مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈی آئی خان کی نئے صوبہ میں شمولیت کا واقعہ||ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگوں نے نئے صوبے میں ڈیرے کے ادغام پر احتجاج کیا اور سڑکوں پر نکل آئے، لوگوں نے اس بے ہودہ حکم نامے کو ماننے سے انکار کر دیا، ریاست ٹانک کے سرائیکی نواب نے بھی اس حکم نانے کو ماننے سے انکار کیا،

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج سے قریباً سوا سو سال پہلے وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے ڈیرہ اسماعیل خان ، ٹانک اور وسیب کے دیگر علاقوں کو صوبہ سرحدکا حصہ بنایا ، ادغام سے پہلے ڈیرہ سماعیل خان ہمیشہ اپنے وسیب کے مرکز ملتان کا حصہ رہا۔ دارا اول اور سکندر اعظم سے لیکر رنجیت سنگھ تک جتنے بھی حملہ آور آئے انہوں نے قتل عام اوربدترین لوٹ مار کے ذریعے اس خطے کو تباہ و برباد تو ضرور کیا ، لیکن اسے اپنے تاریخی جغرافیائی ثقافتی لسانی تہذہبی مذہبی اور روحانی مرکز ملتان سے جدا نہ کیا۔
انگریز پہلے قابض حکمران تھے جنہوں نے قبائلی علاقہ جات کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک نئے صوبے کی ضرورت محسوس کی،اس مقصد کیلئے اسے زرخیز زمین ہموار خطہ درکار تھا جہاں وہ چھائونی کے ساتھ اپنی دوسری کمین گاہیں بھی تعمیر کر سکے۔ درہ گومل کی طرف سے اس کی نظر ڈیرہ اسماعیل خان پر پڑی اور اس نے 9 نومبر1901ء کو ڈیرہ اسماعیل خان کو شامل کرکے ایک نئے صوبے این ڈبلیو ایف پی یعنی شمال مغربی سرحدی صوبہ کا حکم نامہ جاری کر دیا۔
 ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگوں نے نئے صوبے میں ڈیرے کے ادغام پر احتجاج کیا اور سڑکوں پر نکل آئے، لوگوں نے اس بے ہودہ حکم نامے کو ماننے سے انکار کر دیا، ریاست ٹانک کے سرائیکی نواب نے بھی اس حکم نانے کو ماننے سے انکار کیا،سوسائٹی کے دوسرے افراد کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈسڑکٹ جج ٹھاکر دت سرکاری ملازمت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سڑکوں پر آئے۔ پورے چار ماہ احتجاج ہوا ۔ ٹھاکر دت کا خطاب جذباتی نوعیت کا ہوتا تھا ان کا کہنا تھاکہ یہ اس خطے کے لوگوں سے بے انصافی ہے، ڈیرے کے لوگوں کی تہذیب کلچر اور زبان پشتون قبائل سے الگ ہے ،
 پہاڑوں پر رہنے والوں کا الگ قبائلی طرز زندگی ہے جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان شروع سے بندوبستی تہذیبی خطہ ہے مگر انگریزسرکار نے ایک نہ سنی طاقت کے بل بوتے پر تحریک کو دبا دیا ۔ اس دن سے ڈیرے اسماعیل خان کے لوگوں نے اس دن کویوم سیاہ قرار دیا۔ انگریز سامراج نے برصغیر پر اپنا ناجائز قبضہ برقرار رکھنے کیلئے شیطانی حربے استعمال کئے، اس نے ’’لڑائو اورحکومت کرو‘‘‘ کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے صوبوں کی حد بندی بارے قوموں کو ایک دوسرے لڑا دیا،
اس نے لوگوں کی مرضی کے برعکس سرائیکی وسیب کا بڑا حصہ پنجاب اور چھوٹا حصہ صوبہ سرحد میں شامل کرکے خطے میں مستقل جھگڑے کی بنیاد رکھی۔ خطے کے لوگوں نے قابض انگریز سے آزادی کیلئے تحریک چلائی، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور جانوں کے نذرانے پیش کیئے۔ آزادی ملی تو انگریز کے غلط فیصلے ختم نہیں کیے گئے ۔
پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان نے آزادی کے بعد انگریز کی بنائی گئی غلط صوبائی حد بندیوں کے خاتمے کیلئے جسٹس فضل علی کی قیادت میں کمیٹی بنائی اور انگریزوں کی طرف سے غیر ثقافتی حد بندیوں کو ختم کرکے صوبوں کو لسانی و ثقافتی بنیاد پر از سر نو تشکیل دیدیا اور صوبوں کی تعداد بڑھا دی ۔ لیکن یہاں انگریز کی طرف سے بنائی گئی فتنہ پرور صوبائی لکیروں کو ختم کرنے کی بجائے اسے مزید پختہ کیا جا تا رہا ہے۔
جس سے نت نئے مسائل پیدا ہونے کے ساتھ قومی و حدت کو نقصان ہوا ۔ صوبہ سرحد (خیبرپختونخواہ) میں شامل کئے جانے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ طرح طرح کی مشکلات کا شکار رہے ہیں سرکاری دفاتر اور حکومتی ایوانوں میں ان سے دوسرے درجے کا سلوک ہوتا ہے، صوبہ میں سابقہ ایم ایم اے اور موجودہ اے این پی کے دور میں پشتون شاونزم کو بہت زیادہ فروغ دیا گیا اور، ڈیرہ کی سرائیکی آبادی کیلئے ملازمتوں کے دروازے ایم ایم اے کے دور سے لیکرآج تک بند ہیں۔
 بے روز گاری سے تنگ آکر بہت سے سرائیکی نوجوانوں نے خود کشیاں کر لیں مگرڈیر ہ اسماعیل خان کے نوجوانوں اور بے روزگاروں کو یہ تماشہ بھی شہر کے تمام بنکوں کے سامنے روزانہ دیکھنے کو ملتاہے کہ نام نہاد افغان مہاجرین کے نام پر پشتونوں کو گورنمنٹ کی طرف سے بنکوں کی معرفت و ظیفے وصول کر رہے ہوتے ہیں اور ور دھرتی کے اصل وارثلوگ اپنے ہی دیس میں مسافروں اور مجرموں کی طرح وقت گزارنے پر مجبور ہیں۔
قبائلی علاقے میں کسی بھی بے روزگار سرائیکی بولنے والے کی جرأت نہیں کہ وہ جاکر دال چاول کی ریڑھی لگا سکے مگر سرائیکی خطے دیرہ اسماعیل خان میں غیر سرائیکی سے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ تم اتنے رقبے خریدرہے ہو، پلازے بنوار ہو تمہیں کس نے یہ اجازت دی ہے،کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ ان کے پاس یہ دولت کہاں سے آئی؟
کیا فوج پولیس اور ناحق تعزیریں صرف پاکستان کے اصل وارثوں کیلئے ہیں؟ 1901 میں انگریزوں کے غلط فیصلے کے بعدڈیرہ اسماعیل خان کی ڈیمو گرافی تیزی سے تبدیل ہوئی، ڈیرہ اسماعیل خان کا ضلع بنوں جو 1880 کی مردم شماری کے مطابق98 فیصد مقامی سرائیکی (جٹان) اور دو فیصد پشتون آبادی پر مشتمل تھا، اب الٹ صورتحال ہے ،لکی مروت میں بھی تیزی کے ساتھ سرائیکی آبادی کی جگہ پشتون آبادی لے رہی ہے،
 ٹانک جو پہلے دیرہ اسماعیل خان کی تحصیل تھی، اب ضلع ہے اورآدھے سے زائد پشتون توسیع پسندی کی نذر ہو چکا ہے ڈ یرہ اسماعیل خان شہر میں ایک سکیم کے تحت آئے روز دہشتگرد خود کش حملوں اور فرقہ وارنہ فسادات کے بعد آدھا ڈیرہ اسماعیل خان خالی ہو چکا ہے اورڈیرہ اسماعیل خان میں موبائل اور موٹر سائیکل کی بندش بھی ’’ڈیرہ خالی کراو سکیم‘‘ کا حصہ ہے۔ ضیاء الحق کے زمانے میں افغان جہاد میں اسلحہ منشیات عام ہوا تومقامی لوگوں اور سرائیکی جماعتوں نے اس پر زبردست احتجاج کیا ، حکمران خود سرائیکی قوم کو بتائیں کہ دھرتی کے اصل وارث انصاف کیلئے مزید کتنا انتظار کریں؟۔ ٭٭٭٭

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: