مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آہ خالد سعید ۔۔۔۔پروفیسر صاحب||سجاد جہانیہ

چونک کر انہوں نے آلہ آتش بجھا دیا ’سگریٹ نکال کر فلٹر والی سائیڈ ہونٹوں میں دابتے ہوئے بولے ”شکریہ میاں! میرے آدھے سگریٹ یونہی ضائع ہو جاتے ہیں“ ۔ سگریٹ سلگ چکی اور ایک طویل کش بھی بھرا جا چکا تھا تو پروفیسر صاحب بولے

سجاد جہانیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پروفیسر خالد سعید بھی چلے گئے. ایک عالم کی رحلت ہوئی. شہر خالی ہوتا چلا جا رہا ہے. ان کے ساتھ ایک نشست کا احوال چند برس پہلے قلم بند کیا تھا جو میری کتاب "ادھوری کہانیاں” میں شامل ہے. دیکھئے کیسی قیمتی شخصیت ہم سے جدا ہوئی ہے۔

٭٭٭      ٭٭٭

جناب خالد سعید سراپا پروفیسر ہیں ’از موئے سر تا بہ انگشت ہائے پا۔ ہمہ وقت کھلے ہاتھوں سے علم بانٹتا ہوا پروفیسر۔ ان سے مل کر اور ان کے ساتھ نشست کر کے جو تاثر ابھرتا ہے‘ اس کو اگر سہ حرفی پیرہن دیا جائے تو یہ ”محبت ’علم اور حلم“ ہو گا۔ علاوہ ازیں ایک مثل ہے جو پروفیسر صاحب کے سراپا و اطوار میں گویا مجسم ہو جاتی ہے۔ ”نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی“

ساڑھے سترہ برس کی صحافتی زندگی میں اس مکالمہ نگار نے بہت سی شخصیات کے انٹرویوز کیے مگر پروفیسر صاحب کے ساتھ گفت گو کا تجربہ بالکل ہی الگ اور جدا ڈھنگ کا تھا۔ دو روز قبل میں نے فون کر کے ملاقات کا وقت لیا اور پھر طے شدہ پروگرام کے مطابق اتوار کی صبح ان کے دروازے پر دستک دی تو پروفیسر صاحب نے ہی دروازہ کھولا، اس عالم میں کہ گھٹنوں تک شارٹس پہن رکھے تھے اور اس کے اوپر ململ ایسے باریک کپڑے کی قمیض جس کے کالر پروفیسر صاحب کی گھنی زلفوں کی طرح پریشان تھے۔ اوپری دو بٹن کھلے ہوئے ’گویا بستر سے اٹھ کر چلے آتے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اپنے پستہ قد مگر انتہائی غصیلے ”منے“ اور دراز قد گٹھے ہوئے بدن والی بھوری رنگ کی ”منی“ کو سنبھالتے ہوئے اشارے سے نشست گاہ کے دروازے کی جانب ہماری رہ نمائی کی۔ (منے اور منی کا ذکر آگے چل کر آئے گا)

ہمارے بیٹھ چکنے کے ذرا سی دیر بعد پروفیسر صاحب سگریٹ کی ڈبیہ اور مائع گیس والا آلہ آتش سنبھالتے ہوئے ہمارے پاس آن بیٹھے۔ میرے ساتھ ثقلین فوٹو گرافر تھا۔ وہ بڑی لجاجت سے گویا ہوا ”سر! مجھے ایک تقریب میں جانا ہے ’ذرا جلدی تصویریں بنا کر روانہ ہونا چاہتا ہوں“ ۔

پروفیسر صاحب صوفے پر ذرا سیدھے ہوتے ہوئے بڑی شفقت سے بولے ”ہاں تو میاں بناؤ ناں“

ثقلین کا خیال تھا کہ پروفیسر صاحب لباس تبدیل کرنے کو وقت کا تقاضا کریں گے۔ وہ حیران ہوا ”سر ایسے ہی بنا لوں؟“

اور پھر ثقلین کو ایسے ہی تصاویر بنانا پڑیں۔ ثقلین کی حیرانی اپنی جگہ بجا تھی کہ وہ ایسے مواقع پر جب بھی کہیں تصویریں اتارنے جاتا ہے تو خوبیوں کے مالک بھی نک سک سے درست ہو کر کیمرے کے سامنے آتے ہیں۔ یہ پروفیسر خالد سعید ہی تھے جن کے بے کراں علم اور خوبی نے ان کو ظاہری بناؤ سنگھار سے بے نیاز کر دیا ہے۔ وہی شروع والی مثل پھر سے یاد کیجئے۔ ”نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی“

گفت گو شروع ہوئی اور میں نے ابتدائی زندگی بارے دریافت کیا تو پروفیسر صاحب اپنے سامنے موجودگی کھڑکی کے ایک سرے کو گھورتے ہوئے کہیں دور چلے گئے۔ بائیں ہاتھ کی انگلیوں کو کنگھی کے دندانے بنا کر بال سمیٹ کر پیچھے ڈالے۔ قریب پڑی ڈبیا سے سگریٹ نکال کر ہونٹوں کے بیچ دیا اور سگریٹ کو شعلہ دکھانے ہی کو تھے کہ میں نے عرض کیا ”سر! سگریٹ الٹا ہے ’آپ فلٹر کو آگ دکھا بیٹھیں گے“

چونک کر انہوں نے آلہ آتش بجھا دیا ’سگریٹ نکال کر فلٹر والی سائیڈ ہونٹوں میں دابتے ہوئے بولے ”شکریہ میاں! میرے آدھے سگریٹ یونہی ضائع ہو جاتے ہیں“ ۔ سگریٹ سلگ چکی اور ایک طویل کش بھی بھرا جا چکا تھا تو پروفیسر صاحب بولے

”مارچ 1947ئء کو یہیں ملتان میں محلہ کمنگراں کا ایک گھر تھا جہاں پیدا ہوا ’اور دیکھو کیا تماشا ہے کہ اسی شہر میں رہتے رہتے تین شہریتیں تبدیل کر بیٹھا ہوں۔ پیدا ہوا تو ہندوستان کا شہری تھا۔ چھ ہی ماہ بعد پاکستان کا شہری قرار پایا اور پھر 16 دسمبر 1971 ء کو یک بہ یک ایک نئے پاکستان کا شہری ہو گیا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اگر جیتا رہا تو میری اگلی شہریت کون سی ہو گی۔ میرے پردادا مسلمان ہوئے تھے جب کہ دادا کابل سے ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ یہاں حسین آگاہی میں انہوں نے کپڑے کی دکان بنائی‘ کابل کلاتھ ہاؤس۔ والد کا نام ملک عبدالقیوم تھا ’پہلے وہ پولیس سروس میں رہے پھر استعفیٰ دے کر وکالت شروع کر دی۔ جب میں نے سکول جانا شروع کیا تو والد کی ملازمت میاں والی میں تھی‘ وہیں میں نے پرائمری پاس کی۔ پھر ملتان آ گئے تو گورنمنٹ ہائی سکول، جو اب پائلٹ سیکنڈری سکول کہلاتا ہے ’میں داخلہ لیا۔ میٹرک ملت سکول سے کیا اور پھر انٹر ایمرسن کالج ملتان سے۔ بی اے کے لئے لاہور چلا گیا اور گورنمنٹ کالج سے گریجوایشن کرنے کے بعد وہیں سے ایم اے نفسیات کیا۔ پھر تو لاہور ہی کا ہو کر رہ گیا۔ اسلامیہ کالج لاہور میں استاد مقرر ہوا۔ ضیاءالحق کا دور آیا تو کمیونسٹ اور بھٹو کا حامی ہونے کے الزام میں اکتالیس لوگوں کو لاہور بدر کیا گیا‘ میں بھی ان میں شامل تھا۔ مجھے حاصل پور کے کالج میں تبدیل کر دیا گیا۔ وہاں میں نے تین برس گزارے اور اگر آپ مجھ سے میری زندگی کا یادگار دور پوچھیں تو وہ یہی تین سال تھے۔

دیہات اور تاروں بھرا آسمان پہلی دفعہ یہاں دیکھا۔ 1978 ءسے 1981 ءتک حاصل پور رہا پھر مری تبادلہ کر دیا گیا۔ وہاں قیام کے دوران میں نے اپنا ایک چھوٹا سا گھر بنا لیا جو اب بھی ہے اور گرمیوں کی چھٹیوں کے تین ماہ وہیں گزارتا ہوں۔

1983 ءمیں والد کی وفات ہو گئی تو بڑے بھائی نے دباؤ ڈالا کہ ملتان آ جاؤ، میں لیت و لعل کرتا رہا۔ اگلے برس انہی بھائی کا سڑک کے ایک حادثہ میں انتقال ہو گیا تو مجھے ملتان آنا پڑا۔ یہاں ایمرسن کالج (ان دنوں گورنمنٹ کالج) میں تقرر ہوا پھر ریٹائرمنٹ تک یہیں رہا۔ درمیان میں دو برس ڈیپوٹیشن پر یونی ورسٹی بھی گیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یونی ورسٹی سے وابستہ ہوں۔ یونی ورسٹی میں نفسیات‘ فلسفہ ’سوشویالوجی‘ جغرافیہ کے شعبوں اور آرٹ کالج کا اجرا کیا۔ سبھی شعبے بہت اچھے چل رہے ہیں۔ اب تو ان شعبوں کے بچے ایم فل ’پی ایچ ڈی بھی کر رہے ہیں۔ رات گئے تک بس انہی کاموں میں مصروف رہتا ہوں ”۔

شروع میں گھر کے دروازے سے داخل ہوتے ہی جس منے اور منی کا ذکر آیا ’یہ دونوں کتے ہیں۔ منا بڑا ہی لاڈلا اور غصیلا ہے‘ سفید رنگ ’پستہ قد اور بے حد پھرتیلا بھی۔ پروفیسر صاحب کی باتیں باقاعدہ سمجھتا اور ان پر عمل کرتا ہے۔ اس کی آواز اور غراہٹ کا زیر و بم باقاعدہ تاثرات کا حامل ہے اور اس کا چہرہ مہرہ بھی اس کی جذباتی کیفیات کی عکاسی کرتا ہے۔ ہماری اڑھائی گھنٹے کی نشست کے دوران جب کبھی اسے اندر سے ڈانٹ پڑتی تو وہ تیز تیز چلتا پروفیسر صاحب کے پاس آتا اور اگلے پنجے اٹھا کر پروفیسر صاحب کی ران پر رکھ کر ایسی آوازوں میں پیغام رسانی کرتا گویا شکایت کر رہا ہو۔ پروفیسر صاحب اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر پچکارتے ”اچھا منے! میں ابھی خبر لیتا ہوں‘ تو میرے پاس بیٹھ جا“ اور وہ جیسے مان کر نیچے قالین پر بیٹھ جاتا مگر تھوڑی ہی دیر بعد کسی شرارتی بچے کی طرح اٹھ کر پھر گھر میں گھومنا شروع کر دیتا۔

پروفیسر صاحب نے بتایا کہ جب گھر سے نکلنے لگتا ہوں تو یہ گاڑی کی چابی لاتا ہے اور کبھی جو تاخیر سے لوٹوں تو باقاعدہ ڈانٹتا اور گھرکیاں دیتا ہے۔ منی شریف ہے ’وہ اچھی بچی ہے اور لڑتی بھی نہیں۔ پروفیسر صاحب سے میں نے اولاد بارے دریافت کیا تو انہوں کہا ”یہی منا اور منی میرے بچے ہیں بس“ ۔ پروفیسر صاحب کو جانوروں سے جو پیار ہے‘ اس کو پوری شدت سے قائم و دائم رکھنے کے لئے شاید قدرت نے انہیں اولاد نہیں بخشی کہ مبادا ایسی صورت میں جان وروں کا حصہ کم ہو جائے۔ جان وروں سے پروفیسر صاحب کی محبت آج کی نہیں ’بلا تخصیص وہ ہر جان دار سے محبت کرتے ہیں۔ سانپ تک تو وہ پال چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”گو سانپ قابل بھروسا نہیں مگر میرے سانپ نے پیہم دو برس میرے ساتھ گزارے اور مجھے کوئی گزند نہیں پہنچائی“ ۔ یہ بھی عجیب قصہ ہے‘ پروفیسر خالد سعید ہی کی زبانی سنئے۔

”ان دنوں میں لاہور کے شاہ حسین کالج میں پڑھاتا تھا۔ ایک روز پی ٹی وی پر کسی سپیرے کے ساتھ میں نے پروگرام کیا تو ریکارڈنگ کے بعد سپیرے نے مجھے ایک سانپ تحفے میں دیا۔ یہ آٹھ دس انچ لمبا اور خالص سونے کے رنگ کا بڑا ہی پیارا سانپ تھا۔ سپیرے نے میرے سامنے اس کا زہر نکالا اور کہا“ اگلے چھ ماہ کے لئے بے ضرر ہے ’چھ ماہ بعد آ کر پھر اس کا زہر نکلوا لینا ”مگر اس کا میرے ساتھ کچھ ایسا انس ہوا کہ اگلے دو برس جو میرے ساتھ رہا تو میں نے اس کا زہر نہیں نکلوایا اور نہ ہی اس نے مجھے کوئی نقصان پہنچایا۔ وہ میرے ساتھ سوتا‘ کالج بھی میرے ساتھ جاتا۔ جیب میں پڑا رہتا ’میں جب کلاس میں جاتا تو اسے نکال کر ڈائس پر رکھتا‘ وہ اپنا چھوٹا سا پھن اٹھا کر طلبا کو سلام کرتا اور پھر کلاس میں گھومتا رہتا۔ میں اسے قیمہ کھلایا کرتا تھا۔ گھر پر آنے والے مہمانوں سے بھی وہ ملتا تھا اور رات کو میرے بستر پر ہی پھرتا رہتا۔ سردیوں کے دن تھے ’ایک روز کلاس میں گیا تو اسے جیب سے نکال کر رکھا۔ میں کلاس پڑھاتا رہا‘ وہ گھومنے پھرنے نکل گیا۔ جب واپس آیا تو اس کی حالت دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔ کالج سے سیدھا جان وروں کے ڈاکٹر کے ہاں لے گیا تو ڈاکٹر نے کہا اسے دھوپ سینکائیں۔ دو دن وہ بیمار رہا ’میں نے اس کی بڑی تیمارداری کی مگر وہ مر گیا۔ میں نے اور میرے طلباء نے وہیں شاہ حسین کالج کے احاطے میں اسے دفن کیا۔ اس کی موت پر میرے ساتھ ساتھ طلبا بھی اداس تھے“ ۔

گو کہ پروفیسر صاحب کا یہ تجربہ ہماری لوک دانش کی نفی کرتا ہے کہ ”سپاں دے پت متر نہیں ہندے بھانویں چلیاں ددھ پیائیے“ مگر دوسری طرف یہ ”محبت فاتح عالم“ کا درس دیتا ہے۔ پروفیسر صاحب کے پاس محبت کا وہ بے کنار ساگر ہے کہ جس میں پیراکی کے بعد سانپ اپنی فطرت بدلنے پر مجبور ہو گیا۔

پروفیسر صاحب نے بندر بھی پالا تھا۔ ایوبیہ کے نواح میں واقع قصبہ خانس پور سے لے کر آئے اور چونکہ ان دنوں غیر شادی شدہ تھے تو جس فلیٹ میں رہے وہیں بندر کو بھی رکھا۔ اب اسے کالج تو ساتھ نہ لے جا سکتے تھے۔ ہوتا یہ کہ جب کالج سے لوٹتے تو بندر پورے گھر کا حشر کر چکا ہوتا۔ رضائی کی روئی نکال دیتا ’کتابیں‘ کاغذ پھاڑ دیتا اور گھر کے سامان کی گویا اینٹ سے اینٹ بجی ہوتی۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ ”میں نے آج تک اپنے کسی بھی پالتو کو باندھ کر نہیں رکھا ’یہ ظلم ہے۔ چناں چہ بندر کو باندھنا تو مجھے گوارا نہ تھا‘ تین مہینے تک بندر کے ہاتھوں تگنی کا ناچ ناچنے کے بعد میں اس کو واپس خانس پور چھوڑ آیا“ ۔

پروفیسر صاحب کہتے ہیں ”میری بڑے عرصے سے خواہش ہے ایک کوبرا سانپ پالنے کی مگر بیگم نہیں مانتیں۔ شروع میں تو میرے اس شوق سے بیگم کو الرجی تھی مگر اب میرے ساتھ رہ رہ کر وہ بھی اینمل لوور ہو گئی ہیں“ ۔

پروفیسر صاحب کو اپنے ایک کتے کے مرنے کا بڑا رنج ہے۔ دوران گفت گو یہ تذکرہ آیا تو ان کی آنکھوں کے کنارے نمی چھوڑنے لگے۔ یہ کتا برسوں ان کے ساتھ رہا۔ 1996 ءمیں بیمار ہوا تو اسے لوہاری گیٹ میں واقع جان وروں کے شفاخانے لے گئے ’وہاں ڈاکٹر نے غلط انجکشن لگا دیا جس سے وہ تین دن انتہائی اذیت میں رہنے کے بعد مر گیا۔ اب وہ یاد آتا ہے تو پروفیسر صاحب دکھی ہو جاتے ہیں۔ اس کی موت کے بعد انہوں نے گھر میں کتا رکھنا چھوڑ دیا۔ 2005 ءمیں ان کے ہاں ڈکیتی کی واردات ہوئی تو انہوں نے پھر سے منے اور منی کو پالا۔

2005 ءکی ایک شب چار ڈاکو پروفیسر صاحب کے گھر میں داخل ہو گئے ’کم و بیش چار گھنٹے ان کے گھر میں رہے اور پروفیسر صاحب کی اہلیہ محترمہ کی زبان بھی خنجر سے زخمی کی کہ بولتی کیوں ہیں۔ اتنا بہت سا وقت تھا تو پروفیسر صاحب ڈاکوؤں سے گپ شپ کرتے رہے۔ کہتے ہیں ”ان میں سے ایک ایسی خوب صورت اور شستہ اردو بولتا تھا کہ جو میرے کانوں نے آج تک نہیں سنی۔ میں نے سوچا کہ کسی طرح بن پڑے تو اس ڈاکو کو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کا چیئرمین بنا دیا جائے کہ بچوں کا لہجہ اور زبان درست ہوجائیں گے۔ ایک دفعہ اسی خواہش کا اظہار میں نے چیئرمین شعبہ اردو ڈاکٹر انوار احمد کے سامنے کر دیا تو وہ ناراض ہو گئے۔ بہ ہر حال ڈاکو جاتے ہوئے پچاس ہزار روپے‘ ہمارے موبائل اور بیگم کا زیور لے گئے۔ مجھے تو پولیس وغیرہ کا تجربہ نہیں ’بھائی نے ایف آئی آر درج کروائی تھی۔ سال بھر کے بعد جلال پور پیر والہ میں وہ ڈاکو پکڑے گئے تو ہم شناخت کے لئے گئے۔ وہاں وہی نوجوان مجھے ملا تو میں نے اس سے بھی یہ کہا کہ کس کام میں پڑے ہو‘ تمہاری اردو اتنی اچھی ہے ’یونی ورسٹی میں پڑھایا کرو۔ ان کے پکڑے جانے پر میں نے پھر یونی ورسٹی والوں نے کہا کہ اس ڈاکو کو سپوکن اردو پڑھانے کے لئے رکھ لو مگر کسی نے میری بات کو سنجیدہ نہیں لیا“ ۔

جناب خالد سعید ماہر نفسیات ہیں ’مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ ”جنات“ نکالنے میں تو ان کو ملکہ حاصل ہے تاہم نفسیات و فلسفہ کے علاوہ ان کی ذات کا ایک پہلو ادب بھی ہے۔ شاعری میں نظم اور نثر میں افسانہ نگاری ان کا میدان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پڑھنا اور لکھنا ان کی مجبوری ہے۔ بہ قول ان کے چوبیس گھنٹے میں دو تین گھنٹے سے زیادہ نیند نہیں آتی۔ ایسے میں وقت گزاری کے لئے کچھ تو کرنا ہے چناں چہ وہ پڑھتے لکھتے رہتے ہیں۔ کہنے لگے ”شروع میں پنجابی زبان کو ذریعہ اظہار بنایا پھر اردو میں لکھنے لگا۔ افسانے لکھتا تھا‘ انہی دنوں ایک افسانہ ڈاکٹر وزیر آغا کو ارسال کیا تو جواب میں انہوں نے بڑا سخت خط لکھا کہ“ بے ہودہ اور فضول افسانہ ہے ’تم افسانہ نہیں لکھ سکتے یہ کام فوراً بند کر دو۔ البتہ افسانے کا ایک ٹکڑا نظم کے طور پر چھاپ رہا ہوں ”۔ وہ نظم چھپی تو مجھے بڑی خوش گوار حیرت ہوئی کہ نظم لکھنا ایسا ہی سہل کام ہے تو کیوں نہ اسی طرف طبع آزمائی جائے۔ چناں چہ دس کتابیں چھپ چکی ہیں‘ تین چھپائی کے مراحل میں ہیں“ ۔

پروفیسر صاحب سے استفسار کیا گیا کہ اگر آپ لاہور ہی میں رہتے تو کیا اب سے کہیں زیادہ شہرت آپ کے دامن میں نہ ہوتی؟

فرمایا ”شہرت عارضی اور ناپائیدار شے ہے ’مجھے اس کا جنون نہیں۔ پھر بہت سے لوگ ہیں جو مشہور نہیں مگر انہوں نے معروف لوگوں سے کہیں اچھا لکھا ہے۔ آغا بابر‘ سرور صہبائی جیسا ڈرامہ کون لکھ پایا ہے مگر یہ دونوں ہی مشہور نہیں۔ ہر کسی کا ایک نکتہ اطمینان ہوتا ہے۔ میں اپنے حال سے بہت مطمئن ہوں۔ مجھے اپنے طلبا کو آگے بڑھتا دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے۔ نوجوانوں میں بہت سے اچھا لکھنے والے ہیں۔ ساحر شفیق ’نیئر مصطفیٰ‘ احمد ندیم بہت اچھا افسانہ لکھ رہے ہیں۔ یہ پوسٹ ماڈرن ایج کے لوگ ہیں۔ مرزا اطہر بیگ ’قرة العین حیدر کے بعد بہت اچھے ناول نگار ہیں۔ بزرگوں میں ممتاز اطہر بہت اچھا اور بڑا شاعر ہے۔ میرا جی کچا شاعر ہے مگر جدید شاعری کا بانی۔ اس سے متاثر ہو کر مجید امجد اور ن م راشد نے لکھا اور بے پناہ شہرت سمیٹی۔ سو شہرت کوئی معنی نہیں رکھتی‘ اصل کام فن ہے۔ یونی ورسٹی میں افسانے ’ناول لکھے جا رہے ہیں‘ شاعری بھی ہو رہی ہے مگر یہ سب انگریزی میں ہے“ ۔

پروفیسر صاحب کو پاکستان بے حد پسند ہے ’وہ باہر جاتے ہیں مگر تین چار دن سے زیادہ وہاں رہ نہیں سکتے۔ کہتے ہیں ”دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں سونا اور کھانا مفت ہو‘ پاکستان یا برصغیر میں یہ سہولت حاصل ہے۔ میں خود جب لاہور میں پڑھتا تھا تو اکثر پیسے ختم ہو جاتے ’ہم بڑے آرام سے جا کر داتا دربار سے کھانا کھا آتے۔ شہر کے جس پارک میں، مسجد میں جی چاہے سو جائیں‘ کوئی نہیں پوچھتا۔ پھر ہتھ ریڑھیوں پر ایسا ارزاں کھانا! میری ایک سٹوڈنٹ پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنے آسٹریلیا گئی ہوئی ہے ’وہ اگلے دن مجھ سے بات کرتے ہوئے رو رہی تھی کہ چالیس ڈالر کے دو بینگن لائی ہوں‘ گویا چار ہزار روپوں کے دو بینگن۔

ہرا دھنیا جو سبزی والا ہمیں یونہی ڈال دیا کرتا ہے ’جاپان میں اس کی ایک شاخ پچاس ین میں ملتی ہے۔ جیسا بھی ہے یہ ملک آج بھی غریبوں کے لئے ایک نعمت ہے ”۔

پروفیسر خالد سعید سے بڑی طویل نشست ہوئی اور ہم ان کے علم کی برسات میں شرابور ہوتے رہے۔ فلسفۂ روح سے لے کر بینگن اور دھنیا کی تقابلی قیمتوں تک انہوں نے بلا تکان گفت گو کی۔ ایک تو سماج میں انٹرویو کا اسلوب یوں بھی ہلکے پھلکے انداز کا ہے سو ثقیل علمی باتوں کا تذکرہ موقوف کیا گیا ہے ’دوسرے اخبار کا دامن بھی تنگ ہے سو اسی تشنہ تحریر پر اکتفا کیجئے۔

آخر کلام کہ جب میں نے اپنے بکھرے کاغذ سمیٹنے شروع کیے اور صوفے سے اٹھنے کو ذرا سا آگے ہوا تو ایک دم منا میرے عین سامنے نشست لے کر بیٹھ گیا اور لگا گھورنے اور ایسی آوازیں نکالنے جیسے انتباہ کر رہا ہو کہ خبردار جو اٹھے تو۔ منا اپنے چہرے کے تاثرات اور ان آوازوں سے ایسا بلا کا ابلاغ کرتا ہے کہ اس کے ساتھ گزرے اس مختصر وقت میں ہی میں اس کی سبھی باتیں جیسے سمجھنے لگا۔ تب پروفیسر صاحب نے اسے ڈانٹا کہ ”منے بری بات ’مہمان ہیں‘ جانے دو“ منا منہ بسورتا ہوا میز کے اوپر سے گھوم کے پروفیسر صاحب کے پاس چلا گیا تو مجھے نکلنے کی راہ ملی۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

سجاد جہانیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: