مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایمرسن کالج کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان، محض اعلان؟۔۔۔سارہ شمشاد

بعض اطلاعات کے مطابق ابھی تک حکومت نے اس حوالے سے کسی قسم کے کوئی فنڈز الاٹ نہیں کئے۔ بنیادی بات یہی ہے کہ جب تک فنڈز نہیں ہوں گے اس وقت تک معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔
سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ملتان کے قدیم ترین ایمرسن کالج ملتان کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان چند ماہ قبل کیا تو اس سے خطے کے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ عرصہ دراز سے محرومیوں کا شکار لوگوں کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع میسر آجائیں گے لیکن انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو‘‘ کے مصداق ایمرسن کالج کو یونیورسٹی بنانے کا وعدہ صرف زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہے
اسی لئے تو تاحال اس حوالے سے کوئی باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی سامنے نہیں آیا ہے جس کے باعث عوام میں گومگو کی سی کیفیت ہے کہ کہیں یہ اعلان بھی جنوبی پنجاب کے دو سیکرٹریٹ کے قیام کی طرح ہی ہوا نہ ہوجائے۔
اس خطے کے غریب عوام بھی کیا کریں کہ ان کے ساتھ ہر سیاسی جماعت اور حکومت نے اتنی مرتبہ دھوکہ کیا ہے کہ اب وہ کسی پر یقین کرنے کے لئے ہی تیار نہیں اسی لئے تو معاملہ اب یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ کئی ماہ قبل ہونے والے اعلان ہونے کے باوجود تحریری نوٹیفکیشن کے حوالے سے بھی چگہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔
یعنی تحریک انصاف کی حکومت کا ایمرسن کالج کو یونیورسٹی بنانے کا وعدہ بھی جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کی طرح بطور الیکشن سٹنٹ کے لئے ہی استعمال کیا جائے گا کیونکہ اگر وزیراعلیٰ پنجاب جو اس دھرتی کے باسی ہیں، اپنے اعلان میں سنجیدگی دکھاتے تو نئے سیشن سے ایمرسن کالج بطور یونیورسٹی اپنا کام شروع کرسکتا تھا لیکن ابھی تو بورڈ آف گورننس ہی قائم نہیں ہواتو داخلے اور اسامیاں مشتہر کرنے کے حوالے سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔
بعض اطلاعات کے مطابق ابھی تک حکومت نے اس حوالے سے کسی قسم کے کوئی فنڈز الاٹ نہیں کئے۔ بنیادی بات یہی ہے کہ جب تک فنڈز نہیں ہوں گے اس وقت تک معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ اس خطے کے سیاستدان اور عاومی نمائندے بھی اس حوالے سے آواز اٹھانے سے حسب روایت انکاری ہی نظر آتے ہیں اسی لئے تو آج میرا وسیب مسائلستان بن کر رہ گیا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ آدھے ادھورے منصوبوں کا قبرستان ہے تو غلط نہ ہوگا۔
یہ درست ہے کہ جنوبی پنجاب کی پسماندگی اور محرومیوں کے ذمہ دار درحقیقت یہاں کے عوامی نمائندے ہی ہیں جو بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہونے کے باوجود اس خطے کا سپوت ہونے کا حق ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں اسی لئے تو سرائیکی وسیب کے ’’درداں دی ماڑی دلڑی علیل اے‘‘ والا معاملہ ہے۔ یہاں سرائیکی وسیب کے کن کن مسائل کا رونا رویا جائے ایک سے بڑھ کر ایک مسئلہ سر اٹھارہا ہے۔
تعلیم کے شعبے میں جو سہولیات اس خطے کو فراہم کی جارہی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کہا جارہا تھا کہ جنوبی پنجاب کے علیحدہ سیکرٹریٹ کے بعد پنجاب پبلک سروس کمیشن کی طرح ہی جنوبی پنجاب سروس کمیشن قائم کیا جائے گا مگر افسوس کہ معاملہ حسب روایت زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہے اور اس مرتبہ بھی امیدواروں نے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تحت لیکچرار کی سیٹوں کا امتحان دیا۔

اگرچہ سرائیکی وسیب کے امیدواروں کے ساتھ یہ زیادتی عرصہ دراز سے روارکھی جارہی ہے اسی لئے تو اپر پنجاب کے لوگ سرائیکی خطے میں نوکریاں کررہے ہیں جس سے یہاں کے لوگوں میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان تعلیم اور صحت کے شعبوں کے حوالے سے خاصے سرگرم رہتے ہیں اور ہر وقت ان دونوں شعبوں کی ترقی کی بات کرتے رہتے ہیں مگریہاں ’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ والا سا معاملہ ہے۔
نشتر ہسپتال ملتان اس وقت نہ صرف جنوبی پنجاب بلکہ بلوچستان تک کے مریضوں کا تن تنہا بوجھ عرصہ دراز سے اٹھارہا ہے مگر مجال ہے کہ خطے میں کوئی دوسرا بڑا ہسپتال بنانے کی بھی سبیل کی گئی ہو۔ تعلیم ترقی یافتہ قوموں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور وزیراعظم عمران خان جو خود آکسفورڈ کے گریجوایٹ ہیں، اس کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ وہ نامکمل آدھے ادھوری منصوبوں کااعلان کرنے کی بجائے ان ان کو مکمل کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کریں تبھی جاکر وہ آئندہ الیکشن میں عوامی عدالت میں باوقار طریقے سے پیش ہوسکیں گے۔
ایمرسن کالج کا شمار ملتان کد قدیم ترین علمی درسگاہوں میں ہوتاہے اس لئے وزیراعلیٰ پنجاب کو چاہیے کہ وہ صرف اس اعلان کو اعلان تک ہی محدود نہ رکھیں بلکہ اس کو عملی جامہ پہنانے کی سبیل بھی کریں کیونکہ ایمرسن کالج اس خطے کا ایک ایسا نمائندہ کالج ہے جس سے پڑھ کر ہی اس خطے کے لوگ صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور سپیکر جیسے بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہوئے۔
اس سلسلے میں ان تمام سیاستدانوں اور نامور لوگوں پر یہ اخلاقی ٓذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مادرعلمی کا قرض چکائیں اور اس کو یونیورسٹی سٹیٹس بنانے کے لئے ایک عملی جدوجہد کا آغاز کریں تاکہ وہ حکمران جس کے دلوں پر قفل لگ گئے ہیں انہیں یہ اندازہ ہوسکے کہ اب اس خطے کے غریب باسیوں کو محض طفل تسلیوں سے چپ نہیں کروایا جاسکتا کیونکہ اس خطے کے لوگ اب پہلے کی طرح جاہل اور لاعلم نہیں بلکہ اپنے جائز حق کا مطالبہ کررہے ہیں جو حکمرانوں کو انہیں ہر صورت دینا پڑے گا۔
یہاں میں اس خطے کی سیاسی بالخصوص علیحدہ سرائیکی صوبے کے نام پر ایک ایک فرد پر مشتمل جماعتوں کی خودغرضی پر افسوس ضرور کرنا چاہوں گی کہ انہیں خطے کی ترقی سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ معاملہ ذاتی تشہیر تک ہی محدود ہے اسی لئے تو ابھی تک ایمرسن کالج کو یونیورسٹی بنانے کی جدوجہد تو کیا شروع کرنی، اس حوالے سے کوئی بیان تک دینے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی۔
وزیراعلیٰ پنجاب جو ایک مہربان اور شفیق انسان کے طور پر مشہور ہیں، کو چاہیے کہ وہ اس اعلان کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو اس خطے کو اعلیٰ معیار کا ایک سرکاری تعلیمی ادارہ میسر آجائے گا یہی نہیں بلکہ کئی لوگوں کو روزگار کا ذریعہ بھی میسر آجائے گا۔ امید کی جانی چاہیے کہ ملتان کی بڑی شخصیات بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گی۔

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: