نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظر بظاہر وزیر اعظم کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد قانونی بھول بھلیوں میں داخل ہوکر اپنے انجام تک پہنچنے میں ضرورت سے زیادہ دیر لگارہی ہے۔عمران حکومت کے چند نورتن ’’ماہرین قانون‘‘ نے قانونی موشگافیوں کے جال بچھاکر مذکورہ تاخیر کا اہتمام کیا۔انجام کو ہر ممکن حد تک ٹالنے کی جو مہلت میسر ہوئی عمران خان صاحب اسے بہت ہوشیاری سے اپنے دیرینہ حامیوں کے جذبات بھڑکانے کو استعمال کررہے ہیں۔
اپنے حامیوں کو کرکٹ کے سپرسٹار سے سیاست دان ہوئے خان صاحب نے جذباتی تقاریر کی بدولت نہایت شدت سے قائل کررکھا ہے کہ ان کے سوا وطن عزیزکے تمام سیاست دان ’’چور اور لٹیرے‘‘ ہیں۔وہ اقتدار میں باریاں لیتے ہوئے ملک وقوم کے بنیادی مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے ’’حرام کی کمائی‘‘ سے اپنے کاروبار بڑھاتے اور بیرون ملک قیمتی جائیدادیں خریدتے رہے۔صحافیوں کی بے پناہ اکثریت کو انہوں نے ’’لفافوں اور ٹوکریوں‘‘ سے ’’ذہنی غلام‘‘ بنادیا ہے۔
اگست 2018میں لیکن وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد بھی یہ ’’ایمان دار شخص‘‘ تنہا ہی رہا۔جو گلاسڑاریاستی ،حکومتی اور عدالتی نظام اسے ورثے میں ملا وہ عمران حکومت کے پائوں کی زنجیر ثابت ہوا۔ اس کی وجہ سے ’’کرپٹ مافیا‘‘ عبرت کی علامت نہ بن پایا۔اب وہی مافیا باہم مل کر عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنا چاہ رہا ہے۔
عمران خان صاحب ان دنوں شہر شہر جاکر جو تقاریر کررہے ہیں وہ مجھے 1993کا نواز شریف یاد دلارہی ہیں۔اپنی پہلی حکومت کی صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں فراغت سے ایک رات قبل انہوں نے پی ٹی وی کے ذریعے قوم سے خطاب کیا۔اس کے دوران ’’میں ڈکٹیشن‘‘ نہیں لوں گا والا نعرہ بلند کیا۔اپنی حکومت کی برطرفی کے خلاف وہ سپریم کورٹ بھی چلے گئے۔ اعلیٰ عدالت میں ان کے وکیل خالد انور نے اپنے دلائل سے سحر انگیز سماں باندھ دیا۔ بالآخر نواز حکومت کی برطرفی ’’غیر آئینی‘‘ قرار پائی۔
اس ’’تاریخی فیصلے‘‘ کے باوجود مگر نواز شریف اپنی حکومت کی بقیہ مدت مکمل نہ کر پائے۔نئے انتخاب کروانا پڑے۔ ان کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بار پھر اقتدار میں لوٹ آئیں۔’’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ کے نعرہ کے ساتھ تاہم نواز شریف نے جو ووٹ بینک بنایا اور مستحکم کیا آج بھی ان کی ذات اور اس سے منسوب جماعت کے کام آرہا ہے۔عمران خان صاحب کو بھی طویل المدتی تناظر میں ایسی ہی عوامی حمایت آنے والے کئی برسوں تک مہیا رہے گی۔ سیاسی اعتبار سے اپنے خلاف آئی تحریک عدم اعتماد کی بدولت وہ توانا تر ہوجائیں گے۔
اقتدار کا کھیل مگر بڑی ظالم شے ہے۔ محض ’’عوامی جذبات‘‘ یہاں کلیدی کردار کے حامل نہیں۔وہ اگر کارگر ہوتے تو نواز شریف سپریم کورٹ کے ہاتھوں اپنی معطلی اور تاعمر نااہلی کے باوجود ان دنوں لندن میں مقیم نہ ہوتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کی دُختر 1988میں بالآخر وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچ جانے کے بعد غالباََ تاحیات اس عہدے پر براجمان رہتیں۔ اقتدار کے کھیل میں برترحیثیت برقرار رکھنے کے لئے بھرپور عوامی حمایت سے مالا مال سیاستدانوں کو بھی ہر نوع کی اشرافیہ کو اپنے ساتھ رکھنا ہوتاہے۔ریاست کے دائمی طاقت ور اداروں کے روبرو مناسب لچک دکھانا پڑتی ہے۔ اس تناظر میں عمران خان صاحب میری دانست میں اسی مقام پر پہنچ چکے ہیں جو نواز شریف کا 1993،اکتوبر 1999سے چند ماہ قبل اور 2017میں سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد مقدر ہوا۔
عمران خان صاحب ’’بھولے تو ہیں مگر اتنے بھی نہیں‘‘۔ میں جس جانب اشارہ کررہا ہوں اس کا انہیں مجھ سے کہیں زیادہ علم ہے۔تاریخ کا جبر البتہ انہیں ’’آخری گیند‘‘ تک لڑنے کو مجبور کررہا ہے۔ان کے چند جواں سال وزراء بھی جو عمران حکومت کی پالیسی سازی میں اہم کردار کے حامل رہے ہیں نوشتہ دیوار پڑھ چکے ہیں۔ان دنوں نجی دوستوں اور قابل اعتماد اخبار نویسوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے اس تصور سے لطف اندوز ہورہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجانے کی صورت نمودار ہونے والی حکومت ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ نظر آئے گی۔ اقتدار سنبھالتے ہی اسے بجلی اور پیٹرول کی قیمت ہر صورت بڑھانا ہوگی۔یہ اضافہ خلق خدا کی اکثریت کو مایوس بنائے گا۔وہ غضب سے مغلوب ہوکر عمران خان صاحب کو یاد کرنا شروع ہوجائیں گے۔ ان وزراء کا رویہ واضح عندیہ دے رہا ہے کہ وہ دل سے اپنی حکومت کی بابت ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والے تاثر کو تسلیم کرچکے ہیں۔
عمران خان صاحب کے خلاف متحرک ہوئی سیاسی جماعتوں کو بھی اپنی کامیابی کا کامل یقین ہے۔ان کی جانب سے یہ طے کرلیا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجانے کے بعد شہباز شریف صاحب ہی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوجائیں گے۔ وہ ’’قومی‘‘ دِکھتی ’’مخلوط حکومت‘‘ کے سربراہ ہوں گے۔ ممکنہ حکومت کی اہم وزارتوں کے سربراہوں کے نام بھی ’’فائنل‘‘ ہوئے نظر آرہے ہیں۔میری اطلاع کے مطابق اگرچہ پیپلز پارٹی کے جواں سال سربراہ بلاول بھٹو زرداری ممکنہ حکومت میں کوئی عہدہ لینے کو ابھی تک رضا مند نہیں ہورہے۔ اپنی جماعت کے ممکنہ طورپر ’’حصہ‘‘ میں آئی وزارتوں کی سربراہی کے لئے اگرچہ اپنی جماعت کے کچھ نام انہوں نے طے کردئیے ہیں۔1985سے 2013تک اقتدار کے کھیل کو میں بہت توجہ اور لگن سے دیکھتا رہا ہوں۔میں نے آج تک حکومت کے خلاف مجتمع ہوئی اپوزیشن جماعتوں میں ایسا اعتماد نہیں دیکھا جو اِن دنوں اُن کی صفوں میں چھپائے بھی نہیں چھپ رہا۔
مذکورہ اعتماد کے ہوتے ہوئے میں اپنے باخبر ترین اور ذہن سازی کے حوالے سے معتبراور مؤثر گردانے ساتھیوں کی ان ’’تجاویز‘‘ کے بارے میں حیران سے حیران تر ہورہا ہوں جو ’’ہونی کو ٹالنے‘‘ کی خاطر ہمارے سامنے آرہی ہیں۔اس تناظر میں کامران خان صاحب کے ایک وڈیو پیغام کے بہت چرچے ہیں جو واضح طورپر وطن عزیز پر چھائے سیاسی بحران کا ’’حل‘‘ پیش کررہا تھا۔اپنی اوقات کو خوب جانتے ہوئے میں کامران خان صاحب کے پیش کردہ ’’حل‘‘ کی جزئیات اور تفصیل بیان کرنے کی جرأت سے محروم ہوں۔ مجھے کامل یقین ہے کہ میرے مستقل قارئین کی بے تحاشہ اکثریت سوشل میڈیا کی بدولت ان سے بخوبی آگاہ ہے۔ جان کی امان پاتے ہوئے مگر یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہوں کہ کامران خان صاحب کا وڈیو پیغام یہ تاثر دے رہا ہے کہ عمران صاحب کی مخالف قوتیں ’’سیاسی وجوہات‘‘ کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک اہم اور طاقت ور ترین ریاستی ادارے میں کسی تعیناتی کو روکنے کے لئے متحرک ہوئی ہیں۔عمران خان صاحب کے ذہن میں اس حوالے سے مبینہ طورپر جو نام ہے اگر اس سے کنارہ کشی کا برملا اعلان کردیا جائے تو ’’بحران‘‘ ٹل سکتا ہے۔اپوزیشن جماعتیں شاید اس کے بعد تحریک عدم اعتماد بھی واپس لے لیں۔ تاہم اگر وہ بضد بھی رہیں تو انہیں ناکامی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ہاتھ باندھتے ہوئے التجا فقط اتنی کروں گا کہ معاملہ اب اتنا سادہ نہیں رہا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر