نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری نسل کے لوگوں کو میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے لئے انگریزی میں لکھی ایک کہانی بھی پڑھنا اور یاد رکھنا ہوتی تھی ۔یہ تو بہت بعد میں دریافت ہوا کہ ہم جس تحریر کا رٹا لگاتے تھے وہ درحقیقت ایک ضخیم ناول کا اقتباس تھا۔وہ ناول ایک خیالی مہم جوگولیور کے دور دراز خطوں کے سفر پر مشتمل تھا۔ایسے ہی ایک سفر کے دوران وہ ایک ایسے جزیرے میں پھنس گیا تھا جہاں کے باشندے مضحکہ خیز حد تک پستہ قد تھے۔وہ سفر کی تھکان سے بے ہوش ہوئے گولیور کو رسیوں سے باندھ کر بے بس ولاچار بنادیتے ہیں۔ان کی دانست میں وہ عجیب الخلقت ’’شے‘‘ تھا۔بہت تجسس سے وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ’’انسان‘‘ بھی ہے یا نہیں اور اگر واقعتا انسان ہے تو قدوقامت کے اعتبار سے ان سے اتنا مختلف کیوں ہے۔
انگریزی زبان سے سرسری شناسائی کے باوجود میری نسل کے بچوں کو گولیور کی کہانی مسحور بنادیتی تھی۔ہم مگر ان ‘‘مذاکرات‘‘ کو پڑھتے ہوئے قہقہے لگانا بھی شروع ہوجاتے جو بونوں کا سردار گولیور سے جاری رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔سردار کی گفتگو سننے کے لئے گولیور کا ایک ہاتھ بھی کھولنا پڑا تھا۔ہاتھ کھلنے کے بعد وہ سردار کو مٹھی میں لے کر اپنے کان کے قریب لاتا ہے تانکہ اس کے اٹھائے سوالات کو آسانی سے سن سکے۔
مذکورہ ناول کے مصنف کا نام جوناتھن سوفٹ تھا۔وہ برطانوی نژاد تھا مگر آج سے تقریباََ ساڑھے چار سو سال قبل آئرلینڈ میں پیدا ہوا۔وہ جزیرہ برطانیہ کی ابتدائی مہم جوئی کی وجہ سے برطانیہ کی نوآبادی ہوا۔ اپنی آزادی اور جداگانہ تشخص بحال کرنے کے لئے آئرلینڈ کے لوگوں کو کئی صدیوں تک جدوجہد کرناپڑا۔ سامراج کے خلاف ’’دہشت گردی‘‘ کا خوفناک چلن بھی یورپ میں انہوں ہی نے متعارف کروایا تھا۔
جوناتھن سوفٹ بذات خود ایک کٹرنسل پرست اور مذہبی قدامت پرست تھا۔اپنے نظریات اس نے مگر طنزیہ لہجہ اور زبان ایجاد کرتے ہوئے متعارف کروائے۔اس کے قاری سمجھ ہی نہ پاتے کہ وہ جو بات کررہا ہے محض پھکڑپن ہے یا سنجیدہ خیالات کی حامل۔ پھکڑپن کی البتہ ایک حد ہوتی ہے۔سوفٹ اسے اکثر روندتا چلا جاتا۔ایک بار اس نے نہایت ’’عاجزی‘‘ سے یہ تجویز بھی پیش کردی کہ آئرلینڈ میں پھیلی غربت اور اکثرپھیلتی قحط سالی کا واحد علاج یہ ہے کہ وہاں کے غریب اپنے بچوں کو جانوروں کی طرح بازار میں فروخت کریں اور خریدار ان بچوں کے گوشت کو بھیڑوں کے گوشت کی طرح کھانا شروع کردیں۔
یہ کالم میں جوناتھن سوفٹ کی شخصیت اور انداز ِتحریر کی بابت مگر لکھ نہیں رہا۔عمران خان صاحب کے دیرینہ مداحین ان کی وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بارے میں جس شدت سے چراغ پا نظر آرہے ہیں اس پر غور کرتا ہوں تو گولیور یاد آجاتا ہے جو بظاہر ایک بے آباد جزیرے میں ’’بونوں‘‘ کے ہاتھوں بے بس ہوگیا تھا۔ عمران خان صاحب کے متوالوں کے لئے ان کے ہیرو بھی دیومالائی قامت کے حامل ہیں۔ان کے آزاد منش رویے نے امریکہ جیسی سپرطاقت کو گھبراہٹ میں مبتلا کردیا۔بالآخر واشنگٹن میں انہیں وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کی سازش تیار ہوئی۔ اس کے مبینہ اشارے پر وطن عزیز کی دس سے زیادہ جماعتیں باہمی اختلافات بھلاکر ’’یک دم‘‘ متحد ہوگئیں۔قومی اسمبلی میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے مگر اسے سامراجی سازش ٹھہراتے ہوئے مسترد کردیا۔ اعلیٰ عدلیہ نے ان کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم ٹھہرادیا۔ قومی اسمبلی میں گنتی کا حکم ہوا۔ سپیکر اسد قیصر بھی تاہم اس کے لئے تیارنہیں ہوئے۔ ان کی جانب سے برتی لیت ولعل نے ’’رات کے بارہ بجے‘‘ سپریم کورٹ کو ’’متحرک‘‘ ہونے کو مجبور کیا اور بالآخر ہمارے گولیور نے وزیر اعظم کا دفتر خالی کردیا۔
ان کی رخصت کے بعد شہباز شریف کی سربراہی میں جو حکومت قائم ہوئی ہے وہ عمران خان صاحب کے چاہنے والوں کو ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ نظر آرہی ہے۔ ’’چور اور لٹیروں‘‘ کی اقتدار میں واپسی کی دہائی بھی مچائی جاری ہے۔عمران خان صاحب اب شہر شہر جاکر یک وتنہا ہیرو کی مانند پاکستان کو ایک بار پھر ’’آزاد‘‘ کروانے کی تیاریوں میں جتے نظر آرہے ہیں۔
میں ذاتی طورپر عمران خان صاحب کے مداحین کے ذہن میں کھولتے تصورات کو منطقی اعتبار سے خام خیالی محسوس کرتا ہوں۔اندھی نفرت وعقیدت میں خوفناک حد تک تقسیم ہوئے معاشرے میں لیکن ٹھوس حقائق اور منطقی دلائل بے وقعت ہوجاتے ہیں ۔فریقین کے دلوں میں بسے تصورات وتعصبات ہی جذبات بھڑکاتے ہیں۔عمران حکومت کے بعد اقتدار میں آئے افراد مگر تحریک انصاف کی تراشی داستان کو کماحقہ انداز میں للکارنہیں پائے۔وزارتوں کی بندربانٹ ہی میں مصروف نظر آئے۔بہت دن گزرنے کے بعد عمران خان صاحب کو گولیور بناتی داستان کو نواز شریف کی دُختر محترمہ مریم نواز صاحبہ ہی نے لاہور کے مختلف حلقوں میں جاکر للکارنے کے عمل کا آغاز کیا ہے۔وہ یقینا ’’رش‘‘ لے رہی ہیں۔گولیور کی طرح تاہم وہ بھی اس میدان میں یک وتنہا نظر آرہی ہیں۔ان کا سوشل میڈیا نہ ہونے کے برابر ہے۔
سوشل میڈیا سے زیادہ مریم نواز صاحبہ کو اپنا پیغام توانا تر بنانے کے لئے بنیادی طورپر ایسے حکومتی اقدامات درکار ہیں جو عام پاکستانی کے دل میں خوش گوار تبدیلی کا احساس اجاگر کریں۔ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلا پنجاب مگر یہ کالم لکھنے تک وزیر اعلیٰ سے بھی محروم ہے۔ ایک تحریری آئین اور کم از کم ڈیڑھ سو صدی سے قائم اعلیٰ عدالتیں بھی اس ضمن میں کارگرثابت نہیں ہورہے۔روزمرہّ زندگی میں اب لوڈشیڈنگ کے طویل گھنٹے برداشت کرنا پڑرہے ہیں۔گندم کی کٹائی کے موسم میں ڈیزل تقریباََ نایاب ہوچکا ہے۔افراتفری کا عالم ہے جو قابو میں آنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ’’شہباز سپیڈ‘‘ بھی فی الوقت جلوے دکھاتی نظر نہیں آرہی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر