اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چرائی گئی تہذیبوں کی نمائش||نذیر لغاری

ایس ایچ او نے کہا کہ کافی دیر سے بول رہے ہو۔ تم تھک گئے ہوگئے ایس ایچ او کے اس سوال پر اس نے نہایت اطمینان سے پوچھا کہ کیا میرا وقت پورا ہو گیا ہے۔ ایس ایچ او نے چونک کر پوچھا کہ کیا مطلب؟
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آج دنیا کے کونے کونے سے چرائی گئی تہذیبوں کے عالمی عجائب گھر میں ہوں۔جی ہاں یہ لندن کا دی برٹش میوزیم ہے۔میں یہاں تیسری بار آیا ہوں۔22 سال قبل جب جولائی 1999ء میں، میں یہاں آیا تھا تو میرے عزیز دوست بی بی سی کے پروڈیوسر جاوید سومرو میرے ساتھ تھے، دوسری بار جنوری 2007ء میں میری اہلیہ ، میری بڑی بیٹی ،دوبیٹے اور میرے بڑے بھائیوں کی محترم اور میرے مشفق دوست برکت علی قادری میرے ہمراہ تھے اور آج میرے ساتھ ایک بار پھر میری اہلیہ اور میری بیٹی میرے ساتھ ہیں۔ان تینوں مواقع پر اس عالمی عجائب گھر نے اپنےنئے نئے راز افشا کئے۔اس میوزیم سے پہلے میں رابن ہڈ کے شہر نوٹنگھم کاعجائب گھر دیکھنے کا کچھ احوال پیش کرچکا ہوں۔ نوٹنگھم کیسل کے بارے میں ایک خاص چیز کا احوال میں بتا نہیں سکا تھا تو بہتر ہوگا کہ دی برٹش میوزیم کا حال بیان کرنے سے پہلے نوٹنگھم کیسل کی اس خاص چیز کے بارے میں بھی بتادوں۔
جس چیز کا میں ذکر رہا ہوں، وہ ایک تحریر تھی جو نوٹنگھم کیسل میں ایک بورڈ پر شیشے کے فریم میں اویزاں تھی اور اس تحریر پر جمیکا نژاد برطانوی اسکالر اور ماہر سماجیات اسٹوارٹ ہال کا قول درج تھا۔وہ قول ہی اتنا زبردست تھا کہ اسے پڑھتے ہی میری سالخوردہ رگوں میں گرم خون گردش کرنے لگا۔پہلے آپ وہ قول پڑھیئے۔
"انگریزیت کو سمجھنے کیلئے اس کی سامراجی اور قبضہ گیرنوآباکاریت کو سمجھنا ضروری ہے”
برطانیہ کے ایک شہر میں ایسا چیختا چلاتا اور سامراج اور نوآبادیاتی نظام کی شدید مذمت کرتا عنوان دیکھ کر میں ٹھٹھک کر رہ گیا اور پوری تحریر پڑھنے لگا۔آئیے اب بورڈ پر اویزاں اس تحریر کو پڑھیئے۔
"نوٹنگھم کیسل کے عجائب گھر میں سامراج کا نقاب الٹنے اور ترکِ نوآبادیات کی داستان بیان کرنے کا مطلب یہاں پر موجود اشیاء کی ازسرنو تاریخوں کو بیان کرنا اور اُن کی کہانیاں سنانا ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ انہیں دیکھتے ہوئے یورپی تعصبات کی عینکیں اتار کر پھینک دی جائیں۔
ہمیں اکثر بتایا جاتا ہے کہ یورپ صنعتی اور تیکنیکی ترقی کے ساتھ ساتھ عظیم تہذیبوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔مگر ایسا کہنے سے پوری داستان بیان نہیں ہوجاتی اور نہ پورا سچ بیان ہوتا ہے۔ہم اس سے برطانوی نوآبادکاری اور سامراج کا سُراغ نہیں ملتا۔ یہ نہیں بتایا جاتا کہ یورپ سے باہر بہت سے ممالک خودکفیل تھے، وہاں بہترطرزِ حکمرانی رائج تھا، وہاں کے لوگ مہذب تھےاور وہاں کے لوگوں کی متنوع ثقافتیں تھیں اور وہاں وسائل کے انبار لگے ہوئے تھے۔
جب یورپی ان ممالک میں پہنچے تو وہ اپنی چوریوں اور قبضہ گیری کو چھپانے کیلئے وہاں کے مقامی لوگوں کو وحشی، جنگلی اورغیرمہذب کہنے لگے اور اس دھندے سے بھاری منافع کمانے لگ گئے۔ انہوں نے اپنی قبضہ گیری کیلئے کوئی پُرامن، قانونی اور عدم استحصال پر مبنی طریقۂ اختیار نہیں کیا جس کے ذریعے وہ دور دراز کے مقامی لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق قائم کرتے۔
سامراج کے نظام کی خرابیاں اور خامیاں ہر جگہ موجود تھیں۔ملکہ (اس تحریر سے پہلے ملکہ ایلزبتھ کی تدفین ہوچکی ہے) کے تاج میں جڑے ہیرے کوہِ نور کے علاوہ یہاں پر جو چائے اور چینی کے برتن سجا کر رکھے گئے ہیں اور دیگر جو سجاوٹ کی چیزیں ہیں، بات یہ ہے کہ ہم ان کی اصلیت سے واقف ہیں ۔یہ چیزیں ہمیں بے چین کردیتی ہیں اور ہمیں نسل پرستی ،سفید قوم پرستی اور اجنبیت اور اجنبی قبضہ گیر لوگوں سے دودوہاتھ کرنے کیلئے لڑائی پر اُکساتی ہیں۔اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم سامراج اورنوآبادیاتی قبضہ گیری سے کوئی مفاد یا فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہم تو چُھپائی گئی تاریخ اور بیانیہ کی حقیقت کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ عجائب گھراس بارے میں لاتعلق اورخاموش خاموش سے لگتے ہیں”
دی برٹش میوزیم کی مرکزی عمارت میں داخل ہونے کے بعد ہم بائیں طرف کے بڑے دروازے سے مسروقہ مصری تہذیب میں داخل ہوجاتے ہیں۔یہاں ہماری پہلی نظر گلابی پتھروں پر لکھی گئی تحریروں پر پڑتی ہے۔ یہ تحریریں علاماتی زبان میں لکھی گئی ہیں۔یہ چرند پرند، جانداروں یا اشیاء کی علامتیں ہیں جو اپنا وجودی یا اشکالی اظہار کرتی ہیں اور ان شکلوں سے زبانوں کو نہ جاننے والے بھی کچھ نہ کچھ ابلاغ حاصل کرلیتے ہیں۔پتھروں پر یہ تحریریں تختوں اور ستونوں پر ملتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ گلابی پتھروں پردرج یہ تحریریں سب سے قیمتی خزانہ ہے جو اس عجائب گھر میں موجود ہے اور ان تحریروں کو پڑھ اور سمجھ بھی لیا گیا ہے۔
ہماری موئنجودڑو کی مُہروں اور تختیوں پر درج تحریروں کو بھی پڑھنے کی کوششیں کوپن ہیگن یونیورسٹی کے ڈاکٹر سیموئل پرپولا نے کی تھیں اور جو چیزیں پڑھی جا سکی تھیں جو آج کی مروج اور بولی جانے والی سندھی اور سرائیکی کے الفاظ تھے بہرحال آج ہم دی برٹش میوزیم میں ہیں اور یہاں پر موجود چیزوں کے بارے میں بات کررہے ہیں۔یہاں پر موجود فراعنۂ مصر کے مجسمے اپنی الگ تاریخ بیان کر رہے ہیں۔مجھے لگ رہاہے کہ یہ فرعون یہ بتاتے ہیں کہ کیسے نپولین نے انیسویں صدی کے آغاز میں مصر کوفتح کرکے یہاں سے اُن کے مجسموں کو چرایا تھا اور پھر کیسے برطانوی نوآبادکاروں نے ان مجسموں کو فرانسیسیوں سے چھین کر یا چُرا کر اپنے قبضے میں لیا تھا۔جب 19ویں صدی کی عالمی چوریوں کی بات ہوتی ہے تو مجھے مجبوراً اپنی چوریوں کی طرف دیکھنے پڑتاہے جب گوجرانوالہ میں پیدا ہونے علاقائی دہشت گرد رنجیت سنگھ نے ملتان، پشاور اور کشمیر کی فتوحات میں خون کی ندیاں بہانے کے ساتھ ساتھ یہاں سے اربوں کھربوں کے خزانے بھی چوری کئے تھے جو بعدازاں اس سے انگریزنوآبادکار اُٹھا کر لے گئے تھے۔
دی برٹش میوزیم دنیا قدیم ترین عجائب گھر ہے اور اس عجائب گھر میں قدیم ترین چیز کیا ہوسکتی ہے، جی یہاں یہ ایک انسانی کھوپڑی کی پورٹریٹ ہے جوفلسطین کے شہر جریکو سے یہاں لائی گئی۔مجھے محمود درویش کی چیخیں اور غصے سے بھری آوازیں پورے عجائب گھر کی گیلریوں اور دیواروں سے نکل کر شہر کی سڑکوں پر پھیلتی سنائی دیتی ہیں۔ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ مصری حکومت نے برطانوی حکومت سے ایک دعوی بھی کررکھا ہے کہ گلابی پتھروں پر لکھی گئی تحریروں کے ساتھ دیگر تمام نوادرات برطانیہ مصر کو لوٹا دے۔
آپ کے خیال میں دی برٹش میوزیم میں دنیا بھر کے تمام براعظموں سے کتنی چیزیں لائی گئی ہوں گی۔میں آپ کو حیرت میں مبتلا کرتا ہوں، یہاں پر جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اس کا99 فیصد حصہ ہماری نظروں سے اوجھل ہے اور جو ہمیں نظرآتا ہے وہ محض ایک فیصد ہے۔باقی بہت سی چیزیں آرکائیوز اور دیگراداروں میں چھپا کر رکھی گئی ہیں، پھر بھی آپ یہ جان لیں کہ برٹش میوزیم کے پاس موجود نوادرات کی تعداد 80 لاکھ ہے۔اگر ہر نادر چیز کو کسی نہ کسی تہذیب کی نمائندہ تصور کرلیا جائے تو اس عجائب گھر کے پاس دنیا بھر کی اسی لاکھ مسروقہ تہذیبیں موجود ہیں۔
میں آپ کو چند چیزیں ہی بتا سکا ہوں۔مگر جو کچھ میں نے دیکھا وہ مجھے اور آپ کو حیران کردینے کیلئے کافی ہے۔میں لاطینی امریکہ، یورپ، چین، جنوبی ایشیا، اسٹریلیا کی مسروقہ تہذیبوں کی چیزوں کی تفصیل بتاکر آپ پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا۔بس ذرا تذکرہ اجرک اور سُوسی کا ہوجائے جو میرے سندھ کے شہر نصرپور اور ہالہ کی علامتیں ہیں اور دنیا میں سندھ کا تعارف کراتی ہیں مگر میں نے اجرک اور سُوسی کے دنیا کے سب سے آخری مغربی لاطینی امریکہ کے ملک پیرو سے لائی گئےنمونے اس میوزیم میں دیکھے۔سندھ اور پیرو کافاصلہ 16ہزار کلومیٹر ہے مگر اجرک اور سُوسی نے ہزاروں برس پہلے اتنا طویل سفر کیسے کیا؟ہمارے کراچی میوزیم میں رکھے کنگ پریسٹ (بادشاہ مولوی) کے پانچ ہزارسال پرانے مجسمے نے اجرک اوڑھ رکھی ہے۔ہمارے پاس اجرک اور سُوسی پانچ ہزار سال سے ہے مگر یہ تو پتہ چلے کہ اجرک اور سُوسی پیرو اور اس کے دارالحکومت لیما کے پاس کب سے ہے؟؟ظاہر ہے کہ یہاں پر اس میوزیم تو عالمی چوروں نے نمائش کیلئے یہ نمونے رکھے ہیں۔
بول نیوز اردو اورانگلش میں شائع ہوا۔

۔

اے وی پڑھو:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

%d bloggers like this: