اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وزیر اعظم کا دورہ بہاولپور||ظہور دھریجہ

تحریک انصاف کے نفع نقصان کا تو اندازہ نہیں البتہ بہاولپور کے لوگوں نے نواب صلاح الدین عباسی کو پانچ مرتبہ ایم این اے بنوایا مگر انہوں نے کوئی کام نہیں کیا۔ مقامی لوگ نواب صاحب کے پاس فریاد لیکر جاتے ۔

وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز بہاولپور کا دورہ کیا ،اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں صحت کارڈ اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ مدینہ کی ریاست کے سنہرے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے موجودہ حکومت فلاحی ریاست کے قیام کے لئے کوشاں ہے، اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ کرپشن کے خاتمہ کے لئے قوم کو میرا ساتھ دینا ہوگا،اس موقع پر وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار اور وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیارنے بھی خطاب کیا۔
لوگ توقع کر رہے تھے کہ بہاولپور ڈویژن کے لئے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان ہوگا مگر کسی ایک منصوبے کا بھی اعلان نہ ہوا، اس کے برعکس وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار بہاولپور سے فراغت کے بعد ڈیرہ غازی خان پہنچے ، وہاں انہوں نے اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا،ڈی جی خان کو بھی ترقی ملنی چاہئے کہ وہاں کے سرداروں نے آج تک ترقی نہیں ہونے دی مگر دوسرے علاقوں سے امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہئے۔
رحیم یار خان اور بہاولپور کے بہت سے منتخب عوامی نمائندوں کو سکیورٹی اہلکاروں نے اندر جانے ہی نہ دیا جس پر وہ خفا ہو کر واپس چلے گئے۔ وزیر اعظم کے دورہ سے بہاولپور کے احساس محرومی میں مزید اضافہ ہوا ہے ، عمران خان کو بہاولپور کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہئے کہ روایتی سیاستدان اصل حالات و واقعات کبھی حکمرانوں کے علم میں نہیں لاتے ، اسی بناء پر بتانا ضروری ہے کہ بہاولپور کا معاملہ حساس ہے، قیام پاکستان سے پہلے ریاست بہاولپور کی خوشحالی کا یہ عالم تھا کہ برطانیہ کا پائونڈ اور ریاست بہاولپور کی کرنسی برابر تھی۔
یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ قیام پاکستان سے پہلے نواب بہاولپور نے ریاست کی طرف سے ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا جس پرایک طرف مملکت خداداد بہاولپور اور دوسری طرف پاکستان کا جھنڈا تھا ،پاکستان قائم ہوا تو قائداعظم ریاست بہاولپور کی شاہی سواری پربیٹھ کر گورنر جنرل کا حلف اٹھانے گئے ،پاکستان کی کرنسی کی ضمانت ریاست بہاولپور نے دی ،پہلی تنخواہ کیلئے پاکستان کے پاس رقم نہ تھی ۔
نواب بہاولپور نے پہلی تنخواہ کے لئے 7کروڑ روپے کی خطیر رقم دی قائد اعظم نے نواب بہاولپور کو محسن پاکستان کا خطاب دیا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ نواب آف بہاولپور وائسرائے ہند کے استقبال سے اجتناب کرتے تھے مگر قائد اعظم کا دل سے احترام کرتے وجہ یہ بھی کہ ان کے اندر ہمدرد انسان کا دل موجود تھا ۔کوئٹہ میں1935ء میں زلزلہ آیا یا پھر 1947ء میں ہندوستان سے آبادکاروں کے قافلے بہاولپور اسٹیشن پہنچے۔نواب بہاولپور بنفس نفیس بہاولپور اسٹیشن پہنچے، تحائف نقدی کے علاوہ اپنے ہاتھ سے مصیبت زدگان میں طعام تقسیم کیا ۔ احساس محرومی پورے وسیب کا مسئلہ ہے مگر بہاولپور میں اس کا احساس نمایاں ہے، وسیب کے دیگر علاقے 200سال پہلے اپنی خود مختاری سے محروم ہوئے جبکہ بہاولپور کی محرومی کا زخم ابھی تازہ ہے۔
اقتدار کی سیاست کرنے والے حکمرانوں کو اصل حقائق نہیں بتاتے ہوں گے مگر یہ بتانا ضروری ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بہاولپور رجمنٹ جو وسیب کی علامت تھی ، کو ختم کیا گیا ، ملازمتوں کے دروازے بند کئے گئے ، فارن سکالر شپ ختم ہوئی ، ریونیو بورڈ لاہور چلے جانے سے ناجائز الاٹمنٹوں کا طوفان اٹھا دیا گیا ، بہاولپور کے دریا بیچ دیئے گئے ، بہاولنگر جنکشن بند ، امروکہ بند ، اس کے ساتھ یہ ظلم بھی کیا گیا کہ کراچی دہلی کا سب سے بڑا ریلوے ٹریک میکلوڈگنج جنکشن بند کر دیا گیا ، آج بہاولپور اسٹیشن پر جائیں تو دنیا کے خوبصورت اسٹیشن کی ویرانی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ،
دریائے ستلج کی موت کے بعد آج اس خطے میں دوسرا چولستان وجود میں آرہا ہے، وزیر اعظم کو اسلامیہ یونیورسٹی کے لئے اور نہیں تو کم از کم چولستان ریسرچ اور دریائے ستلج کی تہذیب کو زندہ رکھنے کیلئے فنڈز کا اعلان کرنا چاہئے تھا۔ بہاولپور کی خوشحالی کا ذکر ہو رہا تھا تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ نواب بہاولپور نے 1200 ایکڑ رقبے پر مشتمل بر صغیر جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا صادق پبلک سکول ، دنیا کی سب سے بڑی سنٹرل لائبریری ، جامعہ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ ، بہاولپور میں بہت بڑا سٹیڈیم ، سب سے بڑا چڑیا گھر اور 1906ء میں ہندوستان کا سب سے بڑا وکٹوریہ ہسپتال قائم کیا ۔
بہاولپورکے محلات اتنے شاندار تھے کہ یورپ بھی ان پر رشک کرتا تھا ، محلات میں فرنیچر پر سونے کے کام کے علاوہ برتن بھی سونے کے تھے ۔ سرائیکی قوم کی خوشحالی کا یہ عالم تھا کہ وسیب کے لوگوں نے طلے والا کھسہ یعنی سونے کی تاروں والے جوتے پہنے۔ آج وسیب کے لوگ موجودہ والیان ریاست کو اچھے لفظوں سے یاد نہیں کرتے، مگر وزیر اعظم کے دورہ سے قبل ایک واقعہ یہ بھی ہوا ہے کہ نواب صلاح الدین عباسی کے بیٹے بہاول خان عباسی نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ہے ۔
تحریک انصاف کے نفع نقصان کا تو اندازہ نہیں البتہ بہاولپور کے لوگوں نے نواب صلاح الدین عباسی کو پانچ مرتبہ ایم این اے بنوایا مگر انہوں نے کوئی کام نہیں کیا۔ مقامی لوگ نواب صاحب کے پاس فریاد لیکر جاتے ۔ اس پر سرائیکی شاعر جہانگیر مخلص نے لکھا: دَر تیڈے تے روندے بیٹھوں بیدخلی دے بعد ویندا پئیں تاں منگی آویں اڈ تے رتی ٹوپی اٹے دی ہک پڑوپی عمران خان صاحب !محروم اور پس اُفتادہ بہاولپور کے مسائل پر توجہ دیجئے کہ بہاولپور عظیم تھا اور اُس کی عظیم خدمات ہیں ۔
میں بتانا چاہتا ہوں کہ علامہ اقبال ؒ مسلمانوں کے نمائندہ شاعر تھے ‘ وہ فلسفے کی زبان میں بات کرتے وہ قصیدہ خواں یا درباری شاعر ہرگز نہ تھے ۔ پنجاب کے سیاسی حالات اچھے نہ تھے تو انہوں نے برملا کہا کہ ’’ہیں اہل نظر کشور پنجاب سے بیزار‘‘ اس کے مقابلے میں وہ مملکت خداداد بہاول پور کی علمی اور فلاحی خدمات سے بہت زیادہ خوش تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے 92مصرعوں پر مشتمل ’’دربار بہاول پور‘‘ کے نام سے ایک قصیدہ لکھا ‘ 1903ء میں بہاول پور جشن تاج پوشی منایا جا رہا تھا ‘ وائسرائے ہند اور والیان ریاستہائے ہندوستان تقریب میں جلوہ افروز تھے ‘ علامہ اقبالؒ نے بھی وہاں پہنچنا تھا مگر وہ نہ آ سکے البتہ انہوں نے ’’دربار بہاول پور‘‘ کا قصیدہ جو اس موقع کیلئے لکھا تھا‘ بھجوادیا تھا ۔ یہ قصیدہ کتاب ’’باقیات اقبال‘‘ میں موجود ہے‘ ایک شعر ملاحظہ فرمائیں: بزم انجم میں ہے گو چھوٹا سا اک اختر زمیں آج رفعت میں ثریا سے بھی ہے اوپر زمیں

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: