مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اگلے جنم مجھے خسرو بختیار ’’کیجیئو‘‘!!۔۔۔سارہ شمشاد

خسرو بختیار اینڈ فیملی کے اثاثے جس طرح دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں ویسے ہی عوام کے کریں اسی لئے تو اب عوام بھی یہی دعا کررہے ہیں کہ اگلے جنم مجھے خسرو بختیار’’ کیجیئو‘‘۔
سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

آج کل ایک فقرہ سوشل میڈیا پر بہت مشہور ہورہا ہے کہ ’’اگلے جنم میں مجھے ہزارہ نہ کیجئو‘‘ کبھی یہ فقرہ ’’اگلے جنم میں مجھے بنیانہ کیجیو کے طورپر مشہور تھا مگر آج کل وطن عزیز کے جو حالات چل رہے ہیں اس کے باعث مجھ سمیت ہر پاکستانی اس بات پر مکمل طور پر متفق ہوگا کہ ’’اگلے جنم میں مجھے خسرو بختیار کیجئو‘‘کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وفاقی وزیر خسرو بختیار اور ان کے بھائی اور پنجاب کے وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کو ناقابل سماعت قرار دے دیا ہے۔ واہ ری قسمت تو جب مہربان ہوتی ہے تو امیروں پر ہی۔ غریب بیچارے پر مہربان ہوناتو جیسے ان کے نصیب میں ہی نہیں اسی لئے تو انہیں اپنی قسمت روٹھی روٹھی محسوس ہوتی ہے۔ یقیناً اسے حالات کے جبر کے سوااور کیا کہا جاسکتاہے کہ ایک طرف ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کے لئے جینا دوبھر ہوتا رہاہے جبکہ دوسری طرف امیر امیر تر ہورہے ہیں اور ہوں بھی کیوں نہیں کہ ان کی تو ہر طرف سے لاٹری ہی نکل رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان ٹیکس جمع کرنے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں لیکن کبھی یہ ہدایت کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ لاکھوں کی تعداد میں جو غیررجسٹرڈ سرمایہ دار ہیں انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے اقدامات اٹھائے جائیں۔ ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے بھی اپنے حالیہ انٹرویو میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ وطن عزیز میں ایسے بہت سے سرمایہ دار ہیں جن کے بینکوں سے روزانہ لاکھوں کی ٹرانزیکشن ہورہی ہیں مگر ان کےپاس این ٹی این نمبر نہیں ہے جو اس امر کا عکاس ہے کہ کہیں تو گڑبڑ ہورہی ہےاور وہ بیچارہ غریب جس نے اپنی زندگی کی جمع پونجی اکٹھی کرکے ایک مکان یاگاڑی لے بھی لی ہے تو اس پر زندگی کا ہر دروازہ بند کیا جارہا ہے جس کے باعث عوام کے ذہنوں میں یہ تاثر تقویت پکڑ رہاہے کہ حکومت مرے کو مارے شاہ مدار کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے خسروبختیار کو کلین چٹ ملنے کےبعد عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ موصوف کی دولت جو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہی ہے اس بارے ایف بی آر اور نیب سمیت متعلقہ ادارے حرکت میں کیونکر نہیں آرہے غالباً ان کے پاس کوئی ایک ایسا الہ دین کا چراغ ہے جس کو ہاتھ لگاتے ہی سب کچھ غائب ہوجاتا ہے اسی لئے تو تمام تحقیقاتی ادارے ان کے خلاف کوئی سراغ ڈھونڈنے میں ناکام رہے ہیں۔ ویسے ایک بات تو ہے کہ جلنے والے کامنہ کالا۔ کیاہی بہتر ہو کہ وزیراعظم عمران خان خسرو بختیار کو خزانے کا وزیر بنادیں تاکہ جس طرح ان کے ذاتی اثاثہ جات میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اسی طرح قومی خزانہ بھی بھرجائے کیونکہ ہمارا تجزیہ تو یہی کہتا ہے کہ وہ جس چیز کو ہاتھ لگادیں وہ سونا بن جاتی ہے ویسے بھی وزیراعظم صاحب جہاں وطن عزیز ایک تجربہ گاہ بن چکا ہے تو میرے خیال میں یہ کڑوا گھونٹ پینے پر عوام کوکوئی خاص اعتراض اس لئے نہیں ہوگا کہ چند ہی دنوں کے بعد ان کی قسمت بدلنے والی ہے اور وہ کچھ عرصہ مزید حالات کا بوجھ اٹھائیں گے۔
جان کی امان پائوں تو عزت مآب خسرو بختیار کچھ عرض کروں! کہ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل آپ نے سرائیکی صوبہ محاذ کے نام سے ایک پریشر گروپ بنایا تھا اور جونہی آپ کو جیتنے کے بعد مطلوبہ وزارت ملی تو آپ کی حالت جیسے جانتے ہی نہیں کی سی ہوگئی ہے اسی لئے سرائیکی وسیب کے لوگوں کو اچھوت سمجھ کر ان سے کئے گئے وعدوں کو یکسر ہی بھلابیٹھے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر خسرو بختیار کا ایک انٹرویو چل رہا ہے جس میں موصوف سرائیکی صوبہ بنانے کی نہ صرف سختی سے مخالفت کررہے ہیں بلکہ اسے فیڈریشن کو نقصان پہنچانے کے علاوہ سرائیکی صوبہ محاذ کے اتحاد کے قیام کے بنیادی اوریک نکاتی ایجنڈے کو بھی سرے سے ماننے سے انکاری ہیں۔
سننے میں آرہا ہے کہ موصوف کو ہاتھ لگانے سے پَر جلتے ہیں اسی لئے تو سب لوگ صاحب بہادر کو کہیں ناگوار نہ گزر جائے، حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ خسرو بختیار، جہانگیر ترین، مخدوم احمد محمود سمیت دیگر بڑے امیر لوگ جو جہازوں کےمالک، وسیب سے کماکر بنے ہیں مگر انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ کوئی بھی اس خطے پر خرچ کرنے کو تیار نہیں۔ ظاہر ہے ہوں بھی کیسے سب کو تو اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں وہ کیوں گارے مٹی سے اٹی ہوئی غربت زدہ آنکھوں اور چہروں کی مایوسیوں کو ختم کرنے کے لئے کوئی قدم اٹھائیں۔ جو کچھ اللہ نے انہیں دیا ہے وہ ان کا جدی پشتی حق ہے۔ غریب عوام کا مقدر تو بھوک و ننگ سے اٹے رہنا ہے ان کی قسمت میں دھکے ہیں تو وہ خود کمائیں، ہماری ایلیٹ کے شاہی مزاج پر غریب عوام کی سسکیوں اور آہوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا اسی لئے تو اب ہزارہ کے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ انہیں ہزارہ نہ کیجیئر اور وہ کچھ غلط بھی نہیں کہہ رہے کہ ان کے ساتھ ہونے والی یہ کوئی پہلی زیادتی نہیں ہے بلکہ اس سے قبل کئی کئی مرتبہ وہ اپنے پیاروں کی لاشیں لے کر کئی کئی ہفتے سڑکوں پر سردیوں کے موسم میں بھی دھرنا دے چکے ہیں اور ہمیشہ انہیں مجرمان کو قرار واقعی سزا دلوانے کی جھوٹی طفل تسلیاں دے کر خاموش کروایا جاتاہے لیکن مجال ہے کہ کسی نے محرومیوں کے شکار ہزارہ کے دکھوں کو سمجھتے ہوئے اس کا مداوا کرنے کی کبھی کوشش بھی کی ہو۔ ایسے میں ارباب اختیار کو یاد رکھنا چاہیے کہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اس لئے ہمدردی کے دو بول، بول کر انہیں ٹرخانے کی حکمت عملی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم ہزارہ کے لوگوں کے دکھوں پر مرہم رکھنے کے لئے خود بلوچستان جائے تو شاید کچھ فیس سیونگ ہوجاتی لیکن گومگو کی سی کیفیت ہے جس کا اپوزیشن بھرپور فائدہ اٹھانے کے موڈ میں ہے اور حکومت اس معاملے میں بھی مکمل طور پر بیک فٹ پر ہے۔ اسی طرح اقتصادی امور کے وفاقی وزیر خسرو بختیار کو چاہیے کہ وہ آبادی کے تناسب سے ملازمتوں کا کوٹہ دیا جائے گا یہی نہیں بلکہ موصوف تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب کا بجٹ وسیب پر ہی خرچ ہوگا، کی بیان بازی نہ کریں کیونکہ یہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے اس لئے اگر عوام کے لئے کچھ اچھا نہیں کیا جاسکتا تو ان کے دکھوں کو مزید بڑھانے کی بجائے ان پر ایک مرتبہ ہی ایٹم بم چلاکر صفحہ ہستی سے مٹادیاجائے کیونکہ یہی ایک طریقہ ہے جس سے عوام کو دکھوں کو نجات دلوائی جاسکتی ہے۔تاہم اگر ہمارے معزز سیاستدان عوام کے لئے کچھ اچھا کرناچاہتے ہیں تو ان کی حالت زار بہتر بنانے کے لئے تعلیم اور صحت کے میدانوں میں کچھ بہتری لانے کی طرف توجہ دیں تاکہ ان کے سرمائے سے یہاں کے لوگ بھی کسی حد تک مستفید ہوسکیں وگرنہ خسرو بختیار اینڈ فیملی کے اثاثے جس طرح دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں ویسے ہی عوام کے کریں اسی لئے تو اب عوام بھی یہی دعا کررہے ہیں کہ اگلے جنم مجھے خسرو بختیار’’ کیجیئو‘‘۔

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: