مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اس تلخ نوائی کی پیشگی معذرت ||حیدر جاوید سید

پیپلزپارٹی کے خلاف تو تم کوئی بات سنو گے ہی نہیں۔ عرٗض کیا پیپلزپارٹی سیایس جماعت ہے اچھائی اور خامی دونوں ممکن ہیں ہم اصل موضوع پر بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ سوشل میڈیا دن بدن عجیب بنتا جارہا ہے۔ اچھا بھلا مکالمہ ہورہا ہوتا ہے کہ اچانک کسی کونے کھدرے سے ایک "بندہ” نمودار ہوتاہے اور کہتا ہے، تم دفع کیوں نہیں ہوجاتے ہندوستان۔ کوئی ایران چلے جانے کا مشورہ اچھالتا ہے کوئی سیدھا جہنمی ہونے کا فتویٰ جاری کردیتا ہے۔
ہر نئی ایجاد سیکھنے سمجھنے کے لئے ہوتی ہے یہی دنیا کا دستور ہے لیکن برصغیر پاک و ہند میں اول اول ہر نئی ایجاد کے خلاف فتویٰ جاری ہوا اور پھراسی ایجاد کے سہارے فتوے جاری ہونے لگتے ہیں۔
اچھا ویسے ہندوستان اور ایران کیوں چلے جائیں؟ آپ ہی برداشت کیجئے۔ ایک دوست کی وال پر کسی سکہ بند ’’پٹواری‘‘ نے لکھا ’’ان جیالوں کو ملک بھر سے سندھ کی طرف ہجرت کرنی چاہیے‘‘۔
جن صاحب نے یہ لکھا وہ خود ایک ہجرت کی یادگار ہیں۔ ہجرت کیا خوشی سے ہوتی ہے؟
ایک رائے یہ ہے کہ ہجرت یعنی اپنے اصل سے کٹ کر جینا اذیت ناک عمل ہے۔ بات یہ کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔
انسانی تاریخ میں مختلف خطوں میں ہوئی ہجرتوں کا تجزیہ کیجئے دو جواب ملتے ہیں اولاً یہ کہ لوگ اپنے آبائی وطن سے نقل مکانی پر دو وجوہات کی بنا پر مجبور ہوتے ہیں۔
ایک یہ کہ انکی جان و مال اور خاندان کی آبرو خطرے میں ہوتی ہے وہ شب کی تاریکی اوڑھ کر روشن صبح کے لئے انجانے راستوں پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
سفر تمام ہونے پر جہاں بستے ہیں خود کو مقامیت کے رنگوں میں ڈھال لیتے ہیں۔ مقامیت کے رنگوں میں خود کو ڈھال لینا شعوری طور پر ہوتا ہے۔
دوسرا فریق زندگی بسر کرنے کے وسائل میں کمی محسوس کرکے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرتا ہے اور جہاں پہنچ کر ڈیرے ڈالتا ہے خود کو ان سے الگ تھلگ کرکے جیتا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ یہ زندگی بسر کرنے کے لئے بہترین وسائل پر قدرت چاہتا ہے اور نقل مکانی والے مقام سے رشتہ بھی نہیں توڑنا چاہتا اس کے خیال میں ہجرت اس کی آبائی شناخت کی راہ کھوٹی نہیں کرتی۔
ایک تیسرا طبقہ بھی ہے وہ طبقہ اپنے اپنے عہد کے حملہ آور لشکر کے ساتھ یا اس کی فتوحات سے بنے ماحول سے فائدہ اٹھانے کے لئے نقل مکانی کرتا ہے۔
مفتوحہ علاقے میں آبسنے والا یہ طبقہ گو واپس تو نہیں جاتا لیکن یہ بھی آبائی شناخت اور فتح مندی ہر دو کے زعم سے مالامال ہوتا ہے اس کا خیال ہے کہ مفتوحہ علاقوں میں زندگی، وسائل، ترقی تینوں ان کے دم سے ہیں یہ نہ آئے ہوتے تو اس جگہ جہالت و پسماندگی کا رقص قیامت تک جاری رہتا۔
ہمارے زمانہ سکول کے ایک استاد مکرم سید عباس نقوی فرمایا کرتے تھے
’’زندہ وہی رہتے ہیں جو ہجرتوں کے زخموں کو مقامیت کی محبت کے مرہم سے بھرلیں‘‘۔
آٹھویں نویں کے طلبا کو تاریخ پڑھانے والے اپنے استاد کی بات عجیب لگتی تھی لیکن آج مجھے یہ بات عجیب نہیں لگتی۔

وجہ اس کی یہ ہے کہ جناب عباس نقوی (؍خدا ان کی مغفرت فرمائے) کہا کرتے تھے
’’ہم واپسی کا دروازہ بند کرکے اپنی مرضی سے آئے ہیں اب یہیں ہمارا سب کچھ ہے۔ میروغالب اور ولی دکنی ہم ساتھ لائے ہیں آگے بڑھنے کے لئے ہمیں شاہ لطیف، سچل سرمست، بلھے شاہ اور خواجہ غلام فرید کو پڑھنا اور اپنانا ہوگا‘‘۔
ان سموں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سیدی محمد عباس نقوی مرحوم کہہ رہے ہیں، صاحبزادے (وہ کلاس میں ہر طالب علم کو صاحبزادے کہہ کر بات کرتے تھے) ’’ہجرت احسان ہرگز نہیں ضرورت ہوتی اور مقامیت خبط عظمت ہرگز نہیں روشنی ہے یہ روشنی ارتقا کے سفر میں معاون ہوتی ہے۔ نابینائوں کو راستہ دیکھایا جاسکتا ہے اندھوں کو ہرگز نہیں‘‘۔
اپنی جگہ سے اٹھا تاکہ ان کی قدم بوسی کرسکوں مگر اس سعادت سے محرومی نے ڈس لیا۔ صوفہ خالی پڑا تھا لیکن میری لائبریری ان کی خوشبو سے معطر ہے۔ یہی مجھے سمجھارہی ہے کہ استاد محترم تشریف لائے تھے۔
معاف کیجئے گا بات سے بات نکلتی چلی گئی ہم نے بات شروع کی تھی ان طعنہ بازوں سے جو مکالمہ کے نام پر دھول اڑاتے ہوئے منہ پھاڑ کر کہتے ہیں تم یہاں سے نکل جائو (کہتے تو یہ ہیں کہ دفع ہوجائو اس ملک سے) کیوں نکل جائیں محض اس لئے کہ سوال اٹھاتے ہیں؟
ہمارے یہاں ایک کمینہ پن اور بھی رواج پارہا ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس کہنے کوکچھ نہ ہو تو فوراً سامنے والے کے عقیدے پر حملہ کردیں۔ 63برسوں کے سفر حیات میں مجھے اس کا درجنوں نہیں سینکڑوں بار تلخ تجربہ ہوا۔
سوشل میڈیا کی مہربانی ہے کہ اب آئے روز ہوتا ہے۔
عموماً یہ عرض کرتا ہوں کہ گفتگو کے دوان کسی شخص کی قومی شناخت یا اس کے عقیدے کو زیربحث لانا کسی بھی طور درست نہیں اس سے بہتر یہ ہے کہ گفتگو میں شریک نہ ہوا جائے۔ گزشتہ روز اس غیرانسانی و شعور سے محروم ذہنیت کا سامنا ایک بار پھر کرنا پڑا۔
ایک دوست جوکہ جماعت اسلامی سے قلبی لگائو رکھتے ہیں۔ سندھ کے نئے بلدیاتی نظام پر اپنے جماعتی موقف کی روشنی میں بات کررہے تھے۔ لگ بھگ نصف گھنٹہ تک وہ سندھ کے نئے بلدیاتی نظام اورپیپلزپارٹی پر تبصرہ کرچکے تو ان کی خدمت میں عرض کیا، آپ نے سندھ کے نئے بلدیاتی قانون کا خود مطالعہ کیا ہے یا اکابرین کی تقاریر سے نتیجہ اخذ کرلیا ہے؟
بولے میں نے پڑھا تو نہیں لیکن جب پیپلزپارٹی کے سوا سارے اس کے مخالف ہیں تو یقیناً غلط ہی ہوگا۔ان سے دریافت کیا احتجاج کرنے والوں کے مطالبات کیا ہیں؟
بات کاٹتے ہوئے بولے تم یہ بتائو تمہاری ممدوح پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے کل (گزشتہ سے پیوستہ) کراچی میں بلدیاتی نظام کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر تشدد کیوں کیا یہ کون سی جمہوریت ہے؟
عرض کیا میری رائے یہ ہے کہ پہلے ہم اس نظام پر بات کرلیتے ہیں تاکہ اچھائی برائی واضح ہو اور یہ بھی طے ہو کہ جنرل مشرف والے بلدیاتی نظام اور موجودہ نظام (جو اب اسمبلی سے منظور ہوا ہے) میں خامی خوبی کیا ہے۔
اب ان کا جواب تھا” تمہارے عقیدے کے لوگ باتوں میں بڑے ماہر ہوتے ہیں۔ ہمارے بزرگ کہتے ہیں اس عقیدے کے لوگوں سے بات کرنے میں خطرہ یہ ہوتاہے کہ یہ اچھے بھلے لوگوں کو گمراہ کردیتے ہیں”۔
پیپلزپارٹی کے خلاف تو تم کوئی بات سنو گے ہی نہیں۔ عرٗض کیا پیپلزپارٹی سیایس جماعت ہے اچھائی اور خامی دونوں ممکن ہیں ہم اصل موضوع پر بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
انہوں نے چند کڑوی کسیلی باتیں مزید اچھال کر ثواب دارین کمایا اور چل دیئے۔
اب بتلایئے کہ اس ماحول میں کسی موضوع پر سنجیدہ مکالمہ ممکن ہے؟
یہ محض ایک حوالہ نہیں بلکہ ہمارے سماج کا حقیقی المیہ ہے۔ کیسے بدقسمت لوگ ہیں ہم دلیل، شائستگی اور رواداری سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔
ضد، انانیت اور اپنے درست ہونے کا زعم ہمیں چاٹ رہا ہے۔
عرٗض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم فہمی اعتبار سے ترقی یافتہ دنیا کے مقابلہ میں پانچ سو سال پیچھے ہیں یہی ہماری فکری پسماندگی کی اصل وجہ ہے
سچ یہ کہ یہی فکری پسماندگی ہمارے ہاں کے بالادست طبقات کے تام جھام کی محافظ ہے۔
بالادست طبقات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس رعایا ٹائپ لوگوں کو عوام بننے میں ابھی صدیاں لگیں گی اس لئے حکومت کرو اور اپنے خوانچوں کا مال فروخت کرو، کوئی بات کرنے یا سوال اٹھانے کی کوشش کرے تو فتویٰ لگوادو، یہی کڑوا سچ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: