اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

الیکشن کی آمد اور جنوبی پنجاب صوبہ کارڈ||سارہ شمشاد

میں یہاں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کے حوالے سے ڈاکٹر اختر ملک کی مخلصانہ کوششوں کا ذکر کرنا ضروری چاہوں گی کہ وہ اپنے تئیں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو خودمختار بنانے اور مکمل طور پر فعال کرنے کے لئے بڑے سرگرم ہیں۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں نئے صوبے بنانے کا آئینی ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کردیا گیا ہے۔ سینیٹر رانا محمودالحسن نے پیش کئے گئے آئینی ترمیمی بل میں بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے نام سے نئے صوبے قائم کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ادھر حزب اختلاف سینیٹ سینیٹر سید یوسف رضا گیلانی نے صوبہ جنوبی پنجاب کے حوالے سے سینیٹ میں کہا کہ حکومت جنوبی پنجاب صوبہ بنادے، سیکرٹریٹ کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔ ہم صوبہ چاہتے ہیں جس کا ایک وزیراعلیٰ ہو، ایک گورنر ہو، صوبے کی ایوان بالا میں نشستیں ہوں جس کا اپنا ہائیکورٹ ہو، ہمیں سیکرٹریٹ کے معاملے میں الجھایا جارہا ہے جب صوبہ بن جائے گا تو دارالخلافہ کا فیصلہ بھی ہوگا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جنوبی پنجاب صوبے پر پیپلزپارٹی سے ساتھ دینے کا وعدہ مانگ لیا ہے۔ الیکشن قریب آتے ہی پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے آئو صوبہ صوبہ کھیلیں کا ڈرامہ ایک مرتبہ پھر بڑی شدومد کے ساتھ شروع کردیا گیا ہے۔ یہ اللہ کی شان ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر رانا محمودالحسن جنوبی پنجاب 2صوبے بنانے کے لئے آئینی ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کررہے ہیں جبکہ یوسف رضا گیلانی بھی حسب روایت جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کی کھل کر حمایت کررہے ہیں۔ اب کوئی ان اللہ کے بندوں سے پوچھے کہ جب وہ خود اقتدار میں تھے تو انہیں جنوبی پنجاب کے عوام کی محرومیاں یاد نہیں تھیں اور اب جب آئندہ انتخابات میں ایک سال کا عرصہ رہ گیا ہے تو جنوبی پنجاب صوبے کا ٹرمپ کارڈ دوبارہ سے پھینک دیا گیا ہے تاکہ اس خطے کے معصوم عوام کو صوبے کے قیام کے لارے دے کر آئندہ انتخابات میں اپنی سیٹ پکی کی جاسکے۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے 100دنوں کے اندر جنوبی پنجاب صوبہ قائم کرنے کا یقین دلوایا اور نتیجہ بھی اپنی Favour میں لے لیا۔ جنوبی پنجاب صوبے کا قیام ایک دیرینہ مطالبہ ہے اور پچھلی 4دہائیوں سے اس خطے کا مجبور اور محرومیوں کے شکار عوام علیحدہ صوبے کے قیام کا مطالبہ تواتر کے ساتھ کررہے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ کسی بھی حکومت نے اس طرف توجہ دینے کی کبھی زحمت ہی نہیں کی بلکہ ایوان میں جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی بات کرنا بھی ایک گناہ سمجھا جاتا تھا۔ تاہم یہ بات پیپلزپارٹی کے کریڈٹ پر ہے اس نے سب سے پہلے جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لئے فرحت اللہ بابر کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا جس نے علیحدہ صوبے کی حمایت کے ساتھ چند گزارشات بھی پیش کیں۔ اگرچہ پپلزپارٹی چاہتی تو اپنے سابقہ دور حکومت میں علیحدہ صوبے کے قیام کو عملی جامہ پہناسکتی تھی لیکن عددی تعداد پوری نہ ہونے کا بہانہ بناکر عوام کو حسب روایت بیوقوف بنایا گیا جبکہ مسلم لیگ (ن) تو شروع سے ہی پنجاب کی تقسیم کے سخت خلاف تھی کیونکہ وہ اپر پنجاب میں طاقت کے مراکز کو قائم کرنا چاہتی تھی اور اس بات سے بھی اچھی طرح باخبر تھی کہ اس نے کبھی جنوبی پنجاب کی شودر عوام کیلئے کچھ کیا ہی نہیں ہے اس لئے تو اس کی عوام کو شعوری طور پر محروم رکھ کر اسے دبائو میں رکھا گیا اور آج پی ٹی آئی نے آدھا تیتر آدھا بٹیر کے مصداق جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ قائم کرکے عوام کو آدھی خوشی دینے کی کوشش کی ہے تو عوام اس سے پوری طرح مطمئن نہیں کیونکہ وہ ایک خودمختار صوبے کے خواہاں ہیں اور اس کے لئے انہوں نے ایک طویل جدوجہد بھی کی ہے۔ اسی لئے اگر کوئی یہ توقع کررہا ہے کہ صوبہ صوبہ کھیل کر جنوبی پنجاب کے عوام کے جذباتن سے کھیلا جائے گا تو یہ ان کی بڑی بھول ہے کیونکہ جنوبی پنجاب کے باشعور عوام اب کسی کو اپنے حق پر ڈاکہ ڈالنے نہیں دیں گے چاہے اس کے لئے انہیں کوئی بھی قربانی دینا کیوں نہ پڑے۔
شاہ محمود قریشی کی جانب سے پی پی کو جنوبی پنجاب صوبے کے لئے ساتھ دینے کی جو دعوت دی جارہی ہے تو یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے یہ آفر کوئی پہلی مرتبہ نہیں کی گئی ہے بلکہ ماضی میں بھی جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لئے گیلانی کی جانب سے بھرپور تعاون کی آفر کی گئی ہے ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اس آفر سے بھرپور فائدہ اٹھاتی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ دونوں فریقین نے اس جانب سنجیدگی سے توجہ نہیں دی اور آج سیکرٹریٹ سمیت انتظامی طور پر ممکن ہونے کی جو بات کی جارہی ہے تو یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ابھی اس حوالے سے جنوبی پنجاب کے عوام کو کوئی بڑا ریلیف نہیں مل سکا ہے۔ حتیٰ کہ ابھی تک اس خطے کے عوام کے لئے سرکاری ملازمتوں میں کوٹے سمیت دیگر تفصیلات بھی سامنے نہیں آسکی ہیں۔ اگرچہ حکومت جنوبی پنجاب کے رولز آف بزنس طے کئے جانے کا دعویٰ کیا جارہا ہے لیکن تحریک انصاف کی حکومت کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ اب وہ عوام کو جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا لالی پاپ دے کر کسی طور بھی مطمئن نہیں کرسکتی بلکہ اگر وہ دوبارہ جنوبی پنجاب سے اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ پی پی کی جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لئے تعاون کی پیشکش کا بھرپور فائدہ اٹھائے اور لمحہ بھر کی تاخیر کے بغیر علیحدہ صوبے کے قیام کو یقینی بنائے کیونکہ یہی ایک صورت ہے کہ وہ دوبارہ جنوبی پنجاب سے اکثریت حاصل کرسکتی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جنوبی پنجاب ہی وہ واحد خطہ ہے کہ جہاں سے تحریک انصاف کو سب سے زیادہ قومی اور صوبائی اسمبلی میں سیٹیں ملی تھیں۔ اگرچہ تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کے صدر کے لئے خسرو بختیار کا انتخاب کیا یہ وہی موصوف ہیں جنہوں نے 2018ء کے انتخابات سے قبل صوبہ محاذ کے نام سے ایک پریشر گروپ تشدیل دے کر اسے پی ٹی آئی میں ضم کیا تھا۔ ایسے میں مخدوم خسرو بختیار پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اہم ترین ذمہ داری ملنے کے بعد خطے کے عوام کی امنگوں پر پورا اتریں اور اس حوالے سے ایک سرگرم کردار ادا کریں۔ تبھی جاکر تحریک انصاف جنوبی پنجاب سے ایک مرتبہ پھر کلین سویپ کرسکتی ہے وگرنہ جو حکومتی نمائندوں کی جنوبی پنجاب میں ’’شاندار‘‘ کارکردگی ہے اس کو دیکھ کر تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کا اس خطے سے وائٹ واش ہوجائے گا۔
میں یہاں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کے حوالے سے ڈاکٹر اختر ملک کی مخلصانہ کوششوں کا ذکر کرنا ضروری چاہوں گی کہ وہ اپنے تئیں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو خودمختار بنانے اور مکمل طور پر فعال کرنے کے لئے بڑے سرگرم ہیں۔ یاد رہے کہ یہ ڈاکٹر اختر ملک ہی ہیں جنہوں نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مستعفی ہونے کی بات کی کہ اگر جنوبی پنجاب صوبہ نہ بنایا گیا تو وہ کس منہ سے اپنے عوام میں جائیں گے۔ اگر ڈاکٹر اختر ملک جنوبی پنجاب کے قیام کے لئے کوئی سٹینڈ نہ لیتے تو پھر بہاولپور سیکرٹریٹ کا قیام یقینی تھا کیونکہ طارق بشیر چیمہ سب کچھ اچکنے کے لئے پوری طرح تیار تھے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں آئو صوبہ صوبہ کھیلیں کے سیاسی نعرے کو خیرباد کہیں اور عملی طور پر جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کے لئے فی الفور قرارداد ایوان میں پیش کی جائے مگر اس سے پہلے پی پی کو اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے۔ ہم ان سطور کے ذریعے پی پی سے بھی درخواست کریں گے کہ اگر وہ جنوبی پنجاب میں اپنی پارٹی کی بحالی چاہتی ہے تو فرحت اللہ بابر کمیشن کی رپورٹ پر من و عن عمل درآمد کی اپنی ضد کو چھوڑ کر نیک نیتی سے آگے بڑھے کیونکہ جنوبی پنجاب صوبے کا قیام کسی جماعت کا ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ یہ جنوبی پنجاب کے 5کروڑ عوام کا مسئلہ ہے۔ اگر حکومت جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کیلئے ایوان میں قرارداد پیش کردیتی ہے اور اس کے بعد پی پی اپنے وعدے سے مکرتی ہے تو پھر اس کا فائدہ بھی پی ٹی آئی کو ہی ہوگا تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ وزیراعظم عمران خان شاہ محمود قریشی کی صدارت میں فی الفور ایک کمیٹی قائم کریں جو پی پی سے مل کر ایک لائن آف ایکشن بنائے اور 30دنوں میں اپنی رپورٹ پیش کرکے اسمبلی میں علیحدہ صوبے کا بل منظور کروانے کے لئے پیش کیا جائے کیونکہ اب سیاست سیاست اور صوبہ صوبہ کھیلنے کا نہیں بلکہ ڈلیور کرنے کا وقت ہے۔یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت کے اس فیصلے سے وسیب کے 5کروڑ سے زائد عوام کا مستقبل وابستہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: