اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اچھا رپورٹر ہر وقت چوکنا رہتا ہے ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکا میں بڑے اسکینڈلوں، تحقیقات طلب معاملات اور سیاسی ہنگاموں کے مقابلے میں عدالتی خبریں اکثر اہمیت نہیں رکھتیں۔ مقامی عدالتوں کی کوریج کے لیے جونئیر رپورٹروں کو بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک کیس کی رپورٹنگ کے لیے واشنگٹن پوسٹ نے ایک نوجوان کو ذمے داری دی۔
معاملہ یہ تھا کہ گزشتہ شب ایک عمارت میں کئی افراد نے نقب زنی کی تھی۔ عام رپورٹر چند سطروں کی خبر فائل کردیتا۔ لیکن نوجوان رپورٹر ذہین اور تیز تھا۔ اس نے نوٹ کیا کہ ان مبینہ چوروں کی نمائندگی کرنے کے لیے ایک بڑا وکیل آیا۔ معلوم ہوا کہ جس دفتر میں یہ لوگ گھسے، وہ ڈیموکریٹک پارٹی کا تھا۔ چھان بین سے انکشاف ہوا کہ ایک ملزم کا ماضی میں جاسوسی کے محکمے سے تعلق رہا تھا اور اس کے پاس سے جاسوسی کے آلات بھی برآمد ہوئے۔
اس رپورٹر کا نام باب ووڈورڈ تھا۔ آج سارا امریکا اسے جانتا ہے کیونکہ اس نے واٹرگیٹ اسکینڈل کا پول کھولا اور اس کے نتیجے میں تاریخ میں واحد موقع آیا جب ایک امریکی صدر یعنی رچرڈ نکسن کو استعفا دینا پڑا۔
اچھا رپورٹر ہر وقت جونٹی رہوڈز کی طرح چوکنا رہتا ہے اور میلوں دور کی خبر کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔
کراچی میں حیدری مسجد کا دھماکا آپ کو یاد ہوگا۔ مجھے جیونیوز جوائن کیے چھ ماہ ہوئے تھے اور تب اسپورٹس ڈیسک پر کام کرتا تھا۔ خود جیونیوز کے آغاز کو ڈیڑھ سال ہوا تھا۔ ایسے کسی سانحے پر دن بھر خصوصی نشریات چلتی تھی اور اسپورٹس کی خبروں کو جگہ نہیں ملتی تھی۔
نماز جمعہ میں دھماکے کے بعد سارا نیوزروم اس کی کوریج میں لگ گیا اور اسپورٹس والے پاوں پسار کے بیٹھ گئے۔ میں نے اپنے رپورٹر نسیم راجپوت کو فون کیا اور پوچھا، کدھر ہو؟ نسیم نے کہا، گھر پر ہوں۔ آج تو ویسے بھی کچھ اور نہیں چلنے والا۔ میں نے کہا، کراچی میں انٹرنیشنل باکسنگ ٹورنامنٹ جاری ہے۔ غیر ملکی باکسرز کہاں ٹھہرے ہیں؟ نسیم نے چونک کر ہوٹل کا نام بتایا۔ میں نے سوال کیا، ایونٹ کس جگہ ہے؟ نسیم نے مقام بتایا۔ مجھے یہ باتیں معلوم تھیں، صرف نسیم کو بیدار کررہا تھا۔
میں نے کہا، نسیم، حیدری مسجد باکسرز کے ہوٹل اور ایونٹ سینٹر کے درمیان میں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آج کے مقابلے منسوخ ہوجائیں گے۔ باکسرز ڈرے ہوئے ہوں گے۔ رپورٹ بناو گے تو رات پرائم ٹائم تک بار بار چلے گی۔ نسیم نے بعد میں بتایا کہ وہ اتنا پرجوش ہوا کہ ننگے پیر بھاگ کھڑا ہوا۔
ایک اور واقعہ سنیے۔ کراچی کے مقابلے میں پشاور میں رات جلدی ہوجاتی ہوگی۔ ایک شب دیر گئے جیونیوز کے اس وقت کے بیورو چیف عبداللہ جان کو اطلاع ملی کہ ایبٹ آباد میں کوئی حادثہ ہوا ہے اور آگ لگی ہے۔ مقامی رپورٹر شہر میں نہیں تھا اور کہیں ذاتی کام سے نکلا ہوا تھا۔ عبداللہ جان نے ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر سیٹلائٹ وین روانہ کردی۔ اتنی تیزی سے یہ کام ہوا کہ کیمرامین پہنچا تو آگ اس وقت تک بجھی نہیں تھی۔
اگلی صبح یہ خبر پوری دنیا میں چلی کہ دنیا کا سب سے مطلوب شخص مارا گیا اور اسے مارنے کے لیے آنے والے دو ہیلی کاپٹروں میں سے ایک تباہ ہوگیا۔ آگ اسی ہیلی کاپٹر میں لگی تھی اور اس کی ویڈیو شاید صرف جیونیوز کے پاس تھی۔
یہ سب تمہید تھی۔ اگلا واقعہ جس صحافی نے نہیں سنا، وہ پڑھ کر ناقابل بیان کیفیت کا شکار ہوجائے گا۔
پی ٹی وی لاہور کی ایک ٹیم کو جنوبی پنجاب میں کسی جاگیردار کے ذاتی چڑیاگھر کی رپورٹ بنانے کا اسائنمنٹ ملا۔ کام مکمل کرکے ٹیم نکلی تو وین ڈرائیور نے رپورٹر کی توجہ بلند و بالا شعلوں کی طرف دلائی کہ کوئی حادثہ ہوا ہے۔ رپورٹر نے کہا، گولی مارو یار۔ اگر کوئی بڑا واقعہ ہوا ہوگا تو لاہور والے کوریج کے لیے دوسری ٹیم بھیج دیں گے۔ ہم اس طرف گئے تو ہمارے خلاف انکوائری نہ ہوجائے۔
ٹیم واپس لاہور چلی گئی۔ شام تک پورے پاکستان کو علم ہوچکا تھا کہ وہاں ضیا الحق کا طیارہ گرا تھا اور اس کے ساتھ کئی جرنیل اور امریکی سفیر بھی مارے گئے تھے۔
اگر پاکستان میں اب بھی کچھ سمجھ دار نوجوان صحافت میں آنا چاہتے تھے تو وہ جان گئے ہوں گے کہ میں کیا سمجھا رہا ہوں۔ ویسے سمجھ دار ہوں گے تو اس طرف آئیں گے ہی کیوں؟ میں یونیورسٹی میں اپنے طلبہ سے کہتا تھا کہ میڈیا پڑھ تو رہے ہو، جرنلزم جوائن مت کرنا۔
جیونیوز جیسے حقیقی نیوز چینل تک کے کئی بہت اچھے رپورٹر میڈیا چھوڑ کر دوسرے شعبوں میں ملازمت کررہے ہیں۔ کسی کو اس بارے میں تحقیق کرنی چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا۔
خیر، تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں وجہ بیان کردیتا ہوں۔ یہاں شاہد مسعود، صابر شاکر، صدیق جان اور جمیل فاروقی جیسے احمق دسیوں لاکھ کماتے ہیں اور اچھا صحافی آئے دن بیروزگار ہوجاتا ہے۔ ملازمت پر لگا ہوتا ہے تو بجلی کا بل نہیں دے پاتا، یا میرے ایک اسلام آباد کے دوست جیسا انجام ہوتا ہے جس کے گھر کا میٹر عدم ادائیگی پر محکمہ گیس والے اکھاڑ کے لے گئے تھے۔
مطیع اللہ جان، اعزاز سید، احمد نورانی اور عمر چیمہ کی مثال میں یہاں دینا نہیں چاہتا کیونکہ ان جیسا جگرا ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا، جن کے سامنے جنرل کا طیارہ نہ پھٹے تو وہ خود پھاڑ دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: