اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شاہ جی! خدارا عوام سے صوبہ صوبہ نہ کھیلیں!!||سارہ شمشاد

بات جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومتی کارکردگی سے شروع ہوئی تھی، تحریک انصاف کی حکومت نے ہر تحصیل میں ایک یونیورسٹی بنانتے کااعلان کیا تھا لیکن ابھی تو اس حوالے سے بھی بہت ڈھیر سارا کام ہونا باقی ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ کے خط کا پی پی اور (ن) لیگ نے جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پیشرفت کرتے رہیں گے۔ دہائیوں تک باریاں لینے والوں نے خطے کے لئے کیا کیا، سیکرٹریٹ بھی ہم نے ہی بنایا۔ عوام کی محرومیوں کا احساس ہے جبکہ دوسری طرف پنجاب کے محکموں کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کے سلسلے میں چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل کی زیرصدارت لاہور میں اجلاس میں بتایا کہ جنوبی پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں پر 51فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ ان دو خبروں کو پڑھ کر بحیثیت جنوبی پنجاب کے باسی میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہوں کہ حکومت اس خطے کے عوام کو کب تک سابقہ حکمرانوں کی طرح پاگل سمجھتی رہے گی کیونکہ جن 51فیصد ترقیاتی منصوبوں کا کریڈٹ حکومت کی جانب سے لیا جارہا ہے سچ تو یہ ہے کہ اب ایک برس میں 49فیصد بقیہ ماندہ ترقیاتی کام کیسے مکمل ہوپائیں گے اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ حکومت اپنی ادھوری کامیابی کے ڈونگرے بجاکر عوام کو طفل تسلیاں نہ دے کیونکہ اگر ہم یہاں پر صحت کے محکمے کی ہی بات کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ نشتر فیز2پر ابھی بھی کام جاری ہے جبکہ جنوبی پنجاب میں شاید ہی کوئی بڑا نیا سرکاری ہسپتال قائم کیا گیا ہو ہاں البتہ بعض معاملات پر معاملہ نئی بوتل میں پرانی شراب والا بنا ہوا ہے اس لئے بہتر ہوگا کہ حکومت عوام کو جھوٹی تسلیاں دینا بند کرے۔
جنوبی پنجاب کے عوام کے مسائل کی فہرست اٹھائی جائے تو اس میں تقریباً سبھی وہ مسائل نظر آئیں گے جو ماضی کی حکومتوں کے دور میں بھی ہوا کرتے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے 100دنوں کے اندر جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کا وعدہ کیا تھا مگر حکومت کی جانب سے وعدہ پورا کرنا تو درکنار ایک لنگڑے لُولے سیکرٹریٹ کے لالی پاپ پر ہی عوام کو ٹرخادیا گیا ہے اور اب جو شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ اور پی پی نے جنوبی پنجاب صوبے بارے خطے کا جواب نہیں دیا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا کہنے کے بعد حکومت کی ذمہ داریاں ختم ہوجاتی ہیں، کیا اپوزیشن کے اس افسوسناک رویے کے بعد حکومت کو ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جانا چاہیے تو اس کا صاف سیدھا جواب یہی ہے کہ بالکل نہیں کیونکہ بحیثیت حکومت اس پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کی مشکلات میں کمی لانے کے لئے ہرممکن اقدامات کو یقینی بنائے اور اسے اپوزیشن کو مذاکرات کے ذریعے عوام کی فلاح و بہبود سے جڑے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اقدامات کو ضروری سمجھنا چاہیے۔
یہ بات تو درست ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی دونوں نے ہی جنوبی پنجاب صوبے کے نام پر عوام کو بہت بیوقوف بنایا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ تحریک انصاف بھی کچھ ایسا ہی کررہی ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا کیونکہ اگر جنوبی پنجاب کے قیام کے لئے قانونی اور آئینی جدوجہد پی ٹی آئی اسمبلی سے شروع کرتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اتحادیوں کو پہلے اس کے لئے منائے جبکہ بہاولپور کے طارق بشیر چیمہ جنہیں جنوبی پنجاب صوبے کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت اپوزیشن سے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لئے مذاکرات کرے کیونکہ تنقید برائے تنقید اور ایک دوسرے کو صوبے کے قیام میں رکاوٹ قرار دینے کے غیرسنجیدہ طرزعمل کو اپنے تئیں خیرباد کہنا ہوگا کیونکہ اگر اب بھی پاکستان کے عوام کو بیوقوف بنانے کے رواج کو جاری رکھا گیا تو وطن عزیز میں معاملات جس تیزی کے ساتھ خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں اس کے باعث آنے والے دنوں میں کچھ اچھا نظر نہیں آرہا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب طبقاتی فرق اس قدر بڑھ جاتا ہے تو اس سے المیے جنم لیتے ہیں اور ان المیوں سے انقلاب۔ میرے وطن عزیز میں آج بھی کچھ صورتحال ایسی ڈگر پر جاتی نظر آرہی ہے کیونکہ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم نے معاشرے کو دو غیرمتوازن حصوں میں اس طرح تقسیم کرکے رکھ دیا ہے کہ امیر امیر تر اور غریب مزید غریب تر ہوتا ہی چلا جارہا ہے اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کو صحیح معنوں میں ڈلیور کرے۔ مہنگائی۔ بیروزگاری، غربت اور آبادی کا دبائو ایسے پھن پھیلانے ہوئے اژدھے ہیں جو کسی بھی معاشرے کو نگلنے کے لئے کافی ہیں اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکومت آج بھی ان اہم اور قومی نوعیت کے ایشوز بارے غیرسنجیدہ رویہ رکھتے ہیں اور یہ تک سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ عوام تن تنہا ان سے کیسے نبردآزما ہوپائیں گے۔ اب یوریا کے ساتھ گوارہ کھاد کا بحران بھی شروع ہوگیا ہے جس کے با عث کسان سڑکوں پر ہیں۔ اب کوئی حکومت سے یہ پوچھے کہ اگر ایک زرعی ملک میں کسانوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے تو پھر کسان کیسے آئندہ فصلیں اگانے بارے سوچیں گے۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ کسی بھی حکومت کی جانب سے عوام کی بہتری، ترقی اور خوشحالی کے لئے کبھی کچھ سوچا ہی نہیں گیا اسی لئے تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے۔
بات جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومتی کارکردگی سے شروع ہوئی تھی، تحریک انصاف کی حکومت نے ہر تحصیل میں ایک یونیورسٹی بنانتے کااعلان کیا تھا لیکن ابھی تو اس حوالے سے بھی بہت ڈھیر سارا کام ہونا باقی ہے۔ اب رہی بات اپنا گھر سکیم اور نوجوانوں کو قرضہ سکیم کی تو ذرا عثمان ڈرا جنوبی پنجاب میں کتنے لوگوں کو روزگار کے لئے قرض ملا، کی فہرست جاری کریں تو سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ تحریک انصاف کو اب یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہ اپوزیشن موڈ سے نکل کر حکومتی جوڑتوڑ کی اہمیت کو سمجھے اور عوام سے جڑے منصوبوں اور پروگرامز کو شرمندہ تعبیر کروانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے وگرنہ عوام کے ذہنوں میں یہ تاثر تقویت پکڑتا چلا جائے گا کہ پی ٹی آئی کو جب ایوان سے کوئی بل یا قانون پاس کروان ہوتا ہے تب اس کے نمبرز پورے ہوجاتے ہیں لیکن جیسے ہی کوئی عوام سے جڑے معاملے کی بات آتی ہے تو حکومت کی سِٹی ہی گم ہوجاتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں ابھی ایک برس سے زائد کا عرصہ باقی ہے اور شنید ہے کہ وزیراعظم عمران خان فروری کے پہلے ہفتے میں بہاولپور کا دورہ کریں گے تو بہتر یہی ہوگا کہ سیکرٹریٹ سیکرٹریٹ کھیلنے کی بجائے جنوبی پنجاب صوبے کا بل اسمبلی میں پیش بھرپور تیاری کے ساتھ پیش کریں تاکہ جنوبی پنجاب کے عوام کو ان کے نمائندوں کی اصلیت کا علم ہوسکے اور وہ آئندہ الیکشن میں کوئی بہتر فیصلہ کرسکیں، یہی وقت کی پکار ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: