اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حبیب ابن مظاہر الاسدی||عامر حسینی

عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. روزنامہ بیٹھک ملتان کے ایڈیٹوریل پیج کے ایڈیٹر ہیں،۔۔مختلف اشاعتی اداروں کے لئے مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عامر حسینی
میں لجپالاں دے لڑلگیاں میرے توں غم پرے رہندے
……..
چھوڑے نہ مرا ساتھ مصیبت میں جو مولا
اِک دوست حبیب ابنِ مظاہرؑ سا عطا کر
(وسیم عبّاس)
تم راہ پر حسین ع کی چل کر بھی تو دیکھو
پھر دوست حبیب ابنِ مظاہرؑ سے ملینگے
(احسنؔ رضوی)
کوفہ میں معاویہ ابن ابو سفیان ابن ابو حرب کی مرگ کی خبر پہنچی تو وہاں پر موجود کبار شیعان علی علیہ السلام نے باہم مشاورت کرکے ایک اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا اور یہ اجلاس امام علی علیہ السلام کے بزرگ صحابی سلیمان بن صرد الخزاعی کے گھر پر منعقد ہوا اور اس اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ کبار شیعان علی کے دستخطوں اور دیگر کی تائید کے ساتھ خطوط امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں ارسال کیے جائیں اور اُن سے کہا جائے کہ وہ جلد از جلد کوفہ تشریف لائیں تاکہ شیعان علی علیہ السلام ظلم و جبر و استبداد پر قائم اموی ملوکیت کا خاتمہ کرنے کی تحریک شروع کریں –
ان خطوط پر دستخط ثبت کرنے والوں میں امام علی کے شاگرد، امام حسن اور امام حسین کے دوست اور ساتھی بزرگ مظاہر ابن حبیب بھی شامل تھے –
امام حسین علیہ السلام کا قافلہ جب کربلا پہنچ گیا تب تک کوفہ کی مکمل ناکہ بندی ہوچکی تھی – اور تمام قابل زکر کُبار شیعان علی علیہ السلام قید خانے میں ڈال دیے گئے تھے – ایک اندازے کے مطابق 60 ہزار سے زائد لوگ جن پر شک تھا وہ امام حسین علیہ السلام کے حامی ہیں کو جیل اور گھروں میں نظر بند کردیا گیا تھا- جبکہ پورے کوفہ میں اُن تمام محلوں میں بسنے والے قبائلی گھرانوں سے ہتھیار لے لیے گیے تھے جن پر امام حسین علیہ السلام کی حمایت کا شبہ تھا – مظاہر ابن حبیب ناکہ بندی سے پہلے ہی کسی نہ کسی طرح نواح کوفہ میں روپوش ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے – عبیداللہ ابن زیاد کو حبیب ابن مظاہر کی تلاش تھی – اُن کی تلاش جاری تھی –
امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں قیام کے وقت ایک خط محمد حنفیہ کو لکھا اور دوسرا خط انھوں نے حبیب ابن مظاہر کو لکھا –
اس خط کا متن تاریخ میں محفوظ رہ گیا اور اس خط نے بھی کوفہ کے شیعان علی علیہ السلام کی وفاداری کا ثبوت فراہم کیا –
(من الحسين بن علي بن أبي طالب (عليه السلام) إلى الرجل الفقيه حبيب بن مظاهر، أمّا بعد يا حبيب، فأنت تعلم قرابتنا من رسول الله (صلى الله عليه وآله)، وأنت أعرف بنا من غيرك، وأنت ذو شيمة وغيرة، فلا تبخل علينا بنفسك، يجازيك جدِّي رسول الله (صلى الله عليه وآله) يوم القيامة،
حسین بن علی (علیہ السلام) کی طرف سے مرد فقیہ حبیب ابن مظاہر کے نام، تم تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہماری قرابت داری سے واقف ہو – باقی سب سے زیادہ تم ہماری معرفت رکھتے ہو- تم اچھے اخلاق والے ہو، غیرت مند ہو – تو ہماری خاطر اپنی جان لٹانے سے دریغ مت کرنا – رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں قیامت کے روز اس کی جزا دیں گے
غیر معروف اور غریب روایات میں متن میں یہ بھی درج ہے کہ آپ نے لکھا کہ
‘ میرے دوست حبیب! ہمیں دشمن کے لشکر نے گھیر لیا ہے، تم ہماری مدد کو آؤ، آنے میں دیر مت لگانا- عاشور میں عصر تک پہنچ جانا وگرنہ پھر آخرت کے دن ملاقات ہوگی……
کہتے ہیں یہ خط آپ کی بہن شریکۃ المصائب زینب بنت علی سلام اللہ علیھا کے کہنے پر لکھا، انھوں نے امام حسین علیہ السلام سے کہا، ‘دشمن کی فوج پر فوج آرہی ہیں اور ہمیں گھیر رہی ہیں، آپ بھی اپنے دوستوں کو خط لکھ کر بلا لیجیے جس پر آپ نے حبیب ابن مظاہر کو خط لکھا –
کبار شیعان علی میں حبیب ابن مظاہر اور مسلم بن عوسجہ ہی کوفہ کی ناکہ بندی اور پہروں کو توڑ کر کربلا پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور مزید درجنوں شیعان علی بھی کربلا کے میدان میں دفاع امام حسین علیہ السلام کے لیے میدان میں آئے اور سب نے امام حسین علیہ السلام سے پہلے لشکر یزید کو للکارا اور جام شہادت نوش کیا سوائے ایک کے جسے یزیدی لشکر مردہ سمجھ کر لاشوں کے درمیان چھوڑ گیا تھا اور وہ ہی واقعہ کربلا کا سب سے سچا راوی بنا-
حبیب ابن مظاہر جب شہید ہوتے ہیں اور اُن کا سر یزیدی لشکر کاٹ کر لیجاتا ہے تو امام حسین علیہ السلام اُن کے بے سر لاشہ کو ہاتھوں میں لیتے ہیں اور پھر یہ جملے کہتے ہیں
للہ درک یا حبیب! لقد کنت فاضلا تختم القرآن فی لیلۃ واحدۃ
اے حبیب تم کتنے قسمت کے دھنی تھے اور واقعی تم صاحب فضیلت تھے کہ ایک رات میں تم (پورا) قرآن پڑھ ڈالتے تھے –
اور پھر چشم نم و گریہ کے ساتھ کہا،
عند اللہ احتسب نفسی و حماۃ اصحابی
میں اپنا اور اپنے اصحاب کے قتل کا حساب اللہ پر چھوڑتا ہوں –
آج بھی کربلاء میں سب سے پہلے حبیب ابن مظاہر کی قبر آتی ہے اور وہ ایک طرح سے حرم امام حسین علیہ السلام کے دربان کے طور پر ہیں- ہر زائر پہلے حبیب ابن مظاہر کی قبر پر حاضری دیتا ہے تب اُسے اذن زیارت حرم امام حسین علیہ السلام ملتا ہے –
ہر زائر جب حبیب ابن مظاہر کے روضہ پر حاضری دیتا ہے تو وہ اُن کی ضریح کے سامنے کھڑا ہوکر اُن سے یوں مخاطب ہوتا ہے:
اے اللہ کے نیک بندے، اللہ، رسول اللہ، امیر المومنین، فاطمہ زھرا، حسن و حسین علیھم السلام کے اطاعت گزار! السلام علیکم، اے غریب الوطن مسافر امام کے غمخوار! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، امام حسین رسول اللہ کی بیٹی کے بیٹے کی نصرت /مدد کی-آپ نے اپنی زات کے ساتھ اُن کی حمایت کی اور اتنی سخاوت کی کہ اپنی جان امام حسین علیہ السلام پر نچھاور کردی – پس اللہ پاک کی طرف سے آپ پر مکمل و اکمل سلامتی ہے، اے چھوٹے چاند آپ پر سلام ہو، اے حبیب ابن مظاہر آپ پر سلام ہو –
واقعہ کربلاء 61ء ھجری میں رونما ہوا اور آج 1444ھ ہے – تب سے لیکر آج تک شیعان علی المرتضٰی علیہ السلام کا یہی معمول ہے کہ وہ سب سے پہلے در حبیب ابن مظاہر پر حاضری دیتے ہیں اور اپنی پہلی دعا میں انھیں مخاطب کرکے ان کا اللہ، رسول، علی، فاطمہ، حسن و حسین علیھم السلام کا اطاعت گزار ہونا، اُن امام حسین کا غمخوار و مددگار ہونا اور اپنی جان کی سخاوت کرنے کا اعتراف کرتے ہیں اور اُن پر سلامتی بھیجتے ہیں – یہ عمل 1383 ھجری سالوں سے جاری و ساری ہے – حبیب ابن مظاہر الاسدی کی روح کس وجد اور سرشاری میں رہتی ہوگی، اس کا حال تو اہل عرفان ہی جانتے ہوں گے لیکن ہم اندازہ اور قیاس تو کرسکتے ہیں کہ حبیب اپنی قسمت پر کس طرح سے نازاں ہوں گے کہ ہر مکتب فکر، ہر ایک مذھب کا ماننے والا اُن کی دوستی، وفاداری اور قربانی کی تعریف کرتا ہے – اللہ اُن کی قبر انور پر اپنے انوار و تجلیات کی بارش کرے (آمین)
حبیب ابن مظاہر امام علی علیہ السلام کے اُن شاگردوں میں سے تھے جنھوں نے آپ علیہ السلام سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی تھی – دروس ہائے قرآن میں اُن کے ہم جماعت امام حسین علیہ السلام بھی تھے –
حبیب ابن مظاہر کوفہ میں بچوں، نوجوانوں اور عورتوں کو قرآن پاک پڑھنا سکھاتے اور رات بھر وہ نوافل ادا کرتے اور دوران نوافل سارا قرآن ختم کر ڈالتے –
امام علی ابن ابی طالب، امام حسن اور امام حسین علیھم السلام کے جانباز ساتھیوں میں ‘اصحاب قراء’ ہمیشہ سے نمایاں رہے – پہلا گروہ صحابہ کرام کا ہے جن میں کوفہ سے حجر بن عدی، عدی بن حاتم، عبداللہ بن مسعود سمیت کئی نامور صحابہ کرام ہیں – دوسرا گروہ کبار قراء تابعین کا ہے جن میں مالک الاشتر، سلیمان بن صرد الخزاعی سمیت درجنوں لوگ شامل ہیں – تیسرا گروہ صغار تابعین کا ہے جن میں حبیب ابن مظاہر کا نام بھی شامل ہے –
اہل قراء میں شامل ان تینوں طبقات کے افراد کے بارے میں ہر دوست اور دشمن کی یہ گواہی موجود ہے کہ یہ لوگ میدان جنگ میں جری سپاہی اور زمانہ امن میں صائم الدھر، اکثر اوقات مساجد میں اور پوری پوری رات عبادت میں گزارنے والے لوگ تھے- انھیں مال جمع کرنے اور عیش پرستی سے کوئی غرض نہ تھی – یہ لوگ ہمیشہ ظلم، بربریت، جبر،استبداد، ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرتے – یہ ارتکاز زر کے سب سے بڑے مخالف تھے – کلمہ حق کہنے سے باز نہیں آتے تھے –
ان سب قرآن کے قاریوں کی مشترکہ صفت تھی اور یہ کہ یہ سب امام علی علیہ السلام سمیت اہل بیت اطہار کے سب سے بڑے عاشق اور حامی تھے – اور ان کی اکثریت کو اسی جرم میں شہید کیا گیا – یہ زمین پر عدل و انصاف کی حکومت چاہتے تھے – یہ کمزوروں اور مجبوروں کو طاقتور کرنا چاہتے تھے اور یہی ادا اموی بادشاہوں کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی –
اللہ پاک حبیب ابن مظاہر پر اپنی رحمتوں کا اور زیادہ نزول فرمائے اور ان کے ہر آنے والے دن کو گزرے دن سے زیادہ اچھا بنائے –
ہزاروں میں بہتر تن تھے صاحب تسلیم و رضا والے
حقیقت میں خدا اُن کا تھا اور وہ تھے خدا والے

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: