مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کربل کتھا:شمالی ہند میں اردو نثر کی پہلی کتاب ||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمالی ہند میں اردو نثر کی پہلی کتاب کربل کتھا تھی جو فضل علی فضلی نے 1731 میں لکھی۔ یہ ملا حسین واعظ کاشفی کی فارسی کتاب روضۃ الشہدا کا ترجمہ تھی اور اسے دہ مجلس بھی کہا جاتا ہے۔
کربل کتھا نایاب ہوچکی تھی اور اس کا شاید ایک ہی پرانا نسخہ بچا ہے۔ اس کی دریافت کی کہانی دلچسپ ہے۔ علامہ اقبال نے جو شعر "کتابیں اپنے آبا کی” کہا ہے، وہ اس پر صادق آتا ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے پروفیسر مختار الدین احمد 1950ء کی دہائی میں اعلیِ تعلیم کے لیے آکسفرڈ گئے تو انھیں کسی نے کہا کہ کربل کتھا کا واحد معلوم نسخہ جرمنی کی کسی لائبریری میں موجود ہے۔ اگر تلاش کرسکو تو اچھا ہے۔
یہ نسخہ مولوی کریم الدین کے پاس تھا جو انھوں نے جرمنی کے مستشرق الویز اسپرنگر کو دے دیا تھا۔
اسپرنگر کون تھے؟ وہ آسٹریا کے ایک عالم تھے جنھیں مشرقی زبانوں اور علوم سے دلچسپی تھی۔ وہ پہلے لندن منتقل ہوئے اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم ہوکر ہندوستان چلے آئے جہاں انھیں دہلی کالج کا پرنسپل مقرر کیا گیا۔ وہاں انھوں نے چار کتابیں مرتب کیں اور کئی کتابیں یورپی زبانوں سے اردو میں ترجمہ کروائیں۔ سرسید نے آثار الصنادید انھیں کے کہنے پر لکھی تھی۔
اسپرنگر کو کتابیں پڑھنے اور جمع کرنے کا جنون تھا۔ جیسے میں اپنی ہزاروں کتابیں پاکستان سے امریکا لے آیا، اسپرنگر بھی ہندوستان سے واپسی پر سیکڑوں کتابیں یورپ لے گئے جو بعد میں برلن کے کتب خانے کی نذر کردیں۔ کربل کتھا کا نسخہ ان میں شامل تھا۔ ان کی کتابوں کا کیٹلاگ بھی چھپا ہے جو میرے پاس ہے۔
اسپرنگر کے سو سال بعد مختار الدین احمد جرمنی میں اس نسخے کو ڈھونڈتے پھرے۔ انھیں معلوم ہوا کہ جنگ عظیم کے دوران کتابوں کی حفاظت کے لیے انھیں برلن سے کہیں اور منتقل کردیا گیا تھا۔ کربل کتھا ٹوبنگن یونیورسٹی کی لائبریری کی زینت بنا تھا۔ آخر مختار الدین احمد اس کتب خانے پر پہنچے اور کتاب کی نقل تیار کرلی۔
یہ کتاب 1965 میں دہلی میں چھپی اور پٹنہ سے اجرا ہوا۔ اس پر مختار الدین احمد کے ساتھ مالک رام کا نام بھی درج ہے جنھوں نے اسے مرتب کرنے میں مدد کی۔ اب یہ ہندستان کی کئی جامعات کے اردو نصاب میں شامل ہے۔ گوپی چند نارنگ اور خلیق انجم نے اس پر مقالے لکھے جنھیں کربل کتھا کا لسانی مطالعہ کے عنوان سے ایک کتاب میں جمع کردیا گیا ہے۔
جی تو چاہتا ہے کہ میں روضۃ الشہدا اور لسانی مطالعہ بھی شئیر کروں بلکہ اسپرنگر کے کتب خانے کا کیٹلاگ بھی لیکن ظاہر ہے کہ ان میں زیادہ لوگوں کو دلچسپی نہیں ہوگی۔ میں یہاں 1965 میں شائع ہوئی کربل کتھا کی پی ڈی ایف پیش کررہا ہوں۔ اسے صرف مجلس کی کتاب نہیں، اردو نثر میں سنگ میل سمجھ کر محفوظ کیا جانا چاہیے۔
مرثیے کی تاریخ اور مراثی کی 55 کتابیں پیش کررہا ہوں۔ ان میں غالب حصہ میر انیس کا ہے جنھوں نے اردو مرثیے کو عروج پر پہنچایا۔ ان کے مرثیوں کے علاوہ ان پر لکھی گئی کتابیں اور ادبی جریدوں کے خاص نمبر بھی جمع کردیے گئے ہیں۔ مرثیے پر تحقیقی مقالے بھی آپ کی توجہ کے طالب ہیں۔
مرزا دبیر اور جوش ملیح آبادی کی کتابیں پہلے فراہم کرچکا ہوں لیکن یہاں بھی ڈال دی ہیں تاکہ ایک موضوع پر بیشتر کام اکٹھا ہوجائے۔
مرثیے پر ڈاکٹر ہلال نقوی نے بہت زیادہ کام کیا ہے۔ انھوں نے خود بھی مرثیے کہے ہیں اور مرثیے پر تحقیق بھی بہت کی ہے۔ ان کی اجازت سے ان کی کتابیں کسی اور موقع پر پیش کی جائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: