مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎ویجائنا کی کٹائی، سلائی اور ترپائی!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ویجائنا کی صحت کا خیال قدرت کے ہاں کمال طریقے سے رکھا گیا ہے۔ ویجائنا ضرورت پڑنے پہ نم رہے، جراثیموں کے حملے کا شکار نہ بن کر عورت کی زندگی عذاب نہ بنا دے۔ یہ سب کچھ اس گائناکالوجسٹ کے کام کا حصہ ہے جو، بقول ابن بطوطہ (جدید)، کھینچ کھانچ کر بچہ تو نکالتی ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ بہت کچھ اور بھی!

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“سنو کاج ٹانکہ بناؤ”

“وہ کیا ہوتا ہے”

 “کاج ٹانکہ …بٹن ہول سٹچ …بھئی وہی جو کاج بٹن میں لگایا جاتا ہے”

“نہیں مجھے نہیں آتا”

وہی حشر ہوا ہمارا جو ایک بار دوست ڈاکٹر سے سن کر ہوا تھا کہ انہیں ترپائی کرنی نہیں آتی ۔ اور ہم منہ پھاڑے دیکھتے رہ گئے تھے کہ ترپائی کرنا کونسی سائنس ہے بھئی؟

اب پلیز یہ مت سمجھ لیجئے گا کہ ہمارا کسی خیاط یا سوزن کار گھرانے سے کوئی تعلق ہے ویسے ہوتا بھی تو کوئی مضائقہ نہیں تھا ۔ وہ جو درزیوں کے در پہ ہم دھکے کھاتے پھرتے ہیں اور کپڑوں کا ستیاناس ہوتا دیکھ کے آہیں بھرتے ہیں، اس سے تو بچ جاتے۔

اماں کو سلائی سے عشق تھا اور ہمیں اماں سے۔ وہ لمبی دوپہروں میں اپنی جان سے عزیز سنگر مشین نکال کر بیٹھ جاتیں اور ہم اماں کی بغل میں! لیجئے خود ہی جان لیا سب کچھ کہ ترپائی کیا ہوتی ہے اور کاج ٹانکہ کیا؟

کاج ٹانکہ ہسپتال کے آپریشن تھیٹر میں ہمیں یاد آیا تھا اور جونئیر ڈاکٹر کی ناواقفیت پہ ہماری شرارت کی رگ پھڑکی تھی۔

“اچھا بھئی، کاج ٹانکہ نہیں آتا تو کینگرو پاؤچ بنا دو”

“کینگرو پاؤچ ….. “ وہ ہکلائی

“ ہاں بھئی میاں کینگرو جو آسٹریلیا میں پایا جاتا ہے اور ماما کینگرو جو پیٹ کے ساتھ بچہ لٹکائے پھرتی ہے”

وہ ڈاکٹر یقیننا دل ہی دل میں ہماری شرارت یا کمینگی پہ دل کھول کے ہمیں کوس رہی ہو گی۔ آخر ہمیں ترس آ ہی گیا اور ہم نے بٹن ہول سٹچ یا کاج ٹانکے کی ماہئیت پہ دل کھول کے روشنی ڈالی ۔ ساتھ میں کینگرو پاؤچ کا جغرافیہ بھی سمجھا ڈالا۔

اب بھلا کام کے دوران ایسے چٹکلے بھی نہ چھوڑے جائیں تو برسہا برس ایک ہی کام زندہ دلی سے کیسے کیا جائے؟

خدارا یہ مت سمجھیے گا کہ آپریشن تھیٹر میں سلائی کڑھائی کا کوئی کورس کروایا جا رہا تھا۔ لیکن آپس کی بات ہے کہ ہر آپریشن میں سلائی اور ٹانکہ بھرنا ہی تو بنیادی بات ہے۔ وہی ڈاکٹر اچھی سلائی کرے گا نا جسے ٹانکوں کی پہچان ہو گی؟ اور یہ بھی کہ کتنی گہرائی پہ سوئی کہاں سے نکالنی ہے اور کونسی گانٹھ لگانی ہے؟ کہاں سے کہاں تک کاٹنا ہے؟ شریانوں سے خون روکنا اور کاٹ کے کسی عضو کو سینا، یہی تو کام ہے ہمارا ۔

یقین مانیے ہمارا درزی بہت تنگ رہتا ہے ہم سے۔ ایک ڈاکٹر کے منہ سے سلائی کڑھائی کے جملہ امور پہ تنقید اور رموز و کنایہ سے شناسائی جان کر منہ کھول کر ہمیں گھورنا شروع کر دیتا ہے، دل ہی دل میں ہمیں کوس کر سوچتے ہوئے کہ محترمہ درزن ہیں یا دائی؟

مریضہ کی ویجائنا کے نچلے حصے میں بڑے اُبھار سے اندر کی طرف بار بار ایک پھوڑا بنتا جو آہستہ آہستہ پیپ سے بھرتا، پھر پھوٹ کر پیپ خارج کر دیتا۔ کچھ دن افاقہ رہتا اور پھر پھوڑا بننا شروع۔ ایسا کئی بار ہو چکا تھا۔

ہمارے پاس وہ جب آئی تو درد کے مارے بیٹھنا محال تھا ۔ بار بار کہتی

“نہ جانے شرم گاہ میں کیا مسئلہ ہے، یہ تکلیف جاتی ہی نہیں۔ دو بار تو کٹ لگا کر پیپ نکالی بھی جا چکی ہے، لیکن پھر جمع ہو جاتی ہے”

شرم گاہ نے جس شرم میں مبتلا کیا تھا وہ کہے بغیر بھی سمجھی جا سکتی تھی۔ خیر معائنے کے بعد ہماری تشخیص بارتھولن ایبسس ( Bartholin abscess) کی تھی جو دواؤں سے ٹھیک نہیں ہو سکتی تھی۔ بے ہوشی دے کر ایک چھوٹا سا آپریشن ضروری تھا۔

بارتھولن گلینڈ ( Bartholin gland) مٹر سائز کے ایسے غدود جو چھوٹے ابھار کے باہر ویجائنا کے انتہائی نچلے حصے میں دائیں بائیں پائے جاتے ہیں۔ ان کا کام ایسی رطوبت پیدا کرنا ہے جو ویجائنا کو ضرورت کے مطابق نم رکھے بالکل ویسے ہی جیسے منہ کے اندر لعاب دہن یہ کام انجام دیتا ہے۔

سترہویں صدی عیسوی میں ان غدودوں کو دریافت کرنے کا سہرا تھامس بارتھولن کے سر بندھا جن کا تعلق یونیورسٹی آف کوپن ہیگن، ڈنمارک سے تھا۔ ان غدودوں کو بارتھولن کے نام سے پکارنا ان کے نام کو زندہ رکھنے کی کامیاب کوشش ہے۔

thomas bartholin

جب بھی ضرورت ہو، غدود کی رطوبت ایک چھوٹی نالی کے ذریعے ویجائنا تک پہنچتی ہے۔ کبھی کبھی نالی بند ہو جانے سے رطوبت جمع ہو کر پھنسی یا پھوڑے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ انفیکشن ہونے کی صورت میں جمع شدہ رطوبتیں پیپ میں بدل جاتی ہیں اور مریضہ پھوڑے سے اٹھنے والی شدید درد کی وجہ سے اٹھنے بیٹھنے میں مشکل محسوس کرتی ہے۔

پھنسی یا پھوڑے سے اگر پیپ خود ہی خارج ہو جائے تو معاملہ سدھر جاتا ہے ۔ لیکن اگر غدود کی نالی بار بار بند ہو کر رطوبتیں جمع کرنا شروع کر دے تو ضروری ہو جاتا ہے کہ نشتر لگا کر رطوبتیں نکال دی جائیں اور گلینڈ کی نالی کو مستقل بنیادوں پہ کھلا رکھنے کا ایسا عمل کیا جائے جسے مارسپیلائزیشن کہا جاتا ہے اور اس میں کاج ٹانکے کی مدد سے کینگرو پاؤچ بنائی جاتی ہے۔

ویجائنا کی صحت کا خیال قدرت کے ہاں کمال طریقے سے رکھا گیا ہے۔ ویجائنا ضرورت پڑنے پہ نم رہے، جراثیموں کے حملے کا شکار نہ بن کر عورت کی زندگی عذاب نہ بنا دے۔ یہ سب کچھ اس گائناکالوجسٹ کے کام کا حصہ ہے جو، بقول ابن بطوطہ (جدید)، کھینچ کھانچ کر بچہ تو نکالتی ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ بہت کچھ اور بھی!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: