اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلوچ خواتین پرتشدد کرنےپراخترمینگل کےٹوئٹ کا بھانڈا پھوٹ گیا

لاپتہ افراد کی بازیابی کی قیادت کرنے والی افراد نے تھانے میں خود اپنی شوریٹی دی جس کی بنیاد انہیں چھوڑا گیا۔ ان کی رہائی میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کا کوئی کردار نہیں ہے۔

گزشتہ روز سندھ اسمبلی کے سامنے لاپتہ افراد کی جبری گمشدگی کے خلاف بلوچ خواتین پر سندھ پولیس کا بہیمانہ تشدد اور بچوں پر لاٹھی چارج کرنے پر حکمران جماعت، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر حکومت سے اپنی راہیں جدا کرنے کا عندیہ دیا۔ بلوچ حلقوں نے ان کے موقف کو فریب اور جھوٹ قراردیا ہے۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کی قیادت کرنے والی افراد نے تھانے میں خود اپنی شوریٹی دی جس کی بنیاد انہیں چھوڑا گیا۔ ان کی رہائی میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کا کوئی کردار نہیں ہے۔
واضع رہے کہ اختر مینگل نے ٹوئٹ کرتے ہوئے بلوچ خواتین پر سندھ پولیس کی گرفتاری اور تشدد کی مذمت کی۔ اور کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے حکومت نے انہیں وقت دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ڈیلیور نہیں کرسکتے تو ہم اپنی راہیں جدا کرلیں گے۔
سینئر صحافی اور مصنف عزیز سنگھور نے ٹوئٹر پر اختر مینگل کے ٹوئٹ پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں (اختر مینگل) کو جواب دیا کہ 13 جون 2022 کو سندھ اسمبلی کے سامنے بلوچ خواتین پر تشدد کے ممکنہ پولیس ایکشن کے بارے میں 12 جون سے آگاہ کررہا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ان (اختر مینگل) کو ایک دن قبل کہا تھا کہ حالات کشیدہ ہوگئے ہیں۔ آپ کراچی سے بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے بات کرکے ان کی رہائی ممکن بنائیں۔ مگر آپ نے کچھ نہیں کیا اور یہ ایکشن ہوا۔ عزیز سنگھور نے مزید کہا کہ انہوں نے 24 مئی 2022 کو کراچی پریس کلب کے سامنے بلوچ خواتین پر تشدد اور ان کی رہائی کےلئے اختر مینگل کو واٹس کے ذریعے رابطہ کیا۔ تاہم اختر مینگل نے انہیں جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کی آرگنائزر اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے جدوجہد کی قیادت کرنے والی رہنما آمنہ بلوچ نے اختر مینگل کو ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا: “اختر صاحب!! جب ہمارا دھرنا سندھ اسمبلی کے سامنے جاری تھا تو وہاں پر موجود سینئر صحافی اور مصنف عزیز سنگھور آپ کو واٹس اپ پر سندھ پولیس کے ممکنہ ایکشن کے بارے میں آگاہ کررہا تھا۔ اگر آپ بروقت بلاول بھٹو اور وزیراعلی سندھ سے بات کرتے تو یہ نوبت نہیں آتی۔ اب افسوس کرنا فضول ہے۔ سندھ پولیس نے ہم پر تشدد کیا۔ ہمارے بچوں کو مارا اور بچیوں کو راشی انسپکٹر سجاد نے گندی گالیاں دی ۔ اب آپکا استعفیٰ بلوچ قوم کے لئے بے معنی ہے۔ جب تک ہماری سر کی چادریں پولیس والوں کے ہاتھوں میں نہیں آتی آپ لوگ خاموش ہوتے ہیں۔ تھانے میں ہم نے خود اپنی شوریٹی دی تو ہمیں چھوڑا گیا۔ ہماری رہائی میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کا کوئی کردار نہیں ہے۔”انتہائی ضروری ہے

%d bloggers like this: