اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حمزہ شہباز بطور ٹرسٹی وزیراعلی خدمات انجام دینگے، سپریم کورٹ

عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کو تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی، پنجاب حکومت بھی اپنا تفصیلی و تحریری جواب جمع کرائے۔

ڈیٹی اسپیکر رولنگ کیخلاف درخواست پر سپریم کورٹ نے  حکم دیاہے کہ حمزہ شہباز پیر تک بطور ٹرسٹی وزیراعلیٰ کام کریں گے ،، اس دوران تمام تقرریاں میرٹ پر

ہوں گی، میرٹ سے ہٹ کر تقرریاں ہوئیں تو کالعدم کر دیں گے، وزیراعلیٰ سیاسی فائدے کے لیے کچھ نہیں کریں گے، سپریم کورٹ کا وزیر اعلیٰ پر چیک رہے گا
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے معاملے پر پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کی۔عدالت نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حمزہ شہباز پیر تک بطور ٹرسٹی وزیر اعلیٰ کام کریں گے، وزیر اعلیٰ کے اختیارات محدود رہیں گے، تمام تقرریاں میرٹ پر ہوں گی، میرٹ سے ہٹ کر تقرریاں ہوئیں تو کالعدم کر دیں گے، وزیراعلیٰ سیاسی فائدے کے لیے کچھ نہیں کریں گے، سپریم کورٹ کا وزیر اعلیٰ پر چیک رہے گا،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسا لگ رہا ہے ڈپٹی اسپیکرنے ہمارےفیصلےکے خلاف رولنگ دی۔ ہمارے پاس ہمارا فیصلہ ہے جس سے یہ قانون ڈکلیئر قرار دیا گیا ہے۔ عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کو تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی، پنجاب حکومت بھی اپنا تفصیلی و تحریری جواب جمع کرائے۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پڑھی اور کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے فیصلےکے جس پیرا نمبر تین کا حوالہ دیا وہ پڑھ دیں۔ عرفان قادرایڈووکیٹ نے کہا کہ آرٹیکل تین ون اے کے تحت منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے یہ عدالت کی تحقیق تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ یہ عدالت کا فیصلہ ہے، عدالت کی تحقیق نہیں ہے۔ عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکرنے سپریم کورٹ کے فیصلےکی روشنی میں ووٹ شمارنہ کرنا درست سمجھا، ڈپٹی اسپیکر کے پاس دو چوائسسز تھیں، یا تو کہتے ووٹ شمار نہیں ہوں گے یا ووٹ شمار ہوگا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا تھاپارلیمنٹری پارٹی کی ہدایت کے خلاف ووٹ شمار نہیں ہوگا،ڈپٹی اسپیکر نے پیرا تین پر انحصار کرکے کیا سمجھا ہے؟ عرفان قادر ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ڈپٹی اسپیکر سمجھے پارٹی سربراہ ہی پارلیمنٹری پارٹی کی سربراہی بھی کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نےکہا کہ اگر بالفرض ڈپٹی اسپیکر غلط سمجھے تو نتائج کیا ہوں گے؟ عرفان قادر ایڈووکیٹ نےکہا کہ میں آپ سے بہت گھبراتا ہوں، ایسا تسلیم کرنے والا بیان نہیں دے سکتا، بادی النظرمیں بدقسمتی،خوش قسمتی سےمیری رائے بھی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے ساتھ ہے۔عدالت نےکہا کہ آپ سطحی طورپربتائیں ڈپٹی اسپیکر نے فیصلہ غلط سمجھا تو آگے کیا ہوگا؟ عرفان قادر ایڈووکیٹ نےکہا کہ حقائق پر کوئی تنازع نہیں ہے۔ ابھی مجھے ڈپٹی اسپیکر کی طرف سےجواب بھی جمع کرانا ہے، اگر عدالت کہے تو ڈپٹی اسپیکر بامقصد بیان عدالت میں پیش کردیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی سے کوئی ریکارڈ پیش ہوا ہے؟ اس پر عرفان قادر نے کہا کہ میرے علم میں نہیں کہ ریکارڈ آیا ہےکہ نہیں، آپ کو ریکارڈ سے کیا مخصوص چیز دیکھنی ہے۔۔چیف جسٹس نےکہا کہ اسپیکر کے ہاتھ میں چٹھی تھی وہ دکھائیں۔ بادی النظر میں حمزہ شہباز کا وزارت اعلیٰ کا عہدہ گہرے خطرے میں ہے۔ چوہدری پرویز الہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کرکے خلافِ آئین رولنگ دی اور ق لیگ کے دس ووٹ گنتی سے نکال دیئے گئے۔ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئینی طور پر چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلی پنجاب ہیں. سپریم کورٹ کے فیصلے میں آرٹیکل تریسٹھ اے کے تحت پارلیمنٹری پارٹی کی ہدایت پر ہی اراکین ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹری پارٹی کے اراکین نے چودھری پرویز الٰہی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا اور اکیس جولائی کو لیٹر بھی جاری کیا تھا۔ ڈپٹی سپیکر نے اپنی رولنگ میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا. بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ پارٹی صدر کے خط کو جواز بنا کر دس ووٹ مسترد کر دئیے جبکہ پارلیمانی پارٹی کے کردار کو نظر انداز کیا گیا. بیرسٹر علی ظفر کی استدعا تھی کہ عدالتی فیصلے تک حمزہ شہباز کے بطور وزیر اعلیٰ کے حلف کو روکا جائے۔ دوران سماعت فاضل ججز نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے آئین کی اصل روح کے مطابق تمام معاملات کو دیکھنا ہے،
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ڈپٹی سپیکر کو ذاتی طور پر طلب کر لیتے ہیں. دیگر فریقین کو بھی نوٹس جاری کر دیتے ہیں. چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل کو بھی معاونت کے لیے طلب کر لیتے ہیں. چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈپٹی سپیکر ہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کس پیرا گراف کا حوالہ دیا. چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ کتنی دیر میں طلب کریں. بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ دو گھنٹے میں بلوا لیں. جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کہ جمہوری روایات یہی ہیں کہ پارلیمانی پارٹی ہی طے کرتی ہے کس امیدوار کو ووٹ ڈالنا ہے، ہم ڈپٹی اسپیکر کو ذاتی حیثیت میں سننا چاہتے ہیں،عدالتی وقفے پر دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو ڈیپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی پیش نہ ہوئے تاہم انکے وکیل عرفان قادر نے پیش ہو کر جواب جمع کروانے کے لیے مہلت طلب کی۔ عدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے ڈیپٹی اسپیکر اسمبلی سے تحریری تفصیلی جواب طلب کر لیا

%d bloggers like this: