نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری محترم دوست اور عوام میں بے پناہ مقبول مہر بخاری سے کیمرے کے روبرو گفتگو کرتے ہوئے چودھری پرویز الٰہی بالآخر پھٹ پڑے۔ وفورجذبات میں ”نیپیوں“ اور ”پشاور“ کا تذکر ہ بھی کر دیا۔ ان کے دیے انٹرویو کے بعد یہ سوچنا قطعاً دیوانگی ہوگی کہ گجرات کے چودھریوں سے منسوب مسلم لیگ کے اراکین اسمبلی وزیر اعظم کے خلاف جمع ہوئی تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے دوران عمران خان صاحب کی حمایت میں ووٹ ڈالیں گے۔ طویل خاموشی کے بعد ”جٹ داکھڑاک“ بلکہ دیگر اتحادی جماعتوں کو بھی ”بغاوت“ پر اکسائے گا۔ تحریک انصاف کی ٹکٹ پر جولائی 2018 کے انتخاب کے دوران قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے اراکین میں سے کم از کم 20 افراد پہلے ہی سے فلورکراسنگ کو تلے بیٹھے ہیں۔
عمران خان صاحب ”بھولے“ تو ہیں مگر ”اتنے بھی نہیں“ ۔ وہ جس منصب پر ان دنوں براجمان ہیں اسے ریاستی ”اخبار نویسوں“ کا انبوہ روزانہ کی بنیاد پر پل پل کی خبر پہنچاتا ہے۔ میرے اور آپ کے مقابلے میں وہ کئی دن قبل یہ جان چکے ہیں کہ ان کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کے لئے اپوزیشن جماعتوں نے بندے ضرورت سے کہیں زیادہ پورے کرلئے ہیں۔ اسی باعث وہ مذکورہ تحریک پر گنتی کروانے کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کروانے سے گریز کرتے رہے۔ اجرتی قاتلوں جیسا رویہ اپنائے ”ماہرین قانون“ نے ان کے گریز کو جائز ثابت کرنے کے لئے مضحکہ خیز تاویلات بھی ڈھونڈلی ہیں۔ عمران خان صاحب کو مگر دل سے یقین ہے کہ ہونی کو ٹالنا اب ممکن نہیں رہا۔ ہونی برپا ہونے تک جو وقت میسر ہے اسے مگر طویل تر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انگریزی محاورے والے پیالے کو لبوں تک پہنچنے کے درمیان والے وقفے کو اپنے حامیوں تک یہ پیغام پہنچانے میں نہایت ہوشیاری سے استعمال کر رہے ہیں کہ شہر کے ظالم لوگ باہمی اختلافات بھلاکر ان کے خلاف یکجا ہو گئے۔ بدعنوان اشرافیہ پر مشتمل مافیاز نے انہیں سازشوں کے ذریعے گھر بھیجنے کا جال بچھایا۔ تاثر یہ بھی پھیلانا چاہ رہے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک بھی ان کی خودمختار روش سے خائف ہو گئے ہیں۔ جذباتی تقاریر ہونی کو مگر ٹال نہیں سکتیں۔
ہمارا تحریری آئین واضح انداز میں تقاضا کرتا ہے کہ جب کسی وزیر اعظم کے خلاف قواعد کے عین مطابق تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی کے دفتر میں جمع کروادی جائے تو جلد از جلد ایوان کا اجلاس بلواکر اس کے حوالے سے گنتی کروادی جائے۔ تحریک عدم اعتماد کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی درخواست بھی جمع کروارکھی ہے۔ اس کی بدولت مطلوبہ اجلاس 21 مارچ 2022 کی شام تک ہر صورت بلانا ہو گا۔ سپیکر اسد قیصر کے لئے واحد راستہ فقط یہ بچا ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی رہ نماؤں کو اپنے دفتر مدعو کرنے کے لئے باقاعدہ چٹھی لکھیں۔ ان کے دفتر میں جو اجلاس ہو وہ بآسانی یہ طے کر سکتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے فریضے سے کیسے نبردآزما ہوا جائے۔ باہمی گفت وشنید کی بدولت قومی اسمبلی کا اجلاس 21 مارچ کی شام طلب کیا جاسکتا ہے۔ رسمی ابتدائی کارروائی کے بعد اسے بآسانی 24 مارچ کے دن تک مؤخرکر دینا بھی ممکن ہے۔ اس دن تحریک عدم اعتماد ایوان کے اجلاس میں باقاعدہ طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔ اس کی حمایت اور مخالفت میں اراکین قومی اسمبلی کے کھڑے ہوجانے کے بعد چند روز تقاریر کے لئے مختص کیے جا سکتے ہیں جن کے بعد 28 سے 30 مارچ کے درمیان گنتی کا عمل مکمل ہو سکتا ہے۔ جو ٹائم ٹیبل بیان کر رہا ہوں اس سے مفر آئینی، اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے ممکن ہی نہیں۔
بردبار سیاست کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے جو قواعد وضوابط طے کردیے گئے ہیں انہیں کسی صورت نظر انداز نہ کیا جائے۔ قومی اسمبلی کے کسی رکن کو پارلیمان کے روبرو جمع کیے ”دس لاکھ“ پر مشتمل بپھرے ہجوم کی طاقت سے ووٹ کا حق استعمال کرنے سے روکنا آئین کی سنگین ترین خلاف ورزی ہوگی۔ مولانا فضل الرحمن ویسے بھی جتھے کو جتھے سے لڑانے کے ارادے کا برملا اظہار کرچکے ہیں۔ مجھے کامل اعتماد ہے کہ امن وامان کو یقینی بنانے کے حتمی ذمہ دار ریاستی ادارے اور افراداسلام آباد کو جتھوں کا یرغمال ہوا برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ اس کے تدارک کے لئے کسی نہ کسی نوع کی مداخلت لازمی ہے۔ ”وہ“ نیوٹرل بھی رہیں تو خلفشار ٹالنے کے لئے اعلیٰ عدلیہ بھی متحرک ہو سکتی ہے۔ اپنے خلاف جمع ہوئی تحریک عدم اعتماد کو ”دس لاکھ“ کے ہجوم کے ذریعے ناکام بنانے کی ضد عمران خان صاحب کو فائدے کے بجائے نقصان سے دو چار کرے گی۔
اسلام آباد میں ”دس لاکھ“ کا ہجوم جمع کرنے کے بجائے عمران خان صاحب کو روایتی مسکراہٹ کے ساتھ اس اجلاس میں صبر وتحمل کے ساتھ موجود ہونا چاہیے جہاں ان کی حمایت اور مخالفت میں اراکین قومی اسمبلی کیمروں کے روبرو کھڑے ہونے کے لئے لابیوں کا رخ کریں گے۔ لوگ اس کی بدولت ازخود جان لیں گے کہ فیصلے کی اہم ترین گھڑی میں کس شخص نے انہیں ”دغا“ دیا۔ دغا بازوں کے نرغے میں گھرا ”ایمان دار شخص“ بے بس وتنہا نظر آئے گا۔ عوام کو پتہ چل جائے گا کہ انہیں ”کیسے نکالا“ گیا۔
ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اگر کامیاب ہوجاتی ہے تو عمران خان صاحب کے پاس اس کے بعد عوام کے جذبات اپنی حمایت میں مجتمع کرنے کا طولانی وقت میسر ہو گا۔ وہ شہر شہر جاکر اپنے حامیوں کو والہانہ اندازمیں متحرک کر سکتے ہیں۔ عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کروانے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کو یہ طے کرنے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑے گا کہ موجودہ قومی اسمبلی کو اپنی آئینی مدت مکمل کرنے دی جائے یا فوری انتخاب کی جانب بڑھاجائے۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ بھی کئی اختلافات کو جنم دے گی۔ سیاسی گھڑمس کے دوران اہم ترین سوال یہ بھی اٹھے گا کہ آئی ایم ایف سے طے ہوئے معاہدے کو برقرار رکھنا ہے یا نہیں۔ اس ضمن میں جو بھی فیصلہ ہوا وہ مہنگائی کی لہر کو آئندہ چند ماہ کے دوران قابل برداشت نہیں بنا پائے گا۔ اس کی بدولت عوام میں جو بددلی پھیلے گی عمران خان صاحب اپنے جلسوں کے ذریعے اسے تخت یا تختہ والی جنگ کو اکسانے والے غصہ میں بدل سکتے ہیں۔
وطن عزیز میں اگرچہ اقتدار سے محروم کیے (میں سوچ سمجھ کر ”ہوئے“ نہیں لکھ رہا) سیاست دانوں کے ساتھ ”میں بہادرہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں“ والا معاملہ ہی رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اس کی تاریخی مثال ہیں۔ انہیں پھانسی دلوانے کے باوجود بھی بخشا نہیں گیا۔ ان کی دختر بھی راولپنڈی کے بازار میں قتل کردی گئیں۔ 1993 میں ”میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا“ کا نعرہ بلند کرنے کے بعد نواز شریف صاحب تین برس تک دربدر رہے۔ 1997 میں بالآخر اقتدار میں لوٹے تو اکتوبر 1999 ہو گیا۔ اس کے بعد طویل جلاوطنی۔ ان تمام واقعات کے باوجود 2013 میں وہ تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے باوجود انہیں ”بالآخر“ بہادر شاہ ظفر ”بنا دیا گیا۔ عمران خان صاحب غالباً اپنے پیشروؤں کے ساتھ ہوئے سلوک کو ذہن میں رکھے ہوئے ہیں۔ ہونی کو ٹالنے کی راہ مگر دریافت نہیں کر پارہے۔
بشکریہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر