نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک میں سیاسی بحران گھمبیر تر ہورہا ہو تو مجھ جیسے ذات کے رپورٹر ”سیزن“ لگایا کرتے ہیں۔”اندر کی خبریں“ دیتے ہوئے آپ کو چونکاتے ہوئے داد وصول کرنے کی علت جی کو خوش رکھتی ہے۔ عملی رپورٹنگ سے مگر عرصہ ہوا ریٹائر ہوچکا ہوں۔برسوں سے بنائے تعلقات کی وجہ سے ”چوندی چوندی“ مگر بسااوقات گھر سے نکلے بغیر ہی مل جاتی ہیں۔ ایمانداری کی بات البتہ یہ بھی ہے کہ مسلسل لگے سیاسی تماشے سے اکتا چکا ہوں۔
حمزہ یا پرویز الٰہی کے وزیر اعلیٰ پنجاب ہونے کا فیصلہ اب سیاست دانوں نے نہیں سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔ نام نہاد تحریری آئین کے ہوتے ہوئے بھی سیاسی فیصلے غیر سیاسی اداروں کے سپرد کردینا میری دانست میں سوچنے سمجھنے والوں کے لئے پریشانی کا باعث ہونا چاہیے تھا۔ اس جانب مگر کوئی توجہ ہی نہیں دے رہا۔”کون بنے گا کروڑپتی“ جیسے گیم شوز کے تماشائیوں کی طرح ہم اپنے موبائل فونوں اور ٹی وی سکرینوں پر نگاہیں جمائے ہوئے سپریم کورٹ کا ”مزاج“جاننے کی جستجو میں مبتلا رہتے ہیں۔ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں جب کوئی ریاستی ادارہ حتمی فیصلہ ساز نظر آنا شروع ہوجائے تو اس کی حرمت اور تقدس برقرار رہنا بھی ناممکن ہو جاتا ہے۔ ان دنوں ہم ایسے ہی ناخوش گوار مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ فقط اس خواہش کا اظہار ہی کر سکتا ہوں کہ ہم اس مرحلے میں داخل نہ ہوتے۔
تواتر سے اس کالم میں یاد دلاتا رہا ہوں کہ آبادی کے اعتبار سے پنجاب ہمارا سب سے بڑا صوبہ ہے۔”سکھا شاہی“ کے پھیلائے انتشار کے بعد برطانوی سامراج نے 1850 کی دہائی سے اس صوبے کو ہمارے خطے کا انتظامی اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ بنانے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ نہروں کے جال سے نئے رقبے بنائے گئے۔ انگریزوں نے ”بندوبست دوامی“ کی بنیاد پر انہیں اپنے وفاداروں کو ”الاٹ“ کرنا شروع کر دیا۔ان رقبوں کی آباد کاری نے جو خوش حالی متعارف کروائی اس نے یہاں کے عوام کو ”جی حضوری“ کا مزید عادی بنایاجو ”سرکار“ کو اپنا حتمی ”مائی باپ“ تصور کرتی ہے۔
انتظامی اعتبار سے ”آ ہنی “کہلاتا پنجاب کا ڈھانچہ مگر 1947 کے فسادات روکنے میں قطعاََ ناکام رہا تھا۔ان دنوں کی وحشت تاریخ کی کتابوں میں پڑھیں تو آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ قیام پاکستان کے چند ہی برسوں بعد یہاں مذہب کی بنیاد پر ایک تحریک بھی چلی۔ اس پر قابو پانے کے لئے 1953 کے فروری میں لاہور میں مارشل لاءکے نفاذ کے ذریعے حالات کو معمول پر لانا پڑا تھا۔ اس برس کے لگائے مارشل لاءنے ہمارے ہاں اسی نظام کی خواہش وستائش کو توانا تر بنایا۔ایوب، یحییٰ ، ضیا اور جنرل مشرف کے لگائے مارشل لاﺅں کا اسی باعث ان کے ابتدائی ایام میں بے پناہ خیرمقدم ہوا تھا۔ بخدا میں آپ کو ذہنی اعتبار سے ایک اور ”میرے عزیز ہم وطنو“ کے لئے ہرگز تیار نہیں کررہا۔ یہ سوچنا بھی تاہم ضروری ہے کہ رواں برس کے مارچ سے یہ کالم لکھنے تک یہ طے ہی نہیں ہو رہا کہ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے اس صوبے میں کس کی ماں کو پنجابی محاورے والی ”ماسی“ کہا جائے۔
اقتدار کے سفاک کھیل میں مصروف فریقین میں سے کوئی ایک بھی ”ہار“ ماننے کو تیار نہیں ہو رہا۔ جو انتشار ہمیں ان دنوں بے قابو ہوا نظر آرہا ہے اس کے آغاز کی کلیدی وجہ عمران خان صاحب کا یہ فیصلہ تھا کہ عثمان بزدار وزارت اعلیٰ کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔میری دانست میں یہ ایک غلط فیصلہ تھا۔ تحریک انصاف سے ”باغی“ ہوئے اراکین پنجاب اسمبلی اگر حزب مخالف کی جماعتوں کے ساتھ مل کر بزدار صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت اعلیٰ کے منصب سے ہٹادیتے تب بھی کامیاب ہوجانے کے بعد آرٹیکل 63-Aکی زد میں آکر اپنی نشستوں سے محروم ہوجاتے۔ ”تخت لہور“ کو ہر صورت اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لئے تحریک انصاف نے مگر چودھری پرویز الٰہی کو میدان میں اتاردیا۔ان کو مگر باقاعدہ انداز میں ”منتخب“ کروانے میں ناکام رہی۔ ان کی جگہ حمزہ شہباز نمودار ہوئے تو آرٹیکل 63-A لاگو ہو گیا۔ اس کی بدولت خالی ہوئی 20 نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوئے۔تحریک انصاف نے عمران خان صاحب کی جارحانہ حکمت عملی کی بدولت ان میں سے 15نشستوں کو حیران کن انداز میں جیت لیا۔
ضمنی انتخابات کے جو نتائج آئے۔ان کے لئے چلائی انتخابی مہم نے جو ماحول بنایا اسے ذہن میں رکھتے ہوئے مسلم لیگ (نون) کو نہایت خلوص سے یہ تسلیم کرلینا چاہیے تھا کہ پنجاب اب اس جماعت ک اناقابل تسخیر ”قلعہ“ نہیں رہا۔ بہتر یہی تھا کہ چودھری پرویز الٰہی کو اس صوبے کا وزیر اعلیٰ منتخب ہونے دیا جاتا۔ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ چودھری پرویز الٰہی اقتدار سنبھالنے کے چند ہی روز بعد عمران خان صاحب کو یہ سوچنے کو مجبور کردیتے کہ گجرات سے ابھرے اس کائیاں کھلاڑی کو وہ ”وسیم اکرم پلس“ کی طرح اپنا تابع دار نہیں رکھ سکتے۔
مسلم لیگ (نون) کو مگر فکر یہ لاحق ہوگئی کہ پنجاب ان کے ہاتھ نہ رہا تو وفاق میں شہباز شریف صاحب کو بھی وزیر اعظم برقرار رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ان کا منصب بچانے کے لئے ڈٹ گئی اور پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ سے دور رکھنے کے لئے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر ہی انحصار کیا جس نے حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کو مستحکم نہیں ہونے دیا تھا۔طے اب یہ ہونا ہے کہ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کا ا نتخاب ہو تو اس میں ووٹ ڈالنے کے لئے حتمی فیصلہ ساز ”پارلیمانی پارٹی“ ہوگی یا کسی جماعت کا ”سربراہ“۔ ”جماعتی سربراہ“ کو آرٹیکل 63-A کی تشریح کرتے ہوئے سپریم کورٹ اب تک حتمی فیصلہ ساز ٹھہراتی رہی ہے۔مسلم لیگ (ق) کے قائد چودھری شجاعت حسین ہیں جو ”عمران خان کے نامزدہ کردہ“ امیدوار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنانے کیلئے کسی صورت رضا مند نہیں ہورہے۔ اگرچہ تحریک انصاف کے نامزد کردہ فرد ان کے قریب ترین عزیزوں میں شامل ہیں۔کئی دہائیوں سے وہ اور پرویز الٰہی بھائیوں کی ایسی جوڑی نظر آتے رہے جن کے درمیان ہوا کا گزرنا بھی ناممکن تصور ہوتا تھا۔
عام پاکستانیوں کی اکثریت کی طرح میں بھی ذاتی طورپر ”جماعتی سربراہ“ اور ”پارلیمانی پارٹی“ کے مابین اختیارات کی تقسیم طے کرنے والے سوال کو بال کی کھال نکالنے والی موشگافی ہی تصور کرتا ہوں۔میری بنیادی فکر وطن عزیز کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کے ”انتظامی بندوبست“ تک مرکوز ہے جو نہایت تیزی سے کامل خلفشار کی نذر ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر