اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاست کو نئی دھمکی!||سارہ شمشاد

ابھی مضمون لکھاہی جارہا تھاکہ باغی کے نام سے مشہور مسلم لیگ (ن) کے رہنمااور سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی بھی کھل کر بول پڑے اور یہ کہہ ڈالا کہ مشرقی پاکستان والوں کا موقف بھی ووٹ کو عزت دو کا تھا جسے تسلیم نہ کئے جانے پر ملک دولخت ہوا۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال پاشا کا کہنا ہے کہ ریاست پیپلزپارٹی کو روکے ورنہ کل میں تمہاری نہیں سنوں گا۔ ریاست کو مصطفی کمال کی نئی دھمکی کو کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ ہی کہا جاسکتاہے کہ وطن عزیز میں جس سیاستدان کو اقتدار نہیں ملتا وہ ناراض بچوں کی طرح ریاست کو دھمکیاں لگانا شروع کردیتا ہے۔ ویسے تو وطن عزیز کو دھمکیاں دینے والوں کی ایک طویل فہرست ہے اور تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اقتدار سے الگ ہونے کے بعد ریاست کو دھمکیاں دے کر دبائو میں لانا چاہتی ہیں مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ اس نے وطن عزیز کو کیا دیا ہے جبکہ دھرتی ماں نے ان سیاستدانوں کو نام دیا۔ ایک پہچان اور علیحدہ شناخت دی یہی نہیں بلکہ پاکستان کے اگر سیاستدانوں کے اثاثہ جات پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ آجائے گی کہ غریب ملک کے 98فیصد عوامی نمائندے بڑے امیر کبیر ہیں اسی لئے تو 1500ریال سسرال سے معاوضہ طلب کرنے والی بات بیٹے کی شادی پر اطلاعات کے مطابق 12ارب سے زائد خرچ کرکے تاریخ میں اپنا نام رقم کروالیتا ہے اور اگر ان لوگوں سے عدالت ثبوت اور رسیدیں طلب کرے تو کوئی جواب بن نہیں پڑتا بلکہ الٹا ریاست کو دھمکیاں دینا شروع کردیتے ہیں۔
ابھی چند روز قبل سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر ووٹ کو عزت نہ دی گئی تو سقوط ڈھاکہ جیسا خطرہ موجود رہے گا۔ اب کوئی مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے پوچھے کہ اب ان کے پیٹ میں ووٹ کو عزت دینے کے جو مروڑ اٹھ رہے ہیں کیا وہ یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ جب وہ 3مرتبہ اقتدار کے مزے لوٹ چکے ہیں تو پھر انہیں ووٹ کی عزت کا غم کیونکر کھائے جارہا ہے حالانکہ انہیں اقتدار میں ہوتے ہوئے سویلین بالادستی کے لئے کوششیں کرنی چاہئیں تھیں مگر جب ان کا لیڈر ہی خود جنرل جیلانی کی پیداوار ہو تو پھر اس سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود اور اداروں کی مضبوطی کی طرف توجہ دے گا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں نے اس ملک میں 3،3 مرتبہ اقتدار کے مزے لوٹے مگر اداروں کی مضبوطی کے بارےمیں سوچنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی اور بڑے مزے سے آپس میں اقتدار کی باریاں طے کرلیں اور اب جب تیسری پارٹی تحریک انصاف اقتدار میں آئی ہے تو دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سے اقتدار سے دوری برداشت ہی نہیں ہرہی اسی لئے تو کبھی ایک پارٹی کے سربراہ ملک کو دھمکیاں دیتے ہیں تو کبھی بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش بنا، کل سندھو دیش اور سرائیکی دیش بھی بن سکتا ہے جبکہ چند روز قبل وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے بھی کھلے الفاظ میں ریاست کو دھمکی دی گئی کہ ایسے حالات پیدا نہ کرو کہ ہم کچھ اور سوچنے پر مجبور ہوجائیں۔ یہ تمام تر دھمکیاں تو صرف چند دنوں میں ریاست کو دی جانے والی ہیں۔مولانا فضل الرحمن کو اس حوالے سے ہم کیسے بھلاسکتے ہیں۔ مریم نواز ہوں یا نوازشریف، سب ریاست کو دھمکیاں دیتے رہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا ہماری ریاست اتنی کمزور ہے کہ جس کا جب دل چاہتاہے ریاست کو بلیک میل کرکے اپنے مطالبات تسلیم کرواتا رہتاہے۔ ادھر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنے ان دھمکیاں نما بیانات کے ذریعے چونکہ کئی مرتبہ ریاست کو یرغمال بنانے کی حکمت عملی میں کامیاب ہوچکے ہیں اسی لئے جب بھی ان کے مفادات کو زک پہنچتی ہے تو وہ ببانگ دہل ریاست سے ٹکر لینے کی بات کرتے ہیں۔ادھر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس قسم کے ریاست مخالف اور دھمکی نما بیانات سے ملک دشمن طاقتوں کے مذموم عزائم کو چونکہ تقویت ملتی ہے اسی لئے تو وہ ان عناصر کی آبیاری کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتیں۔ میں یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ ریاست سے بھی کچھ غلطیاں ہوئی ہیں جنہیں ہمیں کھلے دل کے ساتھ تسلیم کرکے ان سے سبق سیکھنا چاہیے کیونکہ ریاست کسی ایک فردیا حکومت کا نام نہیں بلکہ ریاست تو ایک سٹیٹ اور ملک کا نام ہے۔
پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہونے والا واحد نظریاتی ملک ہے لیکن ہمارے ہاں لسانی عصبیت کو جس تیزی سے ہوا دی جارہی ہے اور بھائی کو بھائی سے لڑوایا جارہاہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیمیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ تاہم پچھلے دنوں گوادر دھرنے نے ثابت کردیا ہے کہ بلوچستان کے غیور عوام اب کسی کو اپنے حق پر ڈاکہ ڈالنے نہیں دیں
گے۔ ماضی میں بلوچستان کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہ غیرمنصفانہ سلوک کا ہی نتیجہ ہے کہ وہاں پر محرومیوں ایک ایک طویل داستان ہے کہ جن کو صفحہ قرطاس پر لانا ممکن نہیں۔ بلوچستان وطن عزیز کا رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے لیکن اسے ترقی کے سفر میں ہر جگہ پر ہر حکومت نے پیچھے رکھ کر جو زیادتی کی ہے اس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ اس لئے بہت ضروری ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھا جائے۔ اسی طرح اگر سندھ کی محرومیوں کی فہرست بنائی جائے تو وہ بھی بہت طویل ہے لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس کاذمہ دار کون ہے تو صاف اور سیدھا جواب یہی بنتاہے کہ پی پی وہاں پچھلے 12سے 13برس سے اقتدار میں ہے تو اس سے اس بارے ضرور جواب طلب کرنا چاہیے کہ وہ طویل عرصے سے بلاشرکت غیرے اقتدار کے سندھ میں مزے لوٹ رہی ہےمگر اس نے ہمیشہ ’’اپنی ترقی‘‘ پر ہی توجہ مرکوز کئے رکھی جبکہ سندھ کی عوام کو غربت کے ہاتھوں مرنے کے لئے چھوڑدیا گیا ہے۔ اب ذرا بات کے پی کے کی بھی ہوجائے، یہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ہے اور تحریک انصاف 2مرتبہ سے اقتدارمیں ہے۔ اگرچہ تحریک انصاف کی حکومت نے دوسروں کے مقابلے میں کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں لیکن ابھی وہاں کے عوام اور صوبے کی ترقی کے لئے بہت کچھ کرنا ابھی باقی ہے اور اب باری آتی ہے پنجاب کی جوکہ اقتدار کے ساتھ طاقت کا مرکز بھی ہے تو مسلم لیگ (ن) پنجاب کے زور پر ہی 3مرتبہ اقتدار کے مزے لوٹ چکی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس نے اپر پنجاب کو تو ترقی دی لیکن جنوبی پنجاب کو پتھر کے دور میں ہی رکھنے کی پالیسی پر عمل کیابلکہ اسکے وسائل کو اپنا جدی پشتی حق تسلیم کیا۔ ابھی مضمون لکھاہی جارہا تھاکہ باغی کے نام سے مشہور مسلم لیگ (ن) کے رہنمااور سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی بھی کھل کر بول پڑے اور یہ کہہ ڈالا کہ مشرقی پاکستان والوں کا موقف بھی ووٹ کو عزت دو کا تھا جسے تسلیم نہ کئے جانے پر ملک دولخت ہوا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پے درپے دھمکی نما بیانات پر ریاست حرکت میں آنے کی زحمت کرے گی، یہی نہیں بلکہ کوئی آئین اور قانون کے تحت کارروائی کرے گا یا کوئی محب وطن ان سیاستدانوں کے خلاف عدالت میں جائے گا کیونکہ اگر ریاست کو دھمکی نما بیانات دینے والوں کے خلاف آئین و قانون کے مطابق کارروائی نہ کی گئی تو اس سے ریاست مزید کمزور ہوگی جس کا وطن عزیز کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا۔ وقت آگیا ہے کہ ریاست اپنی طاقت منوائے اور ان مفاد پرستوں کے خلاف کارروائی کرے۔ وطن عزیز آج انتہائی نازک دور سے گزرہا ہے اور اگر اس قسم کی دھمکیوں کا نوٹس نہ لیا گیا تو پانی سر سے گزرنے کا احتمال رہے گا۔ تاہم ضروری ہے کہ ریاست اس بات پر غور کرے کہ یکدم ملک کے چاروں صوبوں سے اس قسم کے دھمکی نما بیانات آنے کیوں شروع ہوگئے ہیں۔ آخر اس قسم کے بیانات سے کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے کیونکہ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان میں 4دہائیوں کے بعد او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا کامیاب اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا اور پاکستان کو عالمی سطح پر پذیرائی مل رہی ہے تو ایسے میں ریاست کو بلیک میل کرکے دبائو میں لانے والوں کے کیا محرکات ہیں اور وہ کس کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں، اس بارے ریاست کو عوام کو آگاہ کرنا چاہیے تاکہ وہ خود دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرسکیں، یہی وقت کی پکار ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: