نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلم لیگ (نون)کے سرکردہ رہنماﺅں سے دست بستہ فریاد ہے کہ خود کو مزید خوش گمانی میں مبتلا نہ رکھیں۔ اتوار کے روز پنجاب اسمبلی کی طویل ڈرامائی کش مکش کے بعد خالی ہوئی نشستوں پر جو انتخاب ہوئے ہیں وہ روایت سے قطعاََ ہٹ کر نظر آئے۔تحریک انصاف کے حامیوں نے بھرپور جوش وخروش سے ان میں ووٹ ڈالتے ہوئے مذکورہ انتخاب کو ریفرنڈم میں بدل دیا۔ ”خدمت“ کا بیانیہ بری طرح پٹ گیا۔ یہ تصور بھی ہوا میں اڑ گیا کہ مسلم لیگ (نون) اگر وفاق یا پنجاب میں حکمران ہو تو سڑکیں صاف ستھری رہتی ہیں۔ خلق خدا کے لئے روزگار کے نئے امکانات فراہم ہوتے ہیں۔”گڈ گورننس“ پر اس جماعت کا اجارہ ختم ہوا۔لاہور بھی جسے دہائیوں کی محنت نے ”شریف خاندان کا شہر“ بنادیا تھا اب اس کے ہاتھ سے پھسل گیا ہے۔
خود کو تسلی دینے کے لئے مسلم لیگ (نون) کے کئی نابغے اب یہ تاویل گھڑ رہے ہیں کہ اتوار کے روز ہوئے انتخاب میں ان کی جماعت کو حیران کن شکست سے دو چار نہیں ہونا پڑا۔ ووٹر درحقیقت تحریک انصا ف سے ”لوٹے“ ہوئے افراد کو سبق سکھانے کے لئے مشتعل ہو گئے۔ حمزہ حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے مسلم لیگ (نون) ان ”لوٹوں“ کو اپنا ٹکٹ دینے کو مجبور تھی۔ اس کے دیرینہ ووٹروں نے اس فیصلے کو پسند نہ کیا۔ انہیں ووٹ دینے کے بجائے گھربیٹھے رہنے کو ترجیح دی۔ مسلم لیگ (نون) اگر اپنے وفاداروں ہی کو میدان میں اتارتی تو نتائج مختلف ہوتے۔ مذکورہ تاویل ہر اعتبار سے بودی اور ناقص ہے۔
مسلم لیگ (نون) کی حیران کن شکست کا بنیادی سبب ”لوٹے“ نہیں جان لیوا مہنگائی ہے۔ عام پاکستانی سمجھ ہی نہیں پا رہا کہ عمران خان صاحب کی اقتدار سے رخصت کے بعد کونسا عذاب ”اچانک“ نازل ہو گیا جس کی وجہ سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے طویل دورانیے کئی برسوں بعد لوٹ آئے۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان کو چھونا شروع ہو گئیں۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ و ہ یہ حقیقت تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہو رہا کہ حادثہ ”ایک دم“ نہیں ہوتا۔ معاشی میدان میں جو افسردگی نظر آرہی ہے وقت اس کی برسوں سے پرورش کر رہا تھا۔
رواں برس کے فروری کے آخری ہفتے میں روس کے یوکرین پر حملہ آور ہو جانے کے باوجود مسلم لیگ (نون)عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ کروانے کی تڑپ میں مبتلا رہی۔ اس تحریک کو ہر صورت ”29 مئی2022“ سے قبل کامیاب کروانا لازمی تصور کر لیا گیا۔ خلق خدا کو مذکورہ تاریخ کی اہمیت کی بابت ہرگز اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ مذکورہ تاریخ ایک اہم ریاستی عہدے پر تعیناتی اور اس کے ممکنہ اثرات کو اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ رہ نما فقط ڈرائنگ روموں ہی میں زیر بحث لاتے رہے۔ عوام یہ سمجھ ہی نہ پائے کہ مذکورہ دن کے بعد کونسی قیامت برپا ہو جانا تھی جسے ”ٹالنے“ کے لئے گیارہ جماعتیں یکسو ہو کر ”اکیلے“ عمران خان کے خلاف صف آرا ہو گئی ہیں۔
کو ئی پسند کرے یا نہیں عمران خان صاحب نے اپنے خلاف ہوئی محلاتی سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ میں ذاتی طورپر ”امریکی سازش“ کو ان کی فراغت کا سبب نہیں ٹھہراتا۔ تحریک انصاف کے دیرینہ متوالے مگر اس سازشی کہانی کو دل وجان سے اپنا چکے ہیں۔ ”میر جعفر“ کی بابت بنائی داستان بھی انہیں بہت بھائی ہے۔ روایتی اور سوشل میڈیا کے جارحانہ استعمال کے ذریعے عمران خان صاحب اپنے بیانیے کو روزانہ کی بنیاد پر ورد کی طرح دہراتے رہے۔ ان کی جگہ حکومت میں آئے شہباز شریف اور ان کے وزراء کوئی طاقت ور جوابی بیانیہ تیار کرنے میں قطعاً ناکام رہے۔
عمران خان صاحب کی جگہ آئی حکومت کی کامل توجہ آئی ایم ایف کو رام کرنے تک محدود رہی۔ پاکستان کو امدادی رقم فراہم کرنے پر آمادگی سے قبل اس نے شہباز حکومت کو ایسے کئی فیصلے لینے کو مجبور کیا جس نے عوام کی روزمرہ زندگی کو اجیرن بنادیا۔ ہمارے ”دوست“ اور ”برادر“ بھی خاطر خواہ مالی امداد فراہم کرنے سے گریز کے عالم میں رہے۔
شہباز شریف اور ان کے وزراء نے آج تک یہ حقیقت لوگوں کے روبرو لانے کی جرات بھی نہیں دکھائی ہے کہ ”مقتدر حلقوں“ نے انہیں رواں مالی برس کا بجٹ تیار کرنے سے قبل یہ پیغام بھجوا دیا تھا کہ مذکورہ بجٹ منظور کروا لینے کے بعد رواں برس کے اکتوبر میں عام انتخاب کے لئے تیار رہنا ہو گا۔ اس کے ایک ماہ بعد یعنی نومبر 2022 میں ایک اہم ترین ریاستی عہدے کی تعیناتی کی بابت فیصلہ ہونا ہے۔ مقتدر حلقوں کی خواہش تھی کہ یہ فیصلہ ”صاف ستھرے“ انتخاب کے ذریعے قائم ہوئی نئی حکومت کا وزیر اعظم کرے۔
شہباز شریف مبینہ پیغام ملنے کے بعد گھبرا گئے۔ انہیں خوف لاحق ہو گیا کہ آئی ایم ایف کو ہر صورت رام کرنے والا بجٹ تیار کرنے کے چند ہی ہفتوں بعد وہ اگر عوام سے ووٹ کے طلب گار ہوئے تو ان کی جماعت کو ذلت آمیز شکست سے دو چار ہونا پڑے گا۔ اپنے وزراءسمیت لندن چلے گئے۔مسلم لیگ (نون) کے حتمی فیصلہ ساز نواز شریف کے ساتھ طویل مشاورت ہوئی۔ بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ عوام کو اذیت دینے والا بجٹ پیش کر دیا جائے۔ اس کی منظوری کے بعد مگر نئے انتخاب کے انعقاد کے لئے اگلے برس کے اگست تک ہر صورت اقتدار ہی میں رہنا ہو گا۔ مذکورہ فیصلہ عوامی جذبات سے قطعاًغافل دکھائی دیا۔
بہرحال آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں ضمنی انتخاب نہیں ”ریفرنڈم“اب ہو چکا ہے۔ 22 جولائی کو تحریک انصاف کے نامزد شدہ صاحب اس صوبے کے وزیر علیٰ منتخب ہو جائیں گے اس کے بعد عمران خان صاحب کے لئے سیاسی اعتبار سے لازمی ہو جائے گا کہ وہ لاہور کو مرکز بناتے ہوئے اسلام آباد پر لانگ مارچ کی تیاری کریں اور اس شہر پہنچ جانے کے بعد نئے انتخاب کی تاریخ لے کر ہی واپس جائیں۔ رانا ثناءاللہ کے لئے پنجاب اور خیبر پختونخواہ سے آئی عوامی یلغار کے آگے بند باندھنا ناممکن ہو جائے گا۔ بہتر یہی ہے کہ شہباز صاحب ازخود وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو جائیں۔ ان کے ”اتحادی“ اس کے لئے رضا مند نہ ہوں تو موجودہ قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے بجائے اسے کسی اور شخص کو وزیر اعظم منتخب کرنے کو مجبور کریں۔ یہ قدم اٹھائے بغیر مسلم لیگ (نون) کی سیاسی عمل میں گج وج کر بحالی آئندہ کئی مہینوں تک ناممکن ہو جائے گی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر