اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زکریا یونیورسٹی: کمیونیکیشن سٹڈیز اور ایلومینائی||سجاد جہانیہ

ابھی نومبر کے مہینے میں ایک میسج آیا اور پھر ایک میٹنگ ہوئی تو مجھے یہ سارے بھولے بسرے منظر یاد آگئے۔ میسج ڈاکٹر اقصیٰ ارم کا تھا جو ڈیپارٹمنٹ آف کمیونی کیشن سٹڈیز کی فیکلٹی ممبر ہیں۔

سجاد جہانیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انیس سو بانوے کا سن ابھی اپنے نصف کو نہ پہنچا تھا جب میں نے ایل ایل بی کی ڈگری لے لی اور اباجی مجھے کسی بڑے وکیل کے پاس بٹھانے کو سرگرم ہوئے۔ وکالت میرا شوق تھا نہ تمنا‘ میں تو صحافی بننا چاہتا تھا۔ انہی دنوں ایک نئے اخبار کا اجرأ ہوا تو میں نے تحریری امتحان پاس کر کے اُس اخبار کا میگزین سیکشن جائن کرلیا۔ پہلی دفعہ گھر سے نکلا تھا‘ ماں بھی حیات تھیں‘ سب سے چھوٹا بیٹا اتنی دور لاہور(تب لاہور واقعی دور ہوتا تھا) چلاگیا۔
ماں اور بیٹا دونوں اپنی اپنی جگہ اداس و ملول تھے۔ دواڑھائی ماہ جوں توں گزرے‘ ستمبر کامہینہ تھا جب پتہ چلا کہ زکریا یونیورسٹی ملتان کے نوزائیدہ شعبہ صحافت کا داخلہ کھل گیا ہے ۔داخلہ فارم جمع کروادیا۔بی اے میں سیکنڈ ڈویژن تھی‘ میرٹ پر آنے کی امید کم تھی‘ سو عامل صحافیوں کے لئے مخصوص دو نشستوں پر الگ سے اپلائی کردیا۔ ایک مقامی اخبار کا سرٹیفکیٹ بنوایا اور ’’ عامل صحافی‘‘ بن گیا۔
اِدھر یونیورسٹی میں داخلہ فارم جمع ہوئے‘ اُدھر میں بغیر کسی کو بتائے‘ بغیر استعفیٰ دئیے چپ کر کے واپس ملتان چلا آیا۔ یونیورسٹی اور اس کے شعبۂ صحافت نے کم نمبر ہونے کی وجہ سے میرے داخلہ فارم کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا مگر شعبہ والوں سے ایک غلطی ہوگئی کہ وزٹنگ فیکلٹی کے ایک ممبر کی صاحبزادی کو داخلہ دے دیا جس کی بی اے میں تھرڈ ڈویژن تھی۔ میں نے اباجی کے نام ایک خط لکھا جس میں عوامی اداکار علائو الدین مرحوم کے جذباتی مکالموں کے سے جذبات انگیز جملے تھے کہ اگر میں یونیورسٹی میں نہ پڑھا تو ساری زندگی ایک طرح کے احساسِ کم تری کا شکار رہوں گا۔
اباجی خود خیر سے سپریم کورٹ کے وکیل تھے۔ اسی تھرڈ ڈویژن والی طالبہ کے داخلے کو بنیاد بنا کر ملتان ہائی کورٹ میں رِٹ دائر کردی۔ پیشیاں چلیں تو دسمبر کا مہینہ شروع ہوگیا۔ عدالت میں یونیورسٹی کی طرف سے کہا گیا کہ 30نومبر کے بعد داخلہ کسی صورت نہیں ہوسکتا‘ اب تو چانسلر (گورنر) کا اختیار بھی نہیں رہا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جج صاحب نے کہا تھا آپ کے چانسلر کا اختیار ختم ہوا ہے‘ عدالت کا نہیں ۔آپ اس بچے کو داخلہ دیں۔ سیٹیں پوری ہوچکی ہیں تب بھی۔ ایک اضافی طالب علم آپ کے ہاں سے ایم اے کر جائے گا تو اس ملک میں ایک پڑھے لکھے شہری کا ہی اضافہ ہوگا۔ یہ کوئی ایسی ’’ خطرے ‘‘ کی بات نہیں۔ لیجئے! ہم زکریا یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے طالب علم ہوگئے۔ آخری رول نمبر ملا یعنی چونتیس۔
میں نے شروع میں عر ض کیا ناکہ صحافت میرا خواب تھی۔ چناںچہ ہوا یہ کہ میٹرک میں بہ مشکل فرسٹ ڈویژن، ایف ایس سی اور بی اے میں سیکنڈ ڈویژن لے کر پاس ہونے والے اس طالب علم نے اول پوزیشن حاصل کی اور یونیورسٹی کی طرف سے گولڈ میڈل کا حق دار قرار پایا۔ نتیجہ آتے ہی ایک قومی اخبار میں رپورٹر بن گیا۔ انیس سو ننانوے تک صحافت کی۔ آخری ایک برس لاہور میں سنڈے میگزین کا ایڈیٹر تھا۔ احباب کہتے ہیں کہ ا گر تم سرکار کو پیارے نہ ہوجاتے تو قدرے بہتر کالم نویس ہوتے اور کسی چھوٹے موٹے چینل کی سکرین پر براجمان۔ خیر! میرا سیشن تو انیس سو بانوے‘چورانوے تھا مگر تھیسز کی وجہ سے انیس سو پچانوے کے چوتھے ماہ میں یونیورسٹی سے فری ہوا۔ میرے ہم جماعتوں میں دو تو قومی اخبارات کے ملتان سٹیشنز کے ایڈیٹر ہیں‘ کچھ ریڈیو میں اب کافی سینئر ہوگئے۔
کچھ لاہور کے اخبارات میں ہیں۔ یونیورسٹی سے الگ ہوئے چھبیس برس ہوگئے‘ اللہ غریقِ رحمت کرے کریم ملک صاحب مرحوم کو ۔وہ جتنا عرصہ چیئر مین رہے ‘ ہمارا یونیورسٹی سے ایک تعلق رہا۔ وہ بڑی توقیر دیتے، موجودہ طالب علموں سے ملواتے، گفت گو کے سیشن رکھواتے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد شعبہ صحافت نے گویا اپنے سابق طالب علموں کو عاق کردیا۔تفصیل مناسب نہیں، اسی ایک لفظ ’عاق‘ کو کافی جانئے۔
ابھی نومبر کے مہینے میں ایک میسج آیا اور پھر ایک میٹنگ ہوئی تو مجھے یہ سارے بھولے بسرے منظر یاد آگئے۔ میسج ڈاکٹر اقصیٰ ارم کا تھا جو ڈیپارٹمنٹ آف کمیونی کیشن سٹڈیز کی فیکلٹی ممبر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ڈیپارٹمنٹ کی ایلو مینائی بنائی جارہی ہے، آپ فلاں دن میٹنگ کے لئے تشریف لائیں۔ ڈاکٹر شہزاد جو ہم سے دو سال بعد اسی شعبہ کے طالب علم رہے‘ آج کل چیئرمین ڈیپارٹمنٹ آف کمیونیکیشن سٹڈیز ہیں۔ انہوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ گزشتہ برس جنوری کے اواخر میں وہ چیئرمین بنے، مارچ میں کورونا کی وباء آگئی اور یوں جانئے قومی زندگی کا ڈیڑھ برس کھاگئی۔
اب جونہی وباء کے پنجوں کی گرفت ڈھیلی ہوئی اور زندگی معمول کی طرف لوٹی ہے تو انہوں نے سب سے پہلے ایلومینائی کے قیام کی طرف توجہ دی۔ شعبہ ماس کمیونی کیشن میں ایم اے کی کلاسز کا اجرأ انیس سو اکانوے میں ہوا تاہم تب یہ شعبہ خود مختار نہ تھا بلکہ سیاسیات کے شعبے میں قائم تھا۔ انیس سوچھیانوے کو اسے خود مختاری دی گئی۔ یوں خود مختاری کے 25برس بھی امسال مکمل ہوئے اور ایلومینائی کے قیام کے ساتھ ساتھ سلور جوبلی تقریب کا بھی اہتمام کیا گیا۔ یہ تقریب اٹھارہ دسمبر کو ہوئی جس میں تیس سال سے اولڈ سٹوڈنٹس گیٹ ٹو گیدر کے لئے ترسے ہوئے طلباء وطالبات نے بھرپور شرکت کی۔
پہلی ایلومینائی کے صدر ظفرآہیر جبکہ جنرل سیکرٹری اس کالم نگار کو نام زد کیا گیا۔ شکیل انجم سینئر نائب صدر جبکہ نائب صدور اسد ممتاز اور اکمل وینس، جوائنٹ سیکرٹری محمد نعمان خان، فنانس سیکرٹری نوشیل بلوچ اور سیکرٹری اطلاعات حافظ سرفراز علی نام زد ہوئے۔ صائمہ فیض، بینش انصاری، میاں وقار، صائمہ اکرم چوہدری، ریاض لودھی، نیئر مصطفی، ریاست علی، عرفان اسلم، ندیم ظفر خان، اسد بخاری اور بینش ذہین ایگزیکٹو کونسل کے ارکان ہوں گے۔ یہ شعبہ کمیونی کیشن سٹڈیز کے سابق و حالیہ طلباء و طالبات کے لئے تاریخی لمحہ تھا۔ حلف سید یوسف رضا گیلانی نے لیا جو گئے وقتوں کے ایم اے صحافت ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب کا اختتام اس جملے پر کیا کہ ’’ میں امید کرتا ہوں یہ ایلومینائی سابق اور موجودہ طلباء کے حقوق کا تحفظ کرے گی۔ میں بھی سابق طالب علم ہوں چنانچہ میرے حقوق کا تحفظ بھی آپ کے ذمہ ہے‘‘۔

 

 

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

سجاد جہانیہ کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: