نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تو ’’سب پہ بھاری‘‘ نے بھی حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کرلیا ہے کہ بیانیہ سازی کے میدان میں عمران خان صاحب اور ان کی ٹیم اپنے مخالفین سے کہیں زیادہ آگے ہے۔ابلاغ کے مقابلے میں تحریک انصاف کی سبقت کو اگرچہ انہوں نے ان ’’غیر ملکی کمپنیوں‘‘ کا کرشمہ قرار دیا تو بقول آصف علی زرداری بھاری بھر کم عوضانہ وصول کرتی ہیں۔
مجھے ہرگز خبر نہیں کہ عمران خان صاحب کے پیغام کو ابلاغ کے جدید ترین ذرائع اور حربے استعمال کرتے ہوئے عوام میں پھیلانے والی ٹیم کا اصل سرغنہ کون ہے۔ملکی سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے یہ حقیقت مگر تسلیم کرنا ہوگی کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کی بدولت وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوجانے کے بعد ہمارے عوام کی مؤثر تعداد کو وہ یہ قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ ان کے خلاف ’’امریکی سازش‘‘ ہوئی۔اب وہ ’’سازش‘‘ کا شکار ہوئے زخمی شیر کی طرح شہر شہر جاکر عوام کو ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ سے نجات دلانے کے لئے بھرپور تحریک چلانے کی تیاریوں میں جت گئے ہیں۔ ’’سازش‘‘ والی داستان کی وجہ سے ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا میں ان کے دورِ اقتدار کی بابت واجب سوالات بھی اٹھائے نہیں جارہے۔ایسے سوالات پر توجہ مبذول کروائی جاتی تو عوام یہ سوچنے کو مجبور ہوجاتے کہ عمران خان اور ان کی جماعت بھرپور عوامی تحریک کے ذریعے اقتدار میں لوٹنے کی مستحق ہے یا نہیں۔
دورِ حاضر میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے قطعی جاہل شخص ہی انکار کرسکتا ہے۔ ذاتی طورپر میں اس کی مبادیات وحرکیات کو عاجزانہ تجسس سے مسلسل جاننے کی کوشش کرتا ہوں۔میری تحقیق یہ اصرار کرنے کو اُکساتی ہے کہ سیاست میں کامیابی کے لئے محض سوشل میڈیا پر ا نحصار ہی کافی نہیں۔سابق امریکی صدر ٹرمپ کی وائٹ ہائوس میں صرف ایک ٹرم گزارنے کے بعد ناکامی اس کی واضح ترین مثال ہے۔اسے ایک ایسے شخص نے شکست سے دو چار کیا جو سوشل میڈیا سے عموماََ دور رہتا ہے۔پرانی وضع کا سیاست دان ہے۔برجستہ گفتگو کرتے ہوئے بسااوقات ’’بونگیاں‘‘ بھی مارجاتا ہے۔ اپنے اہداف کے حصول کے لئے مگر بنیادی طورپر سیاسی حربوں پر ہی تکیہ کرتا ہے۔
ان کی جانب سے انتخاب کا اعلان ہوتے ہی باہمی اختلافات میں بٹی اپوزیشن جماعتیں راتوں رات ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ نامی تنظیم میں یکجا ہوگئیں۔ان جماعتوں میں تین بڑی مذہبی جماعتوں کے علاوہ اصغر خان جیسے ’’لبرل‘‘ اور ولی خان کے ’’سیکولر‘‘ اور ’’قوم پرست‘‘ حامی بھی شامل تھے۔ نظر بظاہر ’’نوستاروں‘‘ والا اتحاد ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ نظر آتا تھا۔ مار چ میں ہوئے انتخاب کو تاہم دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے مذکورہ اتحاد نے ’’نظام مصطفیٰﷺ‘‘ والی تحریک چلادی ۔ ریاستی جبر کابھرپور استعمال اسے قابو میں لانے میں ناکام رہا۔ بالآخر ملک کو ’’خانہ جنگی‘‘ سے بچانے کے لئے 4جولائی 1977کی رات جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگادیا۔ اگرچہ نئے انتخابات ’’90روز‘‘ کے دوران کروانے کا وعدہ بھی کیا۔
جمعرات کی صبح شائع ہونے والے کالم میں عرض کرچکا ہوں کہ عمران خان صاحب کی جانب سے ’’امپورٹڈ گورنمنٹ‘‘ ٹھہرائی فی الوقت یقینا ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ ہی نظر آتی ہے۔اسے کمزور تر کرنے کا لیکن میری دانست میں واحد واولین حربہ تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی سے مستعفی ہوجانا نہیں بلکہ وہاں موجود رہنا ہے۔ قومی اسمبلی سے کنارہ کش ہوکر تحریک انصاف فوری انتخاب کے حصول کے لئے ’’عوامی تحریک‘‘ چلانے میں مصروف ہوگئی تو ’’بھان متی کے کنبے‘‘ میں شامل ہر فریق ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ قائم رکھنے کے لئے ہر جائز وناجائز حربہ استعمال کرنے کو مجبور ویکجا ہوجائے گا۔وہ ’’غیر سیاسی‘‘ قوتیں بھی چوکناہوجائیں گی جنہیں عمران خان صاحب اشاروں کنایوں میں ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کے ’’سہولت کار‘‘ اور امریکہ کے ’’آلہ کار‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔شہر شہر ہوئے جلسوں کی رونق سے فوری انتخاب مسلط کرناناممکن تو نہیں مگر انتہائی دشوار ہوجائے گا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر