مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ٹرانس جینڈر ایکٹ۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے وکیل نے ٹرانس جینڈر قانون کی حمایت کا اعتراف کیا ہے جب کہ چیف جسٹس شریعت کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ جے یو آئی نے خود ٹرانس جینڈر قانون منظور کیا، اب یہاں کیا لینے آئی ہے۔وفاقی شرعی عدالت میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کیخلاف جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ قانون کیخلاف دیگر درخواستیں پہلے سے زیر سماعت ہیں۔قائم مقام چیف جسٹس شریعت کورٹ نے پوچھا کہ آپکی درخواست میں نیا کیا ہے؟ عدالت کی طرف سے بجا طور پر استفسار کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اب پورے ملک میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کا طوفان اٹھا ہوا ہے تو یہ سب لوگ پہلے کہاں تھے؟ اب مسئلہ در پیش ہوا ہے تو خواجہ سرائوں سے متعلقہ تمام مسائل پر غور ضروری ہے۔ سینٹ کو بتایا گیا ہے کہ 2018ء کے بعد سے تین سال میں نادرا کو جنس تبدیلی کی قریباً 29 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں۔ ان میں سے 16530 مردوں نے اپنی جنس عورت میں تبدیل کرائی جب کہ 15154 عورتوں نے اپنی جنس مرد میں تبدیل کرائی۔ خواجہ سرائوں کی کل 30 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں 21 نے مرد کے طور پر اور 9 نے عورت کے طور پر اندراج کی درخواست کی۔ خالق کائنات نے انسان کو اشرف المخلوق قرار دیا ہے۔ انسان کی تعریف میں سب باتیں ہیں، مرد، عورت اور خواجہ سرا۔ فطرت کا قانون صنفی امتیاز کی اجازت نہیں دیتا۔ پوری دنیا میں میل شاونزم ہے، کہیں زیادہ کہیں کم۔ پاکستان میں خواتین سے دوسرے درجے کا سلوک ہوتا ہے اور پسماندہ علاقوں میں تو بعض حالات میں خواتین سے غیر انسانی سلوک بھی کیا جاتا ہے۔ خواجہ سرا کا مسئلہ ازاں بدتر ہے۔ خواجہ سرا وہ بے نصیب مخلوق ہے کہ پیدائش کے بعد ماں باپ اور بہن بھائیوں کی محبت سے بھی محروم ہو جاتی ہے۔ پیدائش کے وقت سے ان کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ بڑے ہوتے ہیں بات بات پر طعنے ملتے ہیں۔ اُن کی تعلیم و تربیت پر اس سے نصف توجہ نہیں دی جاتی جو بیٹا یا بیٹی پر دی جاتی ہے۔ اسی امتیازی سلوک کے باعث وہ گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ گھر کے علاوہ ان کی پناہ گاہ اُن کا خواجہ سرا قبیلہ ہوتا ہے جہاں گرو کی صورت میں خونخوار مافیاز موجود ہوتے ہیں۔گرو خواجہ سرا کو اپنی پناہ میں لے تو لیتے ہیں مگر ہوس زر کیلئے کام لیے جاتے ہیں۔ گرو خواجہ سرائوں کو آگے بیچ دیتے ہیں۔ خواجہ سرا جتنا خوبصورت ہوتا ہے۔ اس کا ریٹ اتنا زیادہ لگتا ہے۔ خریدنے والے خواجہ سرا کی کھٹی کھاتے ہیں۔ خواجہ سرائوں سے بھیک منگوائی جاتی ہے، ناچ گانا کرایا جاتا ہے۔ ایک لحاظ سے خواجہ سرائوں کا شمار مظلوم ترین مخلوق میں ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے خواجہ سرائوں کیلئے قوانین موجود نہیں۔ پہلے تو خواجہ سرا کا شناختی کارڈ نہیں بنتا تھا۔ خواجہ سرائوں کیلئے وراثت کے قوانین نہیں تھے۔ خواتین اور معذوروں کیلئے ملازمتوں کا کوٹہ ہے مگر خواجہ سرائوں کیلئے نہیں۔ اسی طرح اسمبلیوں میں بھی جس طرح خواتین کا کوٹہ ہے اسی طرح خواجہ سرائوں کا بھی ہونا چاہئے۔ وراثت کا مسئلہ اہمیت کا حامل ہے کہ خواجہ سرا بذات خود ایک صنف ہے مگر اُن میں بھی مرد، عورت کی تخصیص ہے۔ خواجہ سرا اگر مرد ہے تو باپ کی وراثت سے اس کو بیٹے کے برابر حصہ ملنا چاہئے اور اگر وہ عورت ہے تو پھر وہ والد کی وراثت سے بیٹی کے برابر حصے کا حق دار ہے مگر ان تمام چیزوں پر قانون سازی کی ضرورت تھی۔ اب جو قانون بنا ہے سارے جھگڑا اس بات پر ہے کہ خواجہ سرا کی صنف کا تعین کس طرح ہو؟ سینٹ میں سینیٹر مشتاق احمد خان کی ترمیم اس تبدیلی کو میڈیکل ٹیسٹ کے ساتھ مشروط کرتی ہے۔ یعنی مرد سرجن، لیڈی سرجن اور ماہر نفسیات پر مشتمل بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ یہ مخنث ہے اور اس کا اندراج کس طرف ہونا چاہیے۔ خنثیٰ مرد، خنثیٰ عورت اور خنثیٰ مشکل فقہی اصطلاحات ہیں اور اس کے باقاعدہ شرعی اصول و ضوابط ہیں خود یو کے میں 2004 ء میں جنسی تعین کے ایکٹ میں طبی معائنے اور طبی سرٹیفکیٹ کو لازمی کیا گیا ہے جب کہ پاکستان جینڈر ایکٹ 2018 ء کے لحاظ سے کسی میڈیکل بورڈ کی رائے کے بغیر اپنی صوابدید پر مرد سے عورت یا عورت سے مرد بننے اور تبدیلی جنس کا آپریشن کرانے کا اختیار ہے۔ ایک مسئلہ دو نمبری کا ہے جو اصل خواجہ سرا ہیں وہ ہر لحاظ سے ہمدردی کے حق دار ہیں مگر خواجہ سرائوں میں کثیر آبادی دو نمبر خواجہ سرائوں کی ہے ۔ ان خواجہ سرائوں میں بہت سے گرو بھی دو نمبر ہیں جو کہ پیشہ ور ہیں۔ نام نہاد گرو اپنا کاروبار چمکانے کیلئے غریبوں کے بچوں کو گھیر لیتے ہیں اُن کو مکمل طور پر اپنے جال میں پھنسانے کے بعد اُن کو خواجہ سرا بنا دیتے ہیں۔ غربت سب سے بڑا روگ ہے۔ غربت سے نہ جانے کیسے کیسے ہیرے ضائع ہو گئے۔ دو نمبر خواجہ سرائوں کی وجہ سے خواجہ سرائوں کو معاشرے میں بالکل ہی تیسرے درجے کا شہری بنا دیا ہے حالانکہ خواجہ سرائوں میں ہمدرد و غمگسار لوگ بھی ہیں۔ نماز، روزہ اور قرآن کی تلاوت کرنے والے بھی مگر بدنام لوگوں کی وجہ سے یہ دھتکاری ہوئی مخلوق بن گئے ہیں۔ 2018ء کے ایکٹ میں جنس کے تعین یا جنس کی تبدیلی کا اختیار خود فرد کو دے دیا گیا ہے اس میں خواجہ سرا کی قید بھی نہیں۔ یعنی کوئی بھی مرد نادرا کو درخواست دے کر اپنی جنس عورت کرا سکتا ہے اور کوئی سی عورت مرد بن کر اپنا نادرا کارڈ بنوا سکتی ہے۔ یہ بات قطعی طو رپر غلط ہے اور اصلاح طلب ہے اور جتنی جلدی اس کی اصلاح ہو جائے یہ بذات خود خواجہ سرائوں کیلئے بھی بہتر ہے۔ دو نمبر اور پیشہ ور خواجہ سرائوں کیلئے بھی تعزیری قوانین کا ہونا بہت ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: