نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمعہ اور ہفتہ کی صبح اُٹھ کر میں یہ کالم نہیں لکھتا۔ جمعیت العلمائے اسلام کے رہ نما مولانا فضل الرحمن صاحب نے مگر اعلان کردیا ہے کہ ’’آئندہ 48گھنٹوں‘‘ میں بالآخر ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ پیش ہوسکتی ہے۔ مولاناایک زیرک اور کئی حوالوں سے ذمہ دار سیاستدان ہیں۔خواہ مخواہ کی بڑھک لگانے کے عادی نہیں۔ ان کے دعویٰ پر اعتبار کو مجبور محسوس کررہا ہوں۔ اگرچہ مجھے اب بھی یہ گماں ہے کہ جس ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ کا وہ دعویٰ کررہے ہیں غالباََ وزیر اعظم کے بجائے قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے خلاف جمع کروائی جاسکتی ہے۔
یہ کالم لکھتے وقت وہ مارچ پنجاب میں داخل ہوچکا تھا۔سندھ سے گزرتے ہوئے مذکورہ مارچ کی بدولت پیپلز پارٹی نے اپنی ووٹ بینک والی قوت کو متاثر کن انداز میں دکھادیا ہے ۔تحریک انصاف نے اس کا اثر زائل کرنے کے لئے شاہ محمود قریشی کی قیادت میں متوازی مارچ کا اہتمام کیا۔مخدوم صاحب مگر اس مارچ کو ’’سیاسی‘‘نہیں بناپائے۔بنیادی طورپر بہائوالدین ذکریا سے منسوب ’’غوثیہ تحریک‘‘ کے مریدوں ہی پر تکیہ کرتے رہے۔حکومتی اتحادی ہوتے ہوئے بھی پیر پگاڑا اور ان کی سرپرستی میں قائم ہوئی جی ڈی اے مذکورہ مارچ سے قطعاََ لاتعلق رہے۔
پیپلز پارٹی کے لائے مارچ کا اصل امتحان مگر ساہی وال سے شروع ہوگا۔اوکاڑہ اور قصور کے شہروں اور قصبات میں پیپلز پارٹی 2008تک بھی کافی جاندار رہی۔ دیکھنا ہوگا کہ مذکورہ اضلاع کے خاندانی جیالوں کی نئی نسل اب بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ بھی چلنے کو آمادہ ہے یا نہیں۔وہ اگر آمادہ ہوگئی تو لاہور پہنچنے تک پیپلز پارٹی کے مارچ میں کیفیتی اعتبار سے نئی جان پیدا ہوسکتی ہے۔نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت مذکورہ مارچ کے حوالے سے غالباََ ویسا ہی سرد مہر رویہ اپنائے گی جو اس نے مولانا فضل الرحمن کے 2019میں ہوئے مارچ کے دوران دکھایا تھا۔ دیکھنا ہوگا کہ ساہی وال سے اسلام آباد پہنچتے ہوئے پیپلز پارٹی اپنے تئیں کس نوعیت کے مناظر دکھائے گی۔
یہ مارچ جب سندھ سے رحیم یار خان داخل ہوا تو مقامی انتظامیہ کئی راستوں کو خاردار تاروں اور کنٹینروں سے بند کرتی نظر آئی۔مذکورہ کاوش واضح انداز میں احمقانہ تھی۔بہتر یہی ہوگا کہ پنجاب انتظامیہ سندھ سے آئے قافلے کو اسلام آباد کی جانب اپنے پروگرام کے مطابق بڑھنے دے۔ساہی وال سے اسلام آباد کے درمیان چند مقامات پر اگر ’’پلس مقابلے‘‘ ہوئے تو عدم استحکام کی فضا اسد قیصر کے خلاف ممکنہ تحریک اعتماد سے قبل ہی رونما ہوسکتی ہے۔اس سے اجتناب لازمی ہے۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر