مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈی۔ریڈیکلائزیشن: مُلا،مسٹر اور یونیورسٹیاں!||نعیم مسعود

نیم حکیم یا نیم مُلا کو ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ پیغمبرِ امن کا فتح مکہ کردار کے بل بوتے، صلح حدیبیہ سماجی فراست، میثاقِ مدینہ سیاسی بصیرت اور رحمت للعالمین کا لقب روشن نفسیاتی و طبعی رجحانات کی بنیاد پر پائی جانے والی کامرانیاں تھیں۔ مُلا کو سائنسی و سوشل انجینئر اور مسٹر کو عمرانی و اخلاقی بنیادوں پر سوچنا ہوگا۔

نعیم مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیاسی و سماجی ذہن سازی ہی اشتعال انگیزی اور شدت پسندی کے راستے کی دیوار بن سکتی ہے مگر اس کیلئے اساتذہ اور اسٹیٹس مین طرز کے سیاست دانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا! اگر کوئی یہ کہے کہ انتہا پسندی کو روکنا صرف حکومتی یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے تو یہ غلط ہے سب کو اپنے اپنے حصے کی شمع جلانی ہوگی۔ ڈی۔ریڈیکلائزیشن کا اہتمام قومی و عالمی فریضہ ہے۔ جتنا کوئی بڑا ملک یا بڑی طاقت ہے اس کا فرض بھی اُتنا ہی بڑا ہے۔ جو سیاستکار یا سفارتکار ڈی۔ریڈیکلائزیشن کی اہمیت اور سلیقے سے ناآشنا ہے، اسے اپنی حیثیت اور افادیت کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا۔ سیاستدان بھی اس وقت تک قومی سطح پر موثر نہیں جب تک اُس کے رگ و پے میں اسٹیٹس مین کا مادہ بیدار اور سدا بہار نہیں ہوتا۔

ریڈیکلائزیشن کی تاحال کوئی ایسی تعریف سامنے نہیں آسکی جسے صداقتِ عامہ کے درجہ میں رکھا جا سکے۔ گویا ڈی۔ریڈیکلائزیشن کی تعریف، اس کی حفاظتی تدابیر اور تدارک کی نزاکتیں تو اگلا قدم ہے۔ بہرحال لبرل ہو، ریڈیکل یا کوئی کنزرویٹِو جو ان میں سے حدود سے تجاوز کرے یا بنیادی انسانی حقوق کو چیلنج کرے تو وہ اعتدال، مذاہب کی حکمت اور مثبت پسندی سے باہر نکل گیا اور سماج سے عالَم تک میں کوڑھ کی کاشت کا سبب بنا۔ ریڈیکلائزیشن معنوی اعتبار اور مترادفات کے حوالے سے بنیادی سماجی حلقوں سے ممالک تک، مخصوص ثقافت اور تہذیب سے عالمی سطح تک تغیر رکھتی ہے لیکن نفسیاتی و طبعی میلان یا ذرا سی لاپروائی اس کو انتہا پسندی و شدت پسندی سے دہشت گردی تک وسعت دینے کا باعث بنتی ہے۔ سماجی و سیاسی و مذہبی انتہا پسندی کے عامل اور عوامل بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت کو نگل جاتے ہیں۔ بنیاد پرستی و شدت پسندی کے تدارک کے علاوہ اس کے نقطۂ آغاز پر بھی توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ کسی معاشرے، صوبے یا ریاست کو مقامی اشرافیہ، اپنا ملک یا عالمی قوتوں نے اگر بھوک اور ناانصافی کی بھینٹ چڑھایا اور پھر عام یا خاص ریڈیکلائزیشن کا عمل سامنے آیا تو اس میں سزا کے مستحق بہرحال وہ اشرافیہ، ملک یا عالمی قوتیں بھی ہیں۔ ان تمام تر حساس نزاکتوں اور نفسیاتی مزاحمتوں کے باوجود اگر کوئی انسانی چنگاری دیگر کے انسانی حقوق کو جلا کر راکھ کرتی ہے، تو ایسی کوئی شدت پسندی کسی معاشرتی و معاشی انصاف اور سیاسی و مذہبی توازن کو ہرگز تقویت نہیں بخش سکتی! بےشک ہم جتنی بھی من پسند تعریفیں گھڑ لیں!

گو تہذیب اور جغرافیہ اپنی اپنی نوعیت کے اثرات رکھتے ہیں تاہم ریڈیکلائزیشن کو عام طور پر (1) دایاں بازو انتہا پسندی (2) بایاں بازو انتہا پسندی، (3) مذہبی و سیاسی انتہا پسندی اور (4) یک نکاتی (سنگل اِیشو) انتہا پسندی میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ سب امریکہ سے بھارت تک اور عراق و ایران سے اسرائیل وغیرہ تک عام ملتی ہیں۔ پس ڈی ریڈیکلائزیشن کیلئے پورے گلوب کو حقیقی گلوبل ویلیج کا ثبوت دینا ہوگا۔ یہودی سے ہندو تک کو سوچنا ہوگا، شدت پسندی کو محض اسلاموفوبیا سے جوڑ کر یا کسی ٹارگٹ پر سب عوامل کو گڈ مڈ کرکے اور مطلوبہ بیانیہ تراش کر مقامی و عالمی امن کا حصول ممکن نہیں!

نیم حکیم یا نیم مُلا کو ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ پیغمبرِ امن کا فتح مکہ کردار کے بل بوتے، صلح حدیبیہ سماجی فراست، میثاقِ مدینہ سیاسی بصیرت اور رحمت للعالمین کا لقب روشن نفسیاتی و طبعی رجحانات کی بنیاد پر پائی جانے والی کامرانیاں تھیں۔ مُلا کو سائنسی و سوشل انجینئر اور مسٹر کو عمرانی و اخلاقی بنیادوں پر سوچنا ہوگا۔ یونیورسٹیاں اگر پلیجرزم، کرائم سنڈیکیٹس، ہراسمنٹ سنڈرومز اور سوال دبانے جیسی مصروفیات سے فارغ ہوں تو کیو ای سی، او آر آئی سی ( ORIC) کمیونٹی سنٹرز، انڈسٹریل لنکس اور سودمند تحقیق کو اپنے دامن میں جگہ دیں۔ ضرورت اس امر کی ہے ذہن سازی اور ماحولیاتی سازگاری کیلئے طلبہ کو سوال اٹھانے کی اجازت ہو، ہر پروفیسر ایک محقق سا اعتماد رکھے، صرف انفارمیشن نہیں فارمیشن بھی ہو۔

پچھلے دنوں لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں قومی سطح پر اوکاڑہ یونیورسٹی نے ’’نوجوانوں میں انتہاپسندی پاکستانی یونیورسٹیوں کیلئے ایک چیلنج‘‘ پر مباحثے کا اہتمام کیا، گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور، متعدد وائس چانسلرز، اسکالرز اور علمائے کرام نے ناصرف سوالات اٹھائے بلکہ ڈی ریڈیکلائزیشن کے حوالے سے تجاویز بھی دیں۔ حساس موضوع تھا مگر پینل ڈسکشن اور پروفیسرز و ڈینز پر مشتمل حاضرین کی توجہ اور دلچسپی کے سبب یہ فورم ایک تربیتی نشست بن گیا۔ ایسی نشستوں کی تمام جامعات کو اپنے اندر بھی اشد ضرورت ہے، سو اہتمام ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر زکریا ذاکر (وی سی) یونیورسٹی آف اوکاڑہ نے چند روز قبل اسلاموفوبیا پر گفت و شنید کا بھی در وا کیا تھا۔ ان حساس موضوعات کا احاطہ ضروری ہے اور اس کا اہتمام بیدار مغز لیڈر شپ ہی کر سکتی ہے۔

پاکستان میں اب شاید کی ہی کوئی ضلع ہو جہاں ایک یونیورسٹی ہو ورنہ بڑے شہروں میں تین سے لے کر پندرہ یونیورسٹیاں بھی ہیں، اگر انہیں جامعات کہیں تو ان کی جامعیت اور افادیت کی طرف دھیان جاتا ہے۔ یونیورسٹی وہ کمیونٹی سنٹر ہے جہاں کوآرڈنیشن اور کوآپریشن کا گہوارہ ہو، سوال اٹھانے کی آماجگاہ اور جواب پانے کی دانش گاہ ہو، فنونِ لطیفہ اور تہذیبوں کا درس ملے، کلچر، میوزک، زبانوں کے علوم کا گلشن ہو۔ یہ سب تبھی ممکن ہے جب سوشل سائنسز کو نیچرل اور اپلائیڈ سائنسز جتنی اہمیت ملے، سیاست اور بحث کے آگے بند کمزور تعلیمی و تدریسی لیڈرشپ باندھتی ہے۔ دانش گاہیں کوئے یار ہیں کوئی سوئے دار نہیں! مذہبی جا سیاسی شِدت پسندی کے سامنے دلیل، حقائق، تحریکی مادہ اور تاریخی حوالہ رکھنا ہوگا، اسے ہی ڈی ریڈیکلائزیشن کہتے ہیں۔ آج اگر ہوم ڈیلیوری سیاسی قیادت ہے تو یونیورسٹیوں میں بحث اور ریسرچ کے فقدان کے سبب۔ اگر کوئی کہے کہ سارے قصور امریکہ، روس اور بھارت ہی کے ہیں، تو پھر اسے یہ بھی حساب دینا ہوگا کہ ہماری دریافتیں، ایجادیں کیا ہیں اور نوبل پرائز کا حصول ناممکن کیسے ہوا؟ برین ڈرین کا سبب جہاں جعلی سیاستدان ہے وہاں جعلی استاد بھی تو ہے۔ مُلا ہو کہ مسٹر اگر اُن کے سامنے ایک پروفیسر کی دال نہیں گلتی یا وہ اپنے مضمون کا مفتی نہیں، تو پھر ڈی ریڈیکلائزیشن کا سِرا ہاتھ کیسے لگے گا؟

بشکریہ:روزنامہ جنگ

یہ بھی پڑھیے:

محبت: جی بی کے بعد آزاد کشمیر؟۔۔۔ نعیم مسعود

اپنی اصلاحات کا موڑ کب آئے گا؟۔۔۔ نعیم مسعود

عالمی و قومی منظرنامہ اورصدر آزادکشمیر!۔۔۔ نعیم مسعود

زرداری رونمائی، مولانا اِن ایکشن، خان اِن ٹربل؟ ۔۔۔ نعیم مسعود

نعیم مسعود کے دیگر کالمز پڑھیے

%d bloggers like this: