مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مذہبی نظریات کو غیر جذباتی ہوکر دیکھنے کا مطلب۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ خالد تھتھال پاکستان کے ممتاز فری تھنکر ہیں۔ پنجاب کے کسی دیہی علاقے سے تعلق ہے۔ عشروں پہلے یورپ چلے گئے تھے۔ بچوں کی وہیں پرورش کی اور وہ اپنے اپنے شعبے میں کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔ بیٹی فلم میکر ہے اور بین الاقوامی ایوارڈز جیت چکی ہے۔
تھتھال صاحب کو پہلی بار علامہ شاید میں نے ہی کہا ہوگا۔ وہ اس سے متفق نہیں لیکن درحقیقت وہ الہات اور مذہبیات کے عالم ہیں اور موسیقی کا بھی خاصا علم رکھتے ہیں۔
میں نہیں جانتا کہ وہ روز اول سے فری تھنکر ہیں یا یورپ جاکر خیالات میں تبدیلی آئی۔ وہ کمیونزم یا سوشلزم سے بھی متاثر رہے ہیں۔ وہ پاکستان فری تھنکرز گروپ کے ان چند ارکان میں سے ہیں جو مذہبی نظریات اور تاریخ پر سوال اٹھاتے ہیں اور علمی مباحث شروع کرتے ہیں۔ علامہ ایاز نظامی کے علاوہ مجھے صرف حاجی مست علی اور سید امجد حسین کے نام یاد آرہے ہیں۔ آخر الذکر دونوں نام شاید قلمی ہیں۔ نام بدل کر مضامین لکھے جاتے ہوں گے۔
میں دس سال تک فری تھنکرز گروپ کا رکن رہا ہوں۔ اس میں مضحکہ اڑانے، احمقانہ باتیں کرنے اور گھسٹے پٹے سوال اٹھانے کے سوا کسی کو کام کی بات کرتے نہیں دیکھا۔ اس گروپ کی رکنیت کے لیے ملحد ہونا شرط نہیں۔ کوئی بھی رکن بن سکتا ہے۔ میرے کافی دوست، سمجھ دار اور صاحب علم دوست اس گروپ میں ہیں۔ وہ سب خاموش ہی رہتے ہیں۔
خالد تھتھال ان سب کے مہاتما، گرو اور باباجی ہیں۔ میرا بھی ان سے اچھا تعلق رہا۔ کبھی ان کا نام لے کر تنقید نہیں کی۔ کمنٹس میں ہمیشہ ان کی تعریف کی۔ ان کی ترجمہ کی ہوئی کتاب تئیس سال کو پروموٹ کیا بلکہ کئی پبلشرز کو وہ چھاپنے کی ترغیب بھی دی۔ کتاب کا موضوع ایسا ہے کہ پاکستان میں چھپ نہیں سکتی۔
جب میں نے کتب خانہ گروپ بنایا تو تھتھال صاحب نے مجھے اپنی آن لائن لائبریری شمع فروزاں کا ایڈمن بنادیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہزاروں ارکان کے فری تھنکرز گروپ میں ایک بھی شخص انھیں میرے جیسا نہیں ملا۔ میں ہی وہ شخص ہوں جو ان کے بعد یہ گروپ بہتر طریقے سے چلا سکتا ہوں۔
اس کے بعد تھتھال صاحب کو پتا نہیں کیا ہوا۔ یہ تو سچ ہے کہ انھوں نے میرا کوئی اسکرین شاٹ نہیں لگایا لیکن گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ میں میرا نام لے کر چار پوسٹیں کرچکے ہیں۔ وہ کچھ اس طرح کی ہوتی ہیں: مبشر علی زیدی نفیس آدمی ہیں، پتا نہیں کب شیعیت کے گٹر سے نکلیں گے۔ اس پوسٹ کے بعد ظاہر ہے کہ فری تھنکرز کا تبرا شروع ہوجاتا۔ لوز بال پھینکنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے۔
ایک بار، دو بار، تین بار، کتنی بار آپ برداشت کرسکتے ہیں۔ خیر، میں مزید بھی برداشت کرلیتا۔ لیکن ایک دن انھوں نے ریڈلائن کراس کرلی۔
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مبشر کے دادا پیر صاحب مشہور تھے لیکن وہ پیر نہیں تھے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مبشر کے دادا حکومت کے خواہش مند تھے لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مبشر کے دادا پر کوئی ظلم نہیں ہوا، وہ سچ نہیں ہے۔
میں نے دادا کو نہیں دیکھا۔ ممکن ہے کہ میں نے جو سنا پڑھا ہے، وہ غلط ہو۔ ہوسکتا ہے کہ آپ نے جو پڑھا سنا ہو، وہی غلط ہو۔ تاریخ کے کئی پہلو اور مورخین کے کئی موقف ہوسکتے ہیں۔ ہم اس بارے میں گفتگو کرسکتے ہیں اور اختلاف رائے پر اتفاق کرسکتے ہیں۔
لیکن تھتھال صاحب نے کہا، مبشر کے ایک جد مریل سے آدمی تھے، ان کی اتنی اولاد کیسے ہوسکتی ہے؟
کیا میں جواب میں پوچھوں کہ تھتھال صاحب کے والد مردانہ کمزوری کا شکار تھے، ان کی والدہ کیسے حاملہ ہوئیں؟
میں یہ نہیں پوچھوں گا۔ یہ اخلاق سے گری ہوئی بات ہے۔
مجھے احساس ہوا کہ تھتھال صاحب حد سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ یہاں سے راستوں کو جدا ہوجانا چاہیے۔ دونوں کے لیے باعزت طریقہ وہی تھا جو میں نے اختیار کیا۔ انھیں ان فرینڈ کردیا اور شمع فروزاں گروپ سے نکل گیا۔
تھتھال صاحب کو دو چار دن پہلے علم ہوا۔ انھوں نے پھر ایک پوسٹ کھڑکا دی اور اپنے ڈیڑھ سو چاہنے والوں سے مجھے گالیاں پڑوادیں۔ یہ الزام بھی لگایا کہ میں شمع فروزاں سے کتابیں چوری کرکے اپنے کتب خانے میں شئیر کررہا تھا۔ جب میں نے گزشتہ پوسٹ میں اس کا جواب دیا تو انھوں نے ایک نئی طویل پوسٹ میں لکھا کہ شمع فروزاں میں صرف علمی کتابیں شئیر کی جاتی ہیں، مبشر علی زیدی کے کتب خانے میں ڈائجسٹ ناول وغیرہ ہوتے ہیں۔
شمع فروزاں میں آگ کا دریا اور سیٹینک ورسز بھی موجود ہیں۔ پتا نہیں یہ ناول ہیں یا فلسفے کی کتابیں ہیں۔ تھتھال صاحب ہی بتاسکتے ہیں۔ میں اپنے کتب خانے میں ہر کتاب کا تعارف پیش کرتا ہوں۔ کسی نے شمع فروزاں میں یہی فرمائش کی تو تھتھال صاحب نے انکار کردیا۔ کتابیں پڑھی ہوں تو کوئی تعارف تبصرہ کرے۔
برسوں کی آشنائی کے بعد تعلق ٹوٹنے پر تھتھال صاحب کو خیال آیا کہ میں تو شیعہ ہوں، اگنوسٹک ہونے کا ڈراما کرتا ہوں۔ اب کوئی پوچھے کہ انھوں نے ایک شیعہ کو شمع فروزاں کا ایڈمن کیوں بنایا تھا۔
برٹرینڈ رسل کی ایک کتاب کا عنوان ہے، میں مسیحی کیوں نہیں ہوں؟ اس نے یہ کیوں نہیں لکھا کہ میں مسلمان کیوں نہیں ہوں یا یہودی کیوں نہیں ہوں؟ اس لیے کہ وہ مسیحی خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کا ایک خاندانی پس منظر تھا۔ جب ہم رسل کو پڑھتے ہیں تو ہمارے ذہن میں وہ پس منظر رہتا ہے۔ اپنے پس منظر کو کوئی فراموش کرکے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اپنے مشاہدات کو زیر بحث لائے بغیر کوئی کیسے علمی مباحث شروع کرسکتا ہے؟ اس کے بغیر صرف ٹھٹھہ اڑایا جاسکتا ہے، سنجیدہ گفتگو ممکن نہیں۔
میں سو بار کہہ چکا ہوں کہ میرا شیعہ خاندان سے تعلق ہے اور ہزار بار واضح کیا ہے کہ میں ملحد نہیں ہوں۔ تشکیک کا مطلب ایک دائرے سے نکل کر دوسرے دائرے میں قید ہونا نہیں۔ عقیدے سے دست برداری کا مطلب یہ نہیں کہ اپنے خاندان، رسوم اور ثقافت کو بھی چھوڑ دیں۔ جوش، سبط حسن، کرار حسین، جوہر حسین اور جون ایلیا نے بھی نہیں چھوڑا تھا۔ کیوں چھوڑیں؟ ہم ایک شاندار تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ غیر معمولی ادب اور شاعری کے قدردان ہیں۔ حریت پسندی کے معترف ہیں۔ آپ ایسے ورثے سے محروم ہیں تو ہمارا کیا قصور ہے؟
فری تھنکر ہونے کا مطلب ہے کہ آپ کے خیالات میں وسعت پیدا ہو۔ آپ نے تنگ نظر رہنا ہے تو پھر یہ بھی عقیدہ ہے۔ آپ ایک فرقے ہی کے رکن ہیں۔ مذہبی نظریات کو غیر جذباتی ہوکر دیکھنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ زندگی ہی سے جذبات کو نکال دیں اور بے حس ہوجائیں۔ اگر آپ نے جذبات دل سے کھرچ دیے ہیں تو جنسی عمل کیسے کیا؟ بچے کیسے پیدا کرلیے؟ مریل والی بات میں یہاں بھی نہیں کروں گا۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: