اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عوام چینی کھانا چھوڑدیں!||سارہ شمشاد

بڑھتی ہوئی مہنگائی کے آگے بند بالآخر حکومت نے ہی باندھنا ہے اس لئے بوکھلاہٹ کا شکار ہونے کی بجائے وزیراعظم نئے اور پڑھے لکھے معاشی ماہرین کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی ترکیب کریں تاکہ وہ معیشت کے سدھار میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چینی کی قیمت 150روپے فی کلو، آئل 410روپے فی کلو، آٹا 70روپے فی کلو اور پٹرول 148روپے فی لٹر تک پہنچ گیا ہے۔ تو ایسے میں، میں یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوں کہ حکومت کی جانب سے مہنگائی کی بمباری تو نجانے کب تک ایسے ہی جاری رہے گی کیونکہ حکومت نے تو اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں کہ مہنگائی نے نگوڑی عوام کا جو کرنا ہے وہ خود ہی کرے کیونکہ حکومت عوام کو کسی طور بھی کوئی ریلیف فراہم کرنے کی قطعاً کوئی پوزیشن میں نہیں۔ احساس پروگرام نامی میٹھی گولی کے ذریعے حکومت اپنے تئیں عوام کو بہلانے کی ناکام کوشش کرچکی ہے جبکہ دوسری طرف پی ڈی ایم نے حسب توقع دسمبر میں لانگ مارچ کا اعلان کردیا ہے جسے وفاقی وزراء نے یہ کہہ کر ہوا میں اڑادیا کہ اس کا حشر بھی پہلی تحریکوں جیسا ہی ہوگا انہیں عوام کے مسائل سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہے انہیں یعنی اپوزیشن کو تو بس اقتدار کی یاد ستارہی ہے۔ آج اپوزیشن کے ہاتھ اقتدار آجائے تو اس کے لئے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی۔ آسان الفاظ میں حکومت اور اپوزیشن کو عوام کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ اگر وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم یہ فرماسکتے ہیں کہ چینی جیسی بھی ہو 90روپے کلو مل تو رہی ہے تو دوسری طرف مریم بی بی عوام سے حکومت کے خلاف انتہائی قدم کیا ہونا چاہیے بارے رائے مانگ رہی ہیں۔ ایک طرف پی ٹی آئی کے ایم این اے راجہ ریاض مہنگائی موجود ہونے کا اعتراف کررہے ہیں تو دوسری طرف اطلاعات و نشریات کے وزیر مملکت فرخ حبیب اپوزیشن کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ شور مچانا اور مایوسی پھیلانا چھوڑدے جس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ مہنگائی کے بدترین سیلاب کی تپش حکومتی صفوں میں بھی محسوس کی جارہی ہے۔ اب ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکی ہے اور اقتدار سے چمٹے رہنے ہی میں عافیت سمجھتی ہے تو ایسا کیا کیا جائے کہ مہنگائی کم ہوجائے تو ایسے میں بعض تجزیہ کار حکومت کو دبے لفظوں میں تمام شوگر ملز قومیانے کا بھی صائب مشورہ دے رہے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے بھٹو نے کیا تھا تاکہ شوگر ملز مالکان کے دماغ ٹھکانے پر آجائیں لیکن چونکہ حکومت کے پاس مہنگائی سے نمٹنے کےلئے کوئی وژن سرے سے ہی موجود نہیں ہے اسی لئے تو اس کی کابینہ اندھے اور بہرے وزیروں پر مشتمل ہے جنہیں اپنے ناک سے آگے دیکھنے کی کبھی عادت ہی نہیں ہے۔
وزیراعظم عمران خان جو ہرقت عوام کے غم میں ہلکان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اگر ایک آرڈیننس صدر مملکت سے یہ بھی جاری کروادیں کہ تمام افسران جن میں اراکین اسمبلی، ججز، بیوروکریٹس سب کا پٹرول الائونس فی الفور ختم کردیا جائے تو اس بااثر طبقے کو سمجھ آجائے گی کہ مہنگائی کس چڑیا کا نام ہے۔ تاہم جہاں تک چینی مہنگی ہونے کا تعلق ہے تو اس کا صاف سیدھا حل یہی نکلتا ہے کہ عوام چینی کھانا بالکل چھوڑدیں تو خودبخود چینی کی قیمت نیچے آجائے گی۔ دراصل یہی زندہ قوموں کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ بحرانی کیفیت کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں خاص طور پر اس وقت جب حکومت مہنگائی ترقی یافتہ ممالک یا عالمی منڈی کی شرح سے بڑھائی ہے جبکہ آمدنی میں اضافہ سبزی منڈی کی رفتار سے ہورہا ہے ان حالات میں بحیثیت قوم ہمیں بھی اپنے حصے کا کردار ادا کرناہوگا اس کے لئے بہترین طریقہ یہی ہے کہ زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیں اور چینی کے بجائے اگر گڑ کا استعمال روزمرہ ضروریات کے لئے شروع کردیں تو چینی مافیا کا غرور خودبخود دھڑام سے نیچے گرے گا اور وہ چینی سستے نرخوں پر فروخت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے اور آئندہ چینی کی ذخیرہ اندوزی اور بلیک میلنگ جیسے اقدامات سے اجتناب کریں گے۔ گڑ کے استعمال سے عوام کی صحت کو لاحق خطرات بھی کم ہوجائیں گے کیونکہ چینی ویسے بھی ان کی صحت کے لئے خطرہ ہے تو اس سے بہتر موقع عوام کیلئے کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ چینی کااستعمال کم از کم اپنی صحت کو لاحق مسائل کے حوالے سے کچھ عرصے کے لئے ہی سہی ترک کرکے تو دیکھیں اس سے ان کی صحت اور جیب دونوں پر مثبت اثر پڑے گا۔ اسی طرح بات اگر گھی اور کوکنگ آئل کی کی جائے تو کیا ہی بہتر ہو کہ عوام سادہ کھانوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں تاکہ کولیسٹرول جیسے سنگین مسائل سے بچا جاسکے۔ کچھ عرصہ قبل وزیراعظم عمران خان نے عوام کو مرغیاں اور بھینسیں پالنے کا صائب مشورہ دیا تھا اگر اس وقت اسے سنجیدگی سے لیا جاتا تو آج عوام کو ڈالڈا گھی کی قیمت میں اضافے پر پریشان نہ ہونا پڑا۔ ان کے گھر میں خالص دودھ کے ساتھ دیسی گھی بھی موجود ہوتا۔ اسی طرح مرغیوں اور ڈیری کے کاروبار میں کس قدر فائدہ ہے اس کا اندازہ شریف فیملی کو اچھی طرح سے ہے اسی لئے تو انہوں نے مرغیاں اور بھینسیں پالنے کے عمران خان کے مشورے کو بدترین تنقید کا نشانہ بنایا کہ عوام اس سے متنفر ہی ہوگئے۔
اگر ہم اپنی زندگیوں کو سادہ بنالیں تو اپنے لئے آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں۔ بس اس کے لئے مثبت سوچ کی اشد ضرورت ہے۔ میں یہ سب باتیں اس لئے کررہی ہوں کہ اگر اب بھی عوام نے حکومت کی طرف اپنے مسائل کے حل کے لئے دیکھ رہے ہیں تو وہاں سے انہیں کچھ نہیں ملے گا اس لئے وقت آگیا ہے کہ ایک زندہ اور باشعور قوم ہونے کا ثبوت دیں اور مہنگائی کو اپنی مثبت سوچ سے شکست دیں۔ یقیناً عوام بھی یہ کہیں گے کہ ہر مرتبہ ہی قربانی کیوں دیں تو یہ ان کا جائز سوال ہے جس کی طرف عمران خان کو ضرور توجہ دینی چاہیے کیونکہ اگر یہاں صرف شوگر ملز مافیا کی بات کی جائے تو ان کو عدالتوں کے ذریعے بھی کافی ریلیف ملتے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام بھی اپنے بنیادی حقوق کی پامالی پر عدلیہ کی جانب سے کسی قسم کا کوئی نوٹس نہ لینے پر خفا ہیں کہ دن دہاڑے ان پر مہنگائی کا بم ہر روز گرایا جارہا ہے لیکن ان کی دلدوز چیخیں تو جیسے کسی کو سنائی ہی نہیں دے رہیں اسی لئے تو کوئی عوام کے حق کے لئے آواز بلند کرنے والا ہی نہیں۔
پاکستان کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ یہاں پر کوئی بھی عوام سے مخلص نہیں سب کو اگر غرض ہے تو صرف اپنے مفادات کے تحفظ کی کہ کسی نہ کسی طرح ان کے مفادات کو زک نہ پہنچے اس کے لئے وہ سیاسی اختلافات کو بھی بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ آج وطن عزیز کی معیشت وینٹی لیٹر پر آخری سانسیں لے رہی ہیں تو اس سے بہتر موقع حکومت کے پاس ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ تمام سرکاری اداروں کے ملازمین سے پنشن کے سوا تمام مراعات واپس لے لے۔ مگر اس کو کیا کہا جائے کہ برق گرتی ہے تو بیچارے غریبوں پر، کے مصداق حکومت کی جانب سے پنشن کو ختم کرنے کے لئے اصول وضع کرنے کی بھرپور تیاریاں کی جارہی ہیں لیکن عوام کے ٹیکسوں سے ہزاروں لٹر پٹرول اور گھر لینے والوں سے ان کی واپسی کا مطالبہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی حالانکہ یہ وقت ملک کو ڈلیور کرنے کا ہے کہ اگر تمام محکموں کو تنخواہ کے سوا دیگر کوئی مراعات نہیں ملیں گی، کا ایک آرڈیننس جاری کروادیا جائے تو قیامت نہیں آئے گی۔تاہم حکومت کے اس اقدام سے خزانے کو کروڑوں روپے کا فائدہ ہوگا۔ ان حالات میں جب وزیراعظم کی معاشی ٹیم ایک عوام دوست معاشی پالیسی کی تیاری میں ناکام ہوچکی ہے تو کیا ضروری ہے کہ وزیراعظم اس ملک کے ذہین اور زرخیز دماغوں پر مشتمل ماہرین معیشت اور اساتذہ سے فی الفور ایک بیٹھک کریں اور ان سے ملک کو درپیش معاشی سنگین مسائل سے نکلنے کے لئے پالیسی مرتب کرنے کے لئے اپیل کریں چونکہ یہ تھنک ٹینک عوام میں سے ہوگا اور انہیں عوام کے مسائل سے آگاہی ہوگی تو وہ یقیناً معیشت کی درست سمت کا تعین کرنے میں حکومت کی مدد کریں گے۔ اسی طرح حکومت کو اراکین اسمبلی کی تنخواہیں بھی کچھ عرصے کے لئے روک لینی چاہئیں تاکہ تنخواہوں اور دیگر مراعات کی مد میں بچنے والے پیسے سے عوام کے لئے پٹرول، آٹا اور دیگر بنیادی ضروریات بارے سبسڈی فراہم کی جاسکے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے آگے بند بالآخر حکومت نے ہی باندھنا ہے اس لئے بوکھلاہٹ کا شکار ہونے کی بجائے وزیراعظم نئے اور پڑھے لکھے معاشی ماہرین کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی ترکیب کریں تاکہ وہ معیشت کے سدھار میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں اور ساتھ ہی ساتھ عوام کو بھی چینی کا مکمل بائیکاٹ کرکے ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دینے کے ساتھ اپنی زندگیوں کو سادہ بنانے کے اصول پر عمل کرنا چاہیے۔ یہی وقت کی پکار ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: