نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید کے دوسرے دن ایک اہم اطلاع ملنے کی بدولت بالآخر قائل ہوگیا کہ میں واقعتا دُنیا سے کٹ کر گوشہ نشین ہوچکا ہوں۔ ہمارے معاشرے میں چند رویے تیزی سے نمایاں ہورہے ہیں اور میں ان کی بابت قطعاََ بے خبر۔عملی رپورٹنگ سے ریٹائر ہوکر کالم نویسی کے بہانے بھاشن دینے کا عادی ہوئے ’’صحافی‘‘ کے لئے یہ ہرگز خیر کی خبر نہیں ہے۔اپنی کوتاہی پرواز سمجھانے کے لئے تاہم پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔
برسوں سے یہ عادت اپنا رکھی ہے کہ دونوں عیدوں کے دن میں فقط اپنے خاندان،قریب ترین عزیزوں اور دوستوں کے لئے وقف رکھتا ہوں۔اخبارات اور سوشل میڈیا سے کامل گریز اور ٹی وی دیکھنے کی مجھے ویسے ہی عادت نہیں رہی۔ اس تناظر میں کھانے کی ایک محفل میں دریافت ہوا کہ اسلام آباد کے نسبتاََ خوش حال طبقات کی ایک مؤثر تعداد امریکی اور یورپی افراد کی طرح ماہرین نفسیات سے رجوع کرنا شروع ہوگئی ہے۔ان کی طلب اتنی زیادہ ہے کہ اچھی ساکھ والے ماہر سے وقت حاصل کرنے کیلئے ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں انتظار کرنا پڑرہا ہے۔
انسانوں کے نفسیاتی مسائل کی تشخیص اور ان کا حل فراہم کرنے والے ماہرین بنیادی طورپر دواقسام میں بٹے ہوئے ہیں۔پہلی قسم کے ماہر ’’مریض‘‘ کو صوفہ نما بستر پر لٹاکر اسے اپنی زندگی سے جڑے واقعات کھل کر بیان کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔آسٹریا کا مشہور ماہر نفسیات سگمنڈفرائڈاس نوع کے علاج کا بانی تصور ہوتا ہے۔عموماََ اسے ’’تحلیل نفسی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
کئی دہائیاں گزرجانے کے بعد مگر ماہرین نفسیات کی ایک نئی کھیپ تیار ہوئی۔انسانوں کے طبی مسائل کی بابت ہوئی تحقیق کی بدولت انہوں نے دریافت کیا کہ کسی شخص کا ماضی اور اس کے دل پر گزری وارداتیں ہی اس کے نفسیاتی مسائل کا بنیادی سبب نہیں ہوتیں۔ ہمارے خون میں مختلف النوع کیمیائی مواد بھی شامل ہوتے ہیں۔معمول کی زندگی گزارنے کے لئے ان کا طے شدہ تناسب میں برقرار رہنا لازمی ہے۔ یہ تناسب بگڑ جائے تو آدمی ’’دیوانوں‘‘ جیساہوجاتا ہے۔ ماہر نفسیات کی لہٰذا یہ کاوش ہوتی ہے کہ وہ آپ کے کیمیاوی مواد میں رونما ہوئے ’’عدم توازن‘‘ کا سراغ لگائے اور نہایت تحقیق کے بعد تیار ہوئی ادویات کے ذریعے آپ کو خوش مزاج رکھے۔ ایسے ماہر کو ’’تھراپسٹ‘‘ (Therapist)پکارا جاتا ہے۔خبر مجھے یہ بھی ملی ہے کہ اسلام آباد کے وہ رہائشی جو خود کو نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا محسوس کررہے ہیں کہ ان دنوں ماہرین ’’تحلیل نفسی‘‘ سے کہیں زیادہ کسی مؤثر ’’تھراپسٹ‘‘ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔اپنے مسئلے کو درد سر یا بلڈپریشر کی مانند لیتے ہوئے دوائیوں کی مدد سے شفا کے طلب گار۔
جو اطلاع ملی اس نے مجھے ہرگز پریشان نہیں کیا۔یہ جان کر بلکہ اطمینان ہوا کہ نفسیاتی مسائل کو ہمارا پڑھا لکھا اور نسبتاََ خوش حال طبقہ اب ’’پاگل پن‘‘ تصور نہیں کرتا۔ان کے بارے میں شرمندہ محسوس کرتے ہوئے انہیں چھپانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتا۔ طبیبوں سے بلکہ رجوع کرنا بھی شروع ہوگیا ہے۔خواہش پیدا ہوئی کہ ہمارے زیادہ سے زیادہ لوگ ایسا ہی رویہ اپنائیں۔ یہ خواہش ابھرنے کے بعد مگر خیال آیا کہ ہمارے معاشرے کے کتنے فی صد لوگ نفسیاتی الجھنوں کو طبی بیماری کی طرح سمجھنے کو آمادہ ہوں گے۔فرض کیا ان کی اکثریت آمادہ ہوبھی جائے تو ہمارے ہاں ماہرین تحلیل نفسی یا تھراپسٹ کی خاطر خواہ تعداد موجود نہیں ہے۔ وہ وافر مقدار میں نمودار ہوبھی جائیں تو روزمرہّ زندگی کے ٹھوس مسائل میں الجھے لاکھوں افراد کے پاس ان سے رجوع کرنے کے وسائل ہی میسر نہیں۔ وہ ’’دم درود‘‘ یا ’’جادوٹونے‘‘ ہی سے اپنے دُکھوں کا علاج ڈھونڈنے کو مجبور رہیں گے۔
غالبؔ نے ’’بلغمی مزاج‘‘ کو اپنے نفسیاتی روگ کا بنیادی سبب ٹھہرایا تھا۔گزشتہ ایک دہائی سے ملکی سیاست کو مشاہدہ کرتے ہوئے میں اکثرسوچتا رہا کہ ہماری قوم کا اجتماعی مزاج بھی ’’بلغمی‘‘ ہے۔عموماََ یہ ’’پل میں تولہ-پل میں ماشہ‘‘ والی کیفیت سے اپنا اظہار کرتا ہے۔اندھی نفرت وعقیدت نے بتدریج مگر اس کیفیت کو نظر بظاہر معدوم کردیا ہے۔اب مسلسل اضطراب والا معاملہ بھی نہیں رہا۔مستقل غصہ اور نفرت نے اس کی جگہ لے لی ہے۔
ترکی کا ایک شہرہ آفاق ناول نگار ہے۔نام ہے اس کا ’’اورحان پامک‘‘۔ استنبول اس کا آبائی شہر ہے جس سے وہ دیوانوں کی طرح عشق میں مبتلا ہے۔اس شہر کے مکینوں کے بغور مشاہدے کے بعد اس نے دعویٰ کیا تھا کہ استنبول کا اجتماعی مزاج مستقل ’’حزن‘‘ کی کیفیت میں رہتا ہے۔ ہمارے ہاں ’’حزن‘‘ ہمیشہ ملال کے ساتھ ملاکر استعمال ہوتا ہے’’حزن‘‘ اپنے تئیں کوئی کیفیت تصور نہیں ہوتی۔پامک کی تحریروں کا انگریزی ترجمہ کرتے ہوئے اکثر لوگ البتہ ’’حزن‘‘ کو مالیخولیا‘‘ بتاتے ہیں۔اردو ادب کے ناقدین کا خیال ہے کہ اردو غزل کے بانیوں میں سرفہرست میر تقی میرؔ تاحیات اس کی زد میں رہے۔۔اسی باعث ’’روتے روتے ‘‘سوجاتے تھے اور ’’سرہانے میرؔکے آہستہ بولو‘‘ کی فریاد کرتے۔ سوداؔ ان کے قطعی برعکس تھا۔اس کے ’’خدام ادب‘‘ شور قیامت کوبھی ’’ابھی آنکھ لگی ہے‘‘ بتاتے ہوئے موصوف سے دور رکھنا چاہتے۔ اپنی قوم کا جو اجتماعی مزاج ان دنوں دیکھ رہا ہوں میرا بنجر ذہن اسے کوئی نام دینے سے البتہ قاصر
ہمارے ’’بلغمی مزاج‘‘ میں کوئی ’’خلل‘‘ مگر یقینا داخل ہوچکا ہے۔اسلام آباد -لاہور موٹروے کے درمیان بھیرہ میں احسن اقبال کے ساتھ جو واقعہ ہوا۔اس کی سوشل میڈیا پر جس دیوانگی کے ساتھ مذمت یا پذیرائی ہوئی وہ میرے لئے حیران کن تھی۔جن لوگوں نے احسن اقبال پر آوازے کسے تھے عید کے روز مگر ان کے گھر پہنچ کر نظر بظاہر خلوص دل سے معافی کے طلب گار ہوئے۔مجھے یہ واقعہ ’’پل میں تولہ-پل میں ماشہ‘‘ محسوس ہوا۔ انگریزی میں اس کیفیت کو Mood Swingsپکارتے ہیں۔احسن اقبال کے ساتھ آوازے کسنے والوں کی ہنستی مسکراتی تصویر نے مجھ پرانی وضع کے آدمی کو اگرچہ اطمینان بخشا۔ اندھی نفرت مگر اس کے پیچھے بھی ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کا ’’دبائو‘‘ تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ اوربرطانیہ کی مثالیں دی جارہی ہیں جہاں غصے سے بپھرے عوام اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں کے اوپر گندے انڈے اچھالتے ہیں اور معافی کے طلب گار نہیں ہوتے۔ناپسندیدہ سیاستدانوں کی برسرعام مذمت بلکہ ’’آزادی رائے‘‘ کا بھرپور اظہار تصور ہوتی ہے۔مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ایسے دلائل کو کیا عنوان دوں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر