریوں کی تاریخ قومی اور تہذیبی شناخت رکھتے تھے مقامیت کا قتل مذہبی قومیت سے ہوا۔

دنیا کے دوسرے تمام مسلمان ممالک اپنا مذہب تو رکھتے ہیں لیکن قومی شناخت سے دستبردار نہیں ہوتے کسی ایک مسلمان ملک سے یہ فرمائش کرکے دیکھ لیجئے کہ وہ مسلم قومی شناخت اپناتے ہوئے قدیم قومی شناخت سے دستبردار ہوجائے۔

ایسا ہوسکتا تو بلاد عرب ایک مملکت کے طور پر وجود رکھتی۔ یہ تجربہ ہمارے یہاں ہی ہوا۔

کتنے فائدے اور نقصان ہوئے اس کے بارے میں لکھنے والوں کی اکثریت اسے نظرانداز کرکے آگے بڑھ جاتی ہے۔ ریاست اور نظریہ سازوں سے پھڈا کون مول لے۔

گو کہ کوئی بھی دور فرزانوں سے خالی نہیں ہوتا۔ ماضی کی طرح آج بھی قومی سوال یعنی مقامی قومیتی شناخت پر بحث اٹھانے اور محرومیوں کی وجوہات گنوانے والے گنوارہے ہیں۔

اس ضمن میں طالب علم مرشد جی ایم سید کی اس بات سے متفق ہے کہ

’’قرارداد مقاصد مذہبی ریاست کے نام پر مقامی تاریخ و تمدن پر حملہ تھا اس حملے میں معاونت کرنے والوں کے اس سرزمین پر پائوں تھے نہ رشتے‘‘۔

کسی بھی ملک میں حقیقی تاریخ کا قتل دو طرح ہوتا ہے اولاً پروپیگنڈہ سے اور ثانیاً درسی کتب کے ذریعے۔ ہمارے ہاں تیسرا ذریعہ مذہبی قومیت ہوا، تمہید کی طوالت پر معذرت۔

ہم جناب خورشید کمال عزیز (کے کے عزیز) کی کتاب ’’پاکستان کی تاریخ کا قتل‘‘ پر بات کرتے ہیں۔ اردو اخبارات، اداریہ نویسوں اور کالم نگاروں سے ان کے شکوئوں پر پچھلے کالم میں تفصیل کے ساتھ عرض کرچکا۔

خورشید کمال عزیز نے درسی کتب کے ذریعے ہوئے تاریخ کے قتل کی جس شاندار اسلوب اور شواہد کےساتھ نشاندہی کی وہ بے مثال ہے۔ ہمارے ہاں کی سیاسی جماعتوں میں اب کارکنوں کی تربیت کے لئے سٹڈی سرکلز ماضی کا قصہ ہوئے۔

سیاسی جماعتوں میں یہ رسم اگر زندہ ہوتی تو ان سے عرض کرتا کہ ’’پاکستانی تاریخ کا قتل‘‘ نامی کتاب کو کارکنوں کی تربیت کے نصاب کا حصہ بنائیں۔ بہرطور پھر بھی بائیں بازوں بازو کی سیاسی فہم سے قربت رکھنے والے کارکنوں اور طلبا سے درخواست ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں اس سے مسلط جھوٹوں کا پردہ چاک تو ہوگا ہی بٹوارے کے بعد گھڑی گئی داستانوں کی حقیقت بھی دوچند ہوجائے گی۔

خورشید کمال عزیز نے اپنی کتاب میں مستند حوالوں کے ساتھ گھڑی داستانوں کا پوسٹ مارٹم کیا یہ خاصا محنت طلب اور روشن فکری کے ساتھ ہوا کام ہے۔ مثلاً انہوں نے اس تاریخی سچائی سے پردہ اٹھایا کہ

’’1945ء میں لیاقت علی خان نے کانگریس کے بھلہ بھائی ڈیسائی سے ایک معاہدہ پر دستخط کرتے مستقبل کی آئین سازی کے عمل میں مسلم لیگ کے ایک مخصوص طرزعمل کا وعدہ کیا۔ انہوں نے ڈیسائی کو یہ بتاتے ہوئے معاہدہ کیا کہ جناح بیمار اور قریب المرگ ہیں چنانچہ اگر کانگریس مسلمانوں کے ساتھ مسائل کا دیرپا اور عملی حل چاہتی ہے تو جناح کی بجائے ان کے ساتھ معاہدہ کرے۔

اس معاہدے کے لئے جناح صاحب سے مشورہ نہیں کیا گیا نہ ہی انہیں اعتماد میں لیا گیا تھا ۔ جناح صاحب نے جب اخبار میں لیاقت ڈیسائی معاہدہ پڑھا تو وہ بھونچکا رہ گئے۔

انہوں (جناح) نے اپنے سٹاف کو حکم دیا کہ لیاقت علی خان ان سے ملنے آئیں تو انہیں اندر نہ آنے دیا جائے۔ جناح صاحب کے خیال میں لیاقت کا عمل غداری کے زمرے میں آتا ہے۔

یہی وہ معاہدہ تھا جس کے ردعمل میں جناح صاحب نے 1946ء میں وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کےلئے لارڈ وویل کو بھجوائی گئی مسلم لیگ کے نامزد ارکان کی فہرست میں لیاقت علی خان کا نام نہیں شامل کیا بلکہ اس کی جگہ نواب محمد اسماعیل کا نام تھا جونہی یہ خبر نواب اسماعیل کے توسط سے صحافیوں تک پہنچی اور انہوں نے جناح صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے نواب اسماعیل کی جگہ لیاقت علی خان کو نامزد کردیا‘‘۔

ظاہر ہے کہ یہ تاریخی قصہ ہمارے ریاستی تاریخ نویسوں نے کسی مقصد کے تحت ہی نظرانداز کیا ہوگا مقصد صرف یہ تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح نے ’’مائی برادر‘‘ میں لکھا تھا

” علالت کے باعث زیارت میں مقیم جناح صاحب سے ملنے کے لئے آنے والے لیاقت علی خان اور ان کے ہمراہیوں سے مالاقات سے انکار کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ بھائی نے مجھ سے کہا یہ لوگ دیکھنے آئے ہیں کہ میرے فوت ہونے میں ابھی کتنی دیر ہے‘‘۔

پنجاب ٹیکسٹ بورڈ لاہور کے زیراہتمام 1986ء میں شائع ہونے والی ضلع لاہور کے لئے معاشرتی علوم کی کتاب کے صفحہ 8پر لکھا ہے

’’راجہ جے پال نے محمود غزنوی کے ملک میں داخل ہونے کی کوشش کی غزنوی نے راجہ جے پال کو شکست دی۔ لاہور پر قبضہ کرکے اسلامی حکومت قائم کردی‘‘۔

اب اگر ہم لاہور کی اسلامی سلطنت کے ’’قیام‘‘ کا سہرا محمود غزنوی کو پہنا ہی رہے ہیں تو اس سوال کا جواب کیا ہوگا کہ محمود غزنوی نے جب ملتان پر حملہ کیا تھا تو ملتان ایک اسلامی ریاست تھی۔

کڑوا سچ یہی ہے کہ حملہ آور حملہ آور ہوتا ہے اسے اپنے مذہب سے جوڑ کر ہیرو بنانے کا عمل برصغیر کے ان طبقات نے شروع کیا جو خود بھی کبھی نہ کبھی کسی حملہ آور کے ساتھ یہاں آئے تھے مقامیت سے انہیں خداواسطے کا بیر تھا خدا واسطے کے اس بیر نے مقامی تاریخ کو مسخ کرکے رکھ دیا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری درسی کتب اور تاریخی موضوعات کی دستیاب کتابوں میں مقامی تاریخ کا دور دور تک ذکر نہیں ملتا ہے کہیں ہے تو بس یہی کہ ہم آئے فتح کیا اور نئی دنیا آباد کردی۔

کے کے عزیز نے این ڈبلیو ایف پی (آج کے صوبہ خیبر پختونخوا) شائع ہونے والی معاشرتی علوم (یہ ٹیکسٹ بورڈ کی منظور شدہ تھی) میں گھٹالے کی نشاندہی کی۔ معاشرتی علوم کے صفحہ 5پر لکھا ہے کہ قائداعظم نے اسلامی ملک کی آزادی حاصل کرنے کے لئے مہم شروع کی تو صوبہ سرحد کے لوگ ان کے ساتھ تحریک میں شریک ہوگئے۔ یہاں اس صوبہ میں 1947ء تک اقتدار میں رہنے والے سرخ پوشوں کا ذکر تک نہیں کیا گیا‘‘۔

یہ بھی خوب ہوا یعنی جس صوبے میں لیگیوں کے بقول ہم نے ریفرنڈم میں سرخ پوشوں کو شکست دی تھی اسی صوبے کی معاشرتی علوم کی کتاب میں سرخ پوشوں کا ذکر نہیں۔

اسی صوبے (صوبہ سرحد کے ٹیکسٹ بورڈ کی منظور شدہ کلاس چہارم کی معاشرتی علوم کے صفحہ 16پر لکھا ہے

’’مسلمانوں نے غیر مسلموں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا (جب ان کی صوبہ پر حکومت تھی) جب انگریز فوج نے حملہ کیا تو غیرمسلموں نے مسلمانوں کے خلاف ان کا ساتھ دیا چنانچہ انگریز نے تمام ملک فتح کردیا‘‘۔

کے کے عزیز نے اس کے تبصرے میں 1881ء میں ہونے والی مردم شماری کا ذکر بھی کیا جس کے مطابق ہر 10ہزار میں سے 9184 افراد مسلمان تھے یعنی ہر 10ہزار میں سے 816 غیرمسلم تھے‘‘۔

 

اب ہمیں معاشرتی علوم میں غیر مسلموں کے انگریزوں کے ساتھ مل جانے اور سارا ملک فتح ہوجانے کی داستان کی حقیقت کو سمجھنا ہوگا۔ سچ یہ ہے کہ ہماری درسی کتب ایسے ہی ’’نمونوں‘‘ کا شاہکار تھیں اور اب بھی ہیں۔

ہماری درسی کتب مسلمان لشکروں کے حملوں کو مسلمانوں کی آمد قرار دیتی ہیں۔ کیا مطلب مسلمان لشکر پھولوں کے ہار لے کر آتے تھے؟ اچھا اگر یہ آمد بھی تھی تو خود کتب تاریخ میں ان ’’آمد‘‘ آنے والوں کے واپسی کے سازوسامان کا حساب درج ہے۔

مثال کے طور پر حفیظ خان اور دوسرے محققین جنہوں نے محمود غزنوی کے ملتان پر حملے کو تفصیل کے ساتھ لکھا وہ سبھی لکھتے ہیں کہ محمود غزنوی دوسرے مال و اسباب کے ساتھ ملتان سے 30ہزار نوجوان بچے اور عورتیں غلام بناکر لے کر غزنوی لے گیا غزنی کے جس حصے میں ان ملتانی غلاموں کی نیلامی ہوئی نیلامی کا یہ عرصہ 6ماہ کا ہے اسی لئے اس جگہ کا نام ملتانی چوک (میدان) پڑگیا۔

خورشید کمال عزیز ہمیں بتاتے ہیں کہ ہماری درسی کتب میں لکھا گیا تھا کہ ’’1956‘‘ کا آئین بناتو لیا گیا لیکن یہ فعال نہیں ہوا تھا کہ ساقط ہوگیا ”

حالانکہ 1956ء کا آئین 23مارچ 1956ء سے 7اکتوبر 1958ء تک فعال رہا۔ مارشل لاء کے نفاذ پر معطل ہوا اور پھر منسوخ۔ درسی کتب نے ہی بچوں کو بتایا کہ 1960ء میں ایوب خان ملک کے صدر منتخب ہوئے اور اس کے ساتھ ہی ملک میں جمہوریت بحال ہوگئی پھر ایوب خان نے اس طرح ملک کی خدمت کی کہ وہ دوبارہ بھی صدر منتخب ہوگئے۔ (صفحہ 68) معاشرتی علوم تیسرا ایڈیشن سال 1969ء۔

بالائی سطور میں تاریخ کے قتل کے چند حوالے ہیں ان سے طالب علم بہت کچھ سیکھ اور سمجھ سکتے ہیں۔ آج کے لئے بس اتنا ہی۔

۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: