نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرانے پاکستان میں ایک بہت قدآور سیاست دان ہوتے تھے۔نام تھا ان کا نوابزادہ نصراللہ خان۔ ساری عمر انہوں نے آمرانہ حکومتوں کے خلاف جمہوریت پسند قوتوں کے وسیع تر اتحاد بنانے میں صرف کردی۔ مظفر گڑھ کے نمایاں جاگیرداروں میں ان کا خاندان سرفہرست تھا۔موصوف مگر ورثے میں ملے رقبوں کو بیچ کر سیاست کرتے رہے۔ آموں کے باغ کے مالک بھی تھے۔ فصل تیار ہوجانے کے بعد بے شمار صحافیوں کو آموں کے کریٹ بھجواتے۔ کالم نگار اس کا ذکر کرتے ہوئے شکریے کا اظہار کرتے۔
نوابزادہ صاحب نے لیکن کبھی یہ توقع نہیں رکھی کہ جنہیں آم بھیجے ہیں وہ ہمیشہ اپنی تحریروں میں ان کی مداح سرائی فرمائیں گے۔ہماری تہذیب میں دوستوں اور شناسائوں کو موسم کے پھل اور دیگر تحائف بھیجنے کی رسم بہت پرانی ہے۔یہ وضع داری کا روایتی اظہار ہے۔اسے رشوت تصور نہیں کیا جاتا۔
اس صدی کے آغاز سے تاہم نیا پاکستان طلوع ہونا شروع ہوگیا۔ان کے جنونی خالق مشینی چوزوں کی طرح ہماری ثقافت اور وضع داری کی روایات سے قطعاََ ناآشنا ہیں۔ان کی دانست میں وطن عزیز کا کسی بھی شعبے میں کامیاب ہوا فرد بنیادی طورپر بدعنوان ہے۔ کوئی نہ کوئی جگاڑ لگاکر مشہور یا خوش حال ہوجاتا ہے۔صحافیوں سے یہ مشینی چوزے توقع یہ رکھتے ہیں کہ وہ سیاست دانوں سے کسی بھی نوعیت کا تعلق قائم نہ کریں۔ صرف عمران خان صاحب کی دیانت پر سرجھکائے اعتبار کریں اور وطن عزیز کی خودمختاری اور بقاء کے لئے واٹس ایپ کے ذریعے ملی ہدایات پر عمل کریں۔
بدقسمتی سے میں پرانے پاکستان میں پیدا ہوکر پہلے جوان اور اب بوڑھا ہورہا ہوں ۔ سکول کے زمانے ہی سے صحافی بننے کا جنون لاحق ہوگیا تھا۔ 1975ء سے اس پیشے سے وابستہ ہوں۔ یہ میرے رزق کا واحد وسیلہ ہے۔’’اوپر کی آمدنی‘‘ اس کے ذریعے حاصل کرنے کے طریقے ڈھونڈنہیں پایا۔ زندگی کے کئی سال بلکہ بے روزگاری کی نذر ہوگئے۔ تقریباََ ہرصحافتی ادارے کے لئے اپنی دی خبروں کی بدولت پریشانیاں کھڑی کرنے کا باعث ہوا۔ شہرت اگرچہ مناسب نصیب ہوگئی۔
اپنے دھندے کی وجہ سے کئی نامور سیاست دانوں سے خاندان کے فرد جیسے تعلق بھی استوار ہوئے ہیں۔ان تعلقات نے مگر جب ضرورت ہوئی مجھے ان پر تنقید سے باز نہیں رکھا۔ سندھ کے دو سیاستدان اس ضمن میں تاحیات بھلانہیں سکتا۔ جام صادق علی اور غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم ہمیشہ مجھے اپنے لاڈلے بچوں جیسا شمار کرتے تھے۔ ان کی سیاست کے بارے میں لیکن اکثر سخت ترین تنقیدی الفاظ استعمال کرتا رہا۔وہ ایک بار بھی حرف شکایت زبان پر نہ لائے۔ مرتے دم تک ہر موسم کے پھل اور دیگر تحائف بھجواتے رہے۔ہمارے خاندانوں میں بھی شادی کی خوشی اور موت کا سوگ ہمیشہ سانجھے رہیں۔
نمایاں سیاستد انوں کی طویل فہرست ہے جو نوابزدہ نصراللہ خان مرحوم کی طرح دوست وآشنا تصور ہوتے صحافیوں کو پھلوں کی ٹوکریاں بھجواتے ہیں۔سندھ سے آموں کے علاوہ کجھوریں بھی بھیجی جاتی ہیں۔خیبرپختونخواہ کے چند دوست سردیوں میں اپنے کھیتوں میں تیار ہوا گڑبھجوانے کے عادی ہیں۔مجھے بھی اس ضمن میں اکثر سیاست دانوں کی جانب سے یادرکھا جاتا ہے۔ان کی وضع داری میرے لئے قابلِ احترام ہے۔ہمارے تہذیبی تسلسل کا اظہار۔
نواز شریف صاحب سے لیکن میرا اس نوعیت کا کبھی واسطہ نہیں رہا۔ان کی حکومتوں میں عموماًعتاب کا نشانہ بھی رہا۔ 2013ء سے تاہم ان کی کئی پالیسیوں پر شدید تنقید کے باوجود مجھے برداشت کیا گیا۔مسلم لیگ (نون) کی اکثریت اگرچہ اس شبے میں مبتلا رہتی ہے کہ میرا دل بنیادی طورپر پیپلز پارٹی کے لئے دھڑکتا ہے۔
بہرحال 2016ء کے مارچ میں ایک دن ’’اچانک‘‘ میں ٹی وی سکرین سے غائب ہوگیا۔ وہاں سے فارغ ہوکر گھر بیٹھاتھا تومیرے چھوٹے بھائیوں جیسے ایک دوست سیاستدان نے اطلاع دی کہ محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ مجھ سے ملاقات کی خواہش مند ہیں۔ وہ ان دنوں مسلم لیگ (نون) کا میڈیا سیل چلارہی تھیں۔ملاقات کرنے چلا گیا۔صحافی کو کسی بھی سیاست دان سے ملاقات کرنا ویسے بھی لازمی ہوتا ہے۔مجھ سے ملتے ہی مریم بی بی نے یہ انکشاف کرتے ہوئے مجھے خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیا کہ درحقیقت مجھ سے ان کی والدہ ملنا چاہ رہی تھیں۔وہ فکر مند ہیں کہ میں ٹی وی سکرین سے کیوں غائب ہوگیاہوں۔میری ملاقات کے دن مگر ان کی طبیعت ناساز تھی اس لئے مریم بی بی سے گفتگو کرنا پڑی۔ باتوں باتوں میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مرحومہ کلثوم نواز صاحبہ میرے لکھے اس کالم کو پڑھ کر بہت جذباتی ہوگئیں جسے لکھتے ہوئے میں نے اعتراف کیا تھا کہ اپنی ماں کی محبت میں لاہوری ہوتے ہوئے بھی میں نے کبھی پتنگ اڑانے میں دلچسپی نہیں لی۔مرحومہ کلثوم نواز صاحبہ کی جانب سے ہوئی تعریف سے میں بہت خوش اس لئے بھی ہوا کیونکہ وہ اردو ادب کی بہت سنجیدہ قاری تھیں اور اس ضمن میں انکی دسترس کو قرۃ العین حیدر جیسی مشہوراور اناپرست ادیب نے اپنی ’’کارجہاں دراز ہے‘‘ والی جگ بیتی میں سراہا بھی ہے۔
مذکورہ ملاقات کے بعد میری مریم بی بی سے صرف ایک اور ملاقات ہوئی ہے۔اس ملاقات کے ذریعے میں نے انہیں اپنے ٹی وی پروگرام کے لئے اپنے والد کی بیماری کی بابت گفتگو کو قائل کیا جو ان دنوں ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ان دو ملاقاتوں کے علاوہ میری مریم نواز صاحبہ سے آج تک کوئی اور ملاقات نہیں ہوئی۔
منگل کی صبح اٹھا تو سوشل میڈیا کے ذریعے چسکہ فروشی کی علت میں مبتلا جنونی ’’ٹوکری کو عزت دو‘‘ والا ٹرینڈ چلارہے تھے۔ کوئی آڈیو لیک تھی جس میں مریم صاحبہ مجھے اور جیو کے رانا جواد کو ٹوکریاں بھجوانے کا عندیہ دے رہی تھیں جو نواز شریف صاحب آذربائیجان کے سفر کے بعد اپنے ہمراہ لائے تھے۔ وہ ٹرینڈ دیکھتے ہی میں نے برملا اعتراف کیا کہ آذربائیجان کے پھلوں سے بھری ایک ٹوکری مجھے یقینا بھیجی گئی تھی۔یہ واقعہ نواز شریف حکومت کے ہاتھوں مگر صرف ایک بار ہوا تھا۔ان کے مقابلے میں کئی سیاستدانوں کے نام لئے جو کئی برسوں سے مجھے موسمی پھلوں کی سوغات بھیجتے رہتے ہیں۔ فقط نواز شریف کے ہاں سے ایک بار آئی ٹوکری مگر گناہ آلود شمار ہوتی رہی۔
ایک ٹی وی چینل سے آج سے تین برس قبل ذلت آمیز انداز میں فارغ کردئیے جانے کے بعد میں واقعتا گوشہ نشین ہوچکا ہوں۔لکھنے کی علت اگرچہ اب بھی لاحق ہے۔رز ق کمانے کا ذریعہ بھی ہے۔سوشل میڈیا سے کنارہ کشی اختیار کررکھی ہے۔ اس کے باوجود نجانے کیوں ’’دل یزداں‘‘ میں کھٹک رہا ہوں اور وقتاََ فوقتاََ سوشل میڈیا پر حاوی ہوئے مشینی چوزوں کا انبوہ مجھے بدی اور کرپشن کی بدترین علامت بناکر پیش کرنے میں مصروف رہتا ہے۔کئی دوست درگزر کا مشورہ دے رہے ہیں۔غالبؔ نے مگر کہا تھاکہ ’’… کوئی ہمیں ستائے کیوں؟‘‘۔میں بزدلی کی موت کو ہرگز تیار نہیں ہوں۔پتھر کا جواب لہٰذا اینٹ سے دینے کو مجبور ۔بہتر یہی ہے کہ مجھے قفس کے گوشے میں مقید رہنے دیا جائے۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر