اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صوبہ جنوبی پنجاب اور حکومتی لارے||سارہ شمشاد

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنے 3برس کے دور اقتدار میں کوئی ایک بھی ایسا منصوبہ نہیں دے سکی جو عوام کی مشکلات میں صحیح معنوں میں کمی کا باعث ہوتا اور عوام اس سے صحیح معنوں میں مستفید ہوتے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ماضی میں جنوبی پنجاب کو نظرانداز کرکے صحت، تعلیم اور روزگار کے مساوی مواقع نہیں دیئے گئے۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کا مقصد خطے کو ترقی دینا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے نامور صنعتکار خواجہ جلال الدین رومی سے ملاقات میں ان کی سماجی خدمات کو سراہا۔ اس موقع پر خواجہ جلال الدین رومی نے وزیراعظم سے کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات پر زور دیا۔ اس موقع پر جلال الدین رومی نے خواہش کا اظہار کیا کہ ملک کا کاروباری طبقہ وزیراعظم کی ہائوسنگ سکیم میں بھرپور طریقے سے حصہ لے تاکہ کورونا کی وجہ سے جمود کی شکار معیشت کو سنبھالا دیا جاسکے۔ وزیراعظم سے جنوبی پنجاب کے دیگر اراکین اسمبلی عامر ڈوگر اورنگزیب خان کھچی۔ نور خان بھابھہ نے بھی ملاقات کی۔
وزیراعظم کا جنوبی پنجاب کی محرومیوں اور ابتلا کے شکار عوام کی تکلیف کا احساس خوش آئند ہے کہ چلو انہیں جنوبی پنجاب کی عوام کے بنیادی حقوق پر دہائیوں سے پڑنے والے ڈاکے کا بخوبی ادراک ہے تو ایسے میں عوام ان سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ اڑھائی برس سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے ابھی تک اس خطے کی محرومیوں اور پسماندگی کو دور کرنے کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات کیونکر نہیں کئے۔ اگرچہ وزیراعظم کی جانب سے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کو خطے کی ترقی سے منسوب کیا گیا ہے لیکن کوئی ہمارے سیدھے وزیراعظم سے پوچھے کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر سیکرٹریٹ کے اعلان سے انہوں نے اذیتوں اور تکالیف کے شکار غریب عوام کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے کیونکہ کچھ اطلاعات ایسی بھی آرہی ہیں کہ عملی طور پر سیکرٹریٹ کو لاہور سے ہی چلایا جارہا ہے یعنی خان صاحب کی حکومت میں بھی سرائیکی خطے کے باسیوں کے جذبات کا مذاق اڑایا گیا ہے۔
اگر سیاسی حوالے سے دیکھا جائے تو جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی سے وزیراعظم کی ملاقاتوں کو ایک مثبت اور اچھی حکمت عملی سینٹ الیکشن سے پہلے قرار دیا جاسکتا ہے لیکن دوسری طرف جنوبی پنجاب کے باشعور عوام اب اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ذاتی مفادات کے اسیر نمائندوں کی جانب سے یہ ملاقاتیں یونہی بے سبب نہیں ہورہیں اس کے پیچھے یقیناً ان کے اپنے ذاتی مفادات وابستہ ہیں اور وہ سینٹ الیکشن کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کی ہرممکن سعی کریں گے۔ ایسے میں معروف صنعتکار جلال الدین رومی کی جانب سے صاحب ثروت افراد کے آگے بڑھ کر خطے کی خدمت کرنے کی اپیل کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔
جنوبی پنجاب کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین خطے میں ہوتا ہے اس لئے وزیراعظم پر لازم ہے کہ وہ اس خطے سے کئے جانے والے وعدوں کو پورا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں مگر نجانے کون سی ایسی انجانی مصلحت جو انہیں وسیب زادوں کی خدمت سے روک رہی ہے کیونکہ ایک ایسے شخص سے جوجنوبی پنجاب کے تعلیم، صحت اور روزگار کے معاملے میں پیچھے رہنے کا اعتراف کررہا ہے تو اس کی جانب سے آئیں بائیں شائیں میرے وسیب کے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ ویسے تو پورے جنوبی پنجاب میں سرکاری تعلیمی ادارے تو کم ہیں ہی، مگر کوئی پرائیویٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے بھی تیار نہیں جو اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ یہاں کا سرمایہ کار بھی حکومت کی طرح جی جان سے یہی چاہتاہے کہ میرے وسیب کے باسی جاہل، اجڈ، گنوار ہی رہیں حالانکہ پرائیویٹ سیکٹر میں یونیورسٹیوں کے خطے میں آمد سے جہاں طلباء کے لئے تعلیم کے مواقع میسر آئیں گے وہیں نئی یونیورسٹیوں کے قیام سے خطے میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے جہاں پڑھے لکھے افراد کی بڑی تعداد میں کھپت ممکن ہوسکے گی۔ بڑے عرصہ کے بعد کسی سیاسی رہنما کی جانب سے تعلیم کے حوالے سے بیان سامنے آنے پر خوشی ہوئی کہ چلو اس قحط الرجال کے دور میں کسی نے تعلیم کے بارے میں کچھ کہنے کی زحمت گوارہ کی۔ احسن اقبال نے تعلیمی فنڈز کم کرنے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا کہ موجودہ حکومت پہلے سے محدود تعلیمی فنڈز کو مزید سکیڑنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنے 3برس کے دور اقتدار میں کوئی ایک بھی ایسا منصوبہ نہیں دے سکی جو عوام کی مشکلات میں صحیح معنوں میں کمی کا باعث ہوتا اور عوام اس سے صحیح معنوں میں مستفید ہوتے۔ بجلی کی قیمت میں اضافہ درحقیقت عوام کی جیب پر 200ارب کاڈاکہ قرار دیا جارہا ہے۔ شنید تھی کہ وزیراعظم عمران خان کا جنوری میں ملتان کا دورہ متوقع ہے لیکن اس کے بارے میں تاحال گومگو کی سی صورت ہے اس لئے بہتر ہوگا کہ وزیراعظم اور اراکین اسمبلی اس بارے سنجیدگی سے سوچیں کہ وہ اگلے الیکشن میں عوام کے دربار میں جاکر مسائل حل نہ ہونے کے بارے میں کیا دلیل پیش کریں گے۔ وزیراعظم پوری دنیا میں ایک سوشل ورکر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور ان پر عوام کا اعتماد ہے کیا ہی بہتر ہو کہ وزیراعظم عمران خان ذاتی حیثیت میں ہر شہر کے سرمایہ کاروں، تاجروں اور سرمایہ کاروں سے اپنے شہر کی ترقی کے لئے عملی اقدامات بارے لائحہ عمل تیار کرکے دیں اور ہر شہر کا ایک بورڈ آف گورنس بنائیں جس میں ان تمام صاحب ثروت لوگوں کو شامل کریں جو اپنے شہر کی ترقی کے لئے خود آگے آئیں یہی ایک طریقہ ہے کہ جس سے لوگوں کو ترقی ہوتی ہوئی نظر آئے گی۔ روزگار کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اس لئے پڑھے لکھے لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں مگر افسوس کہ حکومت کی جانب سے سو سے زائد اداروں کو ختم کرنے کی تیاری کی جارہی ہے جس سے بڑی تعداد میں بیروزگاری پھیلنے کا خطرہ ہے۔ اب بیروزگاری کا یہ جن عوام پر کیا قہر ڈھائے گا اس کا حکومت کو سنجیدگی سے ادراک کرنا چاہیے وگرنہ حکمت بالخصوص خان صاحب کو آئندہ الیکشن میں نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: