اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ کام جو ادھورے ہیں ||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رائٹنگ ٹیبل پر برادرِ عزیز عبید خواجہ کی ترجمہ شدہ جناب ریاض ہاشمی مرحوم کی تصنیف ’’مقدمہ سرائیکستان‘‘ کے ساتھ۔ خورشید کمال کی تصنیف ’’پاکستانی تاریخ کا قتل‘‘، خورشید رضوی کی کتاب ’’بازدید‘‘ کے ساتھ آصف ظہوری کی ’’تاریخ تقسیم ہندوستان‘‘ دھری ہیں۔
کرائے داری کی ہجرت ( یہ کسی عذاب سے کم نہیں ) میں لائبریری اتھل پتھل ہوگئی۔ بردارِ عزیز بلال حسن بھٹی ( العمروف مخدوم بلال حسن جعفری بھٹی دانشور و نقاد ) نے ہمت کی اپنی علالت کے باوجود مسافت طے کرکے تشریف لائے دو دن لگاکر انہوں نے کتب کو پھر سے ترتیب دیا تو یاد آیا گزشتہ دنوں نین سُکھ کی تصنیف ’’مادھو لال حسین‘‘ ارون دھتی رائے کی کتاب ’’ایک عام آدمی کا تصور سلطنت‘‘ کے ساتھ قدوس صہبائی کی داستان حیات ’’میری زندگی میری کہانی‘‘ پڑھنے کے لئے ایک دوست نے فراہم کی تھیں ۔
بازار تک جانے کی ہمت اور وسیلہ دونوں میسر نہیں ورنہ حال ہی میں شائع ہونے والی کچھ کتابیں لانے کا ارادہ تھا یہ اب تک ویسے ہی قائم ہے۔ دیکھتے ہیں دونوں کب اکٹھے ہوتے ہیں ہمت اور وسیلہ۔
بلال سے کہا تھا بھارت کے معروف دلت ماہر معاشیات ڈاکٹر نریندر جادھو کی کتاب ’’آوٹ کاسٹ‘‘ کا اردو ترجمہ ’’سونو‘‘ درکار ہے وہ آتے وقت لے آیا شکریہ تو بنتا ہے۔
البتہ اس نے کتاب تھماتے ہوئے پہلا سوال یہ کیا، شاہ جی آپ بیتی کا کام کہاں تک پہنچا؟ لمبی خاموشی میں جواب موجود تھا اس کے لئے لیکن وہی پرانے بہانے، یار کچھ پریشان ہوں، مسائل ہیں، صحت اچھی نہیں ر ہتی، ہاں مکان بدلنے کا مرحلہ آڑے آیا۔ وہ ہنسا اور بولا،
"نویں گل کرو اے سارے قصے پرانے ہوگئے ہیں”
میں نے کہا بہت سوچنے کے بعد اس فیصلے پر پہنچا ہوں کہ ’’زنداں کی چیخ‘‘ کو الگ سے مکمل کرلیا جائے بعد میں آپ بیتی شروع کرتا ہوں۔ اسے تجویز پسند آئی۔ ’’زنداں کی چیخ‘‘ قلم کار ویب سائٹ پر قسطوں میں لکھنا شروع کی تھی لگ بھگ 35اقساط لکھ چکا تو ہمارے دوست عامر حسینی نے مشورہ دیا، شاہ جی اسے خودنوشت کے انداز میں دوبارہ لکھیں۔ اس مشورے پر عمل کیا ہوتا البتہ لکھنے کا سلسلہ رک گیا۔
مشورہ اچھا تھا لیکن جس تسلسل سے لکھ رہا تھا وہ برقرار نہ رہ سکا اور درمیان چند برس "فرنٹیئر پوسٹ” کے بیگار کیمپ میں برباد ہوئے۔ کچھ لوگوں کی کج ادائیگیوں اور ورکرز کے ساتھ دوستوں کی پشت میں چھرا مارنے کی یہ داستان الگ ہے۔
بہرطور اب طے کیا ہے کہ ’’زنداں کی چیخ‘‘ کا باقی حصہ اکتوبر نومبر میں مکمل کرلیا جائے۔ اسی دوران ’’دل و جاں کی بستیاں، قیدی کے خطوط‘‘ اور ’’دہشت گرد یاانقلابی‘‘ کے پروف شدہ مسودے پبلشر کے حوالے کرکے ان کا شکوہ بھی دور کیا جائے۔ بلال بھٹی کا دوسرا مشورہ تصوف پر اب تک ہوئے کام کو ترتیب کے ساتھ موضوعاتی مناسبت سے یکجا کرنے کا ہے۔ مشورہ اچھا ہے مسئلہ پبلشر کی دستیابی و عدم دستیابی والاہے۔
خیر وعدے کے مطابق کاموں کو ترتیب سے مکمل کرنے کاعزم و ارادہ ہے۔
فوری طور پر مشکل یہ پیش آرہی ہے کہ لکھنے پڑھنے کے لئے کرائے کے اس نئے گھر میں جو کمرہ ہمارے حصے میں آیا ہے وہ انگریزی حساب سے سیکنڈ فلور پر ہے۔ "جگہ اللہ سائیں کے تو خاصی قریب ملی ہے” لیکن ابھی گرمی چونکہ موجود ہے اس لئے بارہ ایک بجے کے بعد یہاں بیٹھ کر کام کرنے میں خاصی مشکل پیش آتی ہے۔ معمول کے فرائض بہ امر مجبوری ادا کرتا ہوں کیونکہ یہی روزی روٹی کا وسیلہ ہیں۔
معاف کیجئے گا گرما گرم موضوعات کی موجودگی میں ٹھنڈا ٹھار کالم لکھ رہا ہوں آپ کو گراں محسوس ہوگا پڑھنا۔
پچھلی نصف صدی کی ریاستی اور سیاسی تاریخ کے دوسرے رخ کا جب کبھی ان کالموں میں ذکر کرتا ہوں تو بہت سارے دوست اورقارئین کہتے ہیں آپ کتاب کیوں نہیں لکھتے؟ لکھنا تو بالکل بنتا ہے تاکہ ہماری نسل نو کو علم تو ہو کہ گزری نصف صدی کا سچ کیا ہے۔
اس عرصے کی بہت ساری نازک باتیں گھاتیں اور قصے ہیں۔ لکھ دیئے جائیں تو آج نہیں تو کل یہ سوال ریاست سے ضرور پوچھا جائے گا کہ اس نے مصنوعی لیڈر پیدا کرنے کی جو فیکٹری لگائی اور نظریوں کے "چھاپہ خانے” ان سے ملک اور رعایا کو کیا فائدہ پہنچا؟
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم سوال نہیں پوچھتے۔ گاہے طنز و تضحیک اور گالی کو سوال سمجھتے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
پچھتر برسوں کو اٹھا بھی رکھیں تو 16دسمبر 1971ء کے بعد سے اب تک کے سفر میں ریاست سے جو بلنڈر ہوئے اس پر بات کی جانا بنتی ہے۔
مجھ ایسے طالب علموں کے نزدیک 16دسمبر 1971ء سے قبل کے ماہ و سال پر بھی بات ہونی چاہیے۔ مگر کیا بات بٹوارے سے شروع کرنے میں کوئی امر مانع ہے؟
جی نہیں بس دو قومی نظریہ کی دو دھاری تلوار میانوں میں رکھے مجاوران نظریہ پاکستان کے پھیلائے کوڑا کرکٹ کی صفائی ضروری ہے۔ یہ محنت اور ہمت طلب کام ہے۔
مجھے نہیں لگتا کہ مجھ سمیت بہت سارے دوست جو مطالعے مشاہدے اور مکالمے کی وجہ سے بٹوارے کی ’’اصلیت‘‘ سے واقف ہیں پورا سچ لکھ پائیں گے حالانکہ اس ادھار کی ادائیگی بہت ضروری ہے۔
اس جعلی متھ کا پوسٹ مارٹم ہونا چاہیے کہ پاکستان کی تشکیل میں کسی خواب یا بشارت کا عمل دخل ہے یا یہ کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو پتہ نہیں کیا ہوجاتا۔
کڑوا سچ یہی ہے کہ پہلے مسلم حملہ آور سے لے کر برطانوی راج تک کلرکی سے اسٹیبلشمنٹ کے فرائض اعزازات اور جاگیریں پانے والوں کے لئے رخصت ہوتے سامراج نے اقتدار سازی کا مضبوط و محفوظ بندوبست کرنا تھا۔
یہ انتظام و اہتمام اگر نہ ہوتا تو 14اگست 1947ء سے قبل کے ولن آج بھی ولن ہی ہوتے اور مزاحمت کار ہی اصل ہیرو۔ مقبوضہ علاقوں کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہوتی ہے کہ اگر حملہ آور لشکر واپسی کا راستہ لے تو وہ مالِ دنیا، غلاموں باندیوں کے انبوہ اور ہنرمندوں کو ہمراہ لے جاتا ہے لیکن اگر قیام و حکمرانی کا فیصلہ کرے لو تو پھر تاریخ بدلنے کا اہتمام کرتا ہے۔ ہمارے ساتھ چلیں یوں کہہ لیجئے ہند اور سندھ (تب یہی شناختیں تھیں) کے ساتھ ہوا یہ کہ مال دنیا بھی لے جایا گیا، غلام و باندیاں بھی۔
رہی سہی کسر حملہ آوروں کی اقتدار سازی کے عمل میں معاون بننے والی اسٹیبلشمنٹ نے تاریخ بدل کر پوری کردی۔
ہم اس تلخ حقیقت سے آنکھیں نہیں چراسکتے کہ ہر حملہ آور اپنی اسٹیبلشمنٹ ہمراہ لایا مقامی طور پر ابتدا میں اسٹیبلشمنٹ کو چاکروں اور درباریوں کی ضرورت تھی۔
یہی مراعات یافتہ طبقات کچھ آگے چل کر اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بنے۔ مقامی تاریخ، تہذیب و تمدن، روایات اور وسائل کے ساتھ سب سے زیادہ کھلواڑ انہی چاکروں اور درباریوں نے کیا۔
ظل الٰہی کا اقبال بلند ہو سایہ تاقیامت برقرار رہے کی خوشامد بھری آوازیں بلند کرنے والوں نے تو مراعات و اعزازات کے ساتھ جاگیریں حاصل کیں عام آدمی کی قسمت میں تب بھی غلامی تھی آج بھی ہے۔ بس غلامی کے انداز اور ” آداب ” بدلے ہیں
مندرجہ بالا معروضات کا مقصد یہی ہے کہ مقامی تاریخ کو پھر سے الگ کرکے لکھنے اس سے پہلے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مثال کے طور پر جب ہم ملتان کے ’’دانش کدہ پرہلاد‘‘ کو اس کی قدیم طرز تعمیر کی وجہ سے کچھ لوگوں کو پرہلاد مندر کہنے لکھنے اور منوانے پر اصرار کرتے دیکھتے ہیں تو طالب علم کے طور پر دکھ گہرا ہوجاتا ہے۔
اس دکھ کی وجہ یہی ہے کہ ان ’’بوزنوں‘‘ کا کوئی علاج نہیں جو طرز تعمیر میں مذہب تلاش کرتے اور منوانے پر بضد ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقابلتاً وہ جسے مسلم طرز تعمیر قرار دیتے نہیں تھکتے وہ بھی ترکی و ایرانی اور کچھ کچھ وسط ایشیائی طرز تعمیر ہے۔
اصل میں جوبات سمجھنے والی ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ اگلی نسلوں کو سمجھانے والی ہے وہ یہ ہے کہ طرز تعمیر، تاریخ، روایات، تہذیب و تمدن اور قومی شناخت کا مذہب اور عقیدہ نہیں ہوتا یہ الگ سے معاملات ہیں۔
کسی خطے کے لوگ اگر اجتماعی یا گروہی صورت میں مذہب تبدیل کرتے ہیں تو ان سے ان کی قدیم شناخت چھین لینا جرم ہے کیونکہ اپنی اصل شناخت سے محروم لوگ مقامی تاریخ کی وراثت سے محروم کردیئے جاتے ہیں۔
بات لائبریری کو ترتیب دیئے جانے، کتابوں کے ذکر لکھنے پڑھنے اور چند وعدوں سے ہوتی ہوئی اس طرف نکل آئی چلیں کوئی بات نہیں کبھی کبھی ہلکی پھلکی کڑوی باتیں کرتے رہنا چاہیے۔ چند دنوں میں موسم قدرے بہتر ہوتا ہے تو ترتیب کے ساتھ ادھورے کام مکمل کرنے کا سلسلہ شروع کرتاہوں۔
طباعت کی منتظر کتب پبلشر کے حوالے کرکے ’’زنداں کی چیخ‘‘ کا بقیہ کام مکمل کرکے اگلا مرحلہ سرانجام دینے کی شعوری کوشش تاکہ تاریخ کی امانت حق داروں کے سپرد ہوسکے۔
دعائوں کی درخواست ہے صحت و سلامتی کے لئے سفر حیات کے اس موڑ پر ان دونوں کی اہمیت دوچند ہے، یہی کام اور وعدوں کی تکمیل کے اصل معاون ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: