مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

توپاں والے دروازے کی سیر: ماضی اور تاریخ کے سنگ(قسط3) ||گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی

گلزار احمد خان اور وجاہت علی عمرانی کی مشترکہ قسط وار تحریر جو ڈیرہ اسماعیل خان کے معروف توپاں والا دروازے سے متعلق یادداشتوں پہ مبنی ہے۔ جس میں تاریخی، ثقافتی، ماضی اور روایتی باتیں قلمبند کی گئی ہیں ۔

گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمرانی صاحب نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا کہ آئیں گلزار صاحب، جلدی سے سڑک پار کریں۔ میں کہنے لگا کہ ماضی کی یادوں نے دل اداس کر دیا اگر ممکن ہو تو اسی قومی بچت سنٹر کے ساتھ خالی جگہ پر بچھی کرسیوں پہ بیٹھ کر چائے کی ایک ایک پیالی پی لیتے ہیں۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں ماضی میں پلازہ سینما تھا۔۔ نیکی اور پوچھ پوچھ، فوراً عمرانی صاحب کرسیوں کی طرف چل پڑے۔ کرسی پہ براجمان ہوتے ہی عمرانی صاحب نے پھر آنکھیں موند لیں، جبکہ میری نظریں چائے کا آرڈر لینے والے نوجوان پر مرکوز تھیں جو سامنے بیٹھے گاہکوں سے آرڈر لے رہا تھا۔۔
اپنے دونوں ہاتھوں کو سر کے پیچھے رکھتے ہوئے عمرانی صاحب گویا ہوئے، گلزار صاحب کبھی آپ نے سوچا کہ ہم شہر میں، گلیوں میں، بازاروں میں، چوراہوں پر، سڑکوں پر گھومتے پھرتے رہتے ہیں،لیکن آتے جاتے مناظر ہم سے مکالمہ کیوں نہیں کر پاتے؟؟ ہماری سماعتیں کہاں رہن رکھ دی گئیں ہیں؟؟۔ دیکھیں ہر کوئی جلدی کی فکر میں مست بھاگ رہا ہے، وقت میں وسعت سمٹ گئی۔ لگتا ہے ہمارے کان کسی دوسرے انٹینا سے جڑ چکے ہیں۔ ہماری نظروں کا زاویہ کسی اور سمت مڑ چکا ہے۔ جانتے ہیں، شہر ہم سے نالاں کیوں ہے؟؟۔ گلیارے اور باغیچے ہمیں صدائیں کیوں نہیں دیتے؟؟؟۔۔ گلزار صاحب ! وجہ یہ ہے کہ ہم مفاد پرست بن چکے ہیں۔ خلوص، محبت رواداری اور شہر کی مٹی سے محبت ہم نے چھوڑ دی ہے۔ قدیم عمارتیں گرا رہے ہیں۔ لوک ورثہ کی قدروقیمت نہیں رہی۔ اب دکھ درد اور خوشیاں سانجھی نہیں ہیں۔ اب ہم دوسروں کی غمی اور دکھ درد میں اپنی خوشی تلاش کرتے ہیں۔۔
اسی دوران نوجوان چائے کا آرڈر لینے آن پہنچا۔ بڑے مودبانہ لہجے میں بولا سر! میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟؟ اس نوجوان کا اتنے ادب سے پوچھنے پر میں حیران ہو کر اس کا نام پوچھنے لگا۔ جناب میرا نام اسد ہے۔ کوئی تعلیم وغیرہ؟؟ جی میں تھرڈ ائیر کا طالبعلم ہوں۔ جب وہ آرڈر لے کر چلا گیا تو میں نے عمرانی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ جب غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا طالب علم خواب وخیالات کی دنیا میں بھٹکتے ہوئے غلطی سے اعلی تعلیم کا سنہرا خواب دیکھ لیتا ہے تو گھر کی پریشانی اور والدین کی غربت و لاچاری کے پیش نظرادھیڑبن کی فکر کو چاک کر کے کسی ہوٹل، دکان یا پٹرول پمپ پر کام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور ا س کی فکری اڑان ایک چھوٹے موٹے ملازم سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ اسی طرح اس کی ناخواندگی یا تعلیمی قناعت پسندی سلسلہ وار متعدی نفسیاتی مرض کے روپ میں نسل در نسل منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ عمرانی صاحب! جب کہ پاکستان کے دستور یا آئین میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ”ریاست ناخواندگی کو ختم کرے گی اور کم سے کم ممکنہ عرصے میں مفت اور لازمی سکینڈری تعلیم فراہم کرے گی، ٹیکنیکل اور پروفیشنل تعلیم عمومی طور پر مہیا کرے گی اور اعلیٰ تعلیم تک سب کو میرٹ پر رسائی ہوگی“ لیکن ماضی وحال کی حکومتیں یکے بعد دیگرے اپنے تمام تر وسائل کے باوجود عوام کو تعلیم، صحت، رہائش اور خوراک جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکام رہی ہیں۔ ہمارے موجودہ حالات متقاضی ہیں کہ ہم اِس اہم ترین سوال پر غور کریں کہ مِن حیث القوم ہم غریب کیوں ہیں؟ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ غربت کے ہیجانات نے ہماری اِجتماعی تخلیقیت کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ یہاں تک کہ خود ہمارے اندر انسانوں کا ایک جمِ غفیر صرف بقائے حیات کی مشینی تگ و دو تک محدود ہو کے رہ گیا ہے۔
ہم ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کہ اسد ٹرے میں اٹھائے چائے لے آیا۔۔ گلزار صاحب زرہ اس طرف دیکھیں ناں ، عمرانی صاحب نے چائے کی پیالی اٹھاتے ہوئے اور ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے، اپنے بائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے۔ یہاں پر ڈیرہ اسماعیل خان کے مشہور و معروف آرٹسٹ استاد اقبال شاہد کا "دو بھائی سٹوڈیو” تھا۔ استاد فراست علی اور استاد اقبال شاہد انکی زیر تربیت درجنوں شاگرد یہاں پر ان کے ساتھ فلمی پوسٹر اور دکانوں کے سائن بورڈ اور پینٹنگ کے دوسرے کام کرتے۔ اس دور میں پینٹر کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔استاد اقبال شاہد کے ہاتھ میں چھپا فن جب ظاہر ہوتا تھا تو کوئی نہ کوئی شہہ پارہ تخلیق ہو چکا ہوتا تھا۔ سڑک کنارے یا دکان میں رنگوں کے تخت پر جلوہ افروز استاد اقبال شاہد جب اپنے فن کے جوہر دکھا رہا ہوتا تھا تو وہاں سے گزرنے والا ہر فرد ایک مرتبہ رک کر ضرور کینوس پر نظر ڈالتا تھا کہ دیکھیں کیا منصہ شہود پر آنے والا ہے، ایسے میں استاد دنیا و مافیہا سے بے خبر تخلیق کے عمل میں ڈوبا رنگوں سے لائنیں کھینچنے میں مصروف ہوتا تھا، وہ آڑی ترچھی لائنیں دیکھتے ہی دیکھتے کسی خوبصورت ہیرو، ہیروئن اور حسین منظر میں ڈھل جاتی تھیں۔ اس زمانے میں جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے کی وجہ سے تصاویر بنانے اور لکھنے لکھانے کا سارا کام پینٹر ہی سر انجام دیتا تھا حتیٰ کہ کاتبوں کے علاوہ اشتہار بھی وہ لکھ کر دیتا تھا تب وہ چھاپہ خانے میں شائع ہونے کے لئے بھیجا جاتا تھا۔ مگر اب پینا فلیکس اور نئی ٹیکنالوجی کی آمد سے پینٹر کا کردار بھی قصہ پارینہ بن گیا۔
چائے پینے اور پیسے ادا کرنے کے بعد واپس چلنے لگے کیونکہ پہلے جو یو ٹرن جمیل ہوٹل والے کی گلی کے سامنے تھا اس کو ٹریفک کی وجہ سے بند کر دیا گیا ہے، اب ہمیں پوسٹ آفس والے یو ٹرن سے واپس توپاں والے بازار کی طرف آنا تھا۔ چلتے چلتے جب ہم لطیف صاحب کی یونائیٹڈ بک ڈپو کے باہر آئیس کریم اور فالودہ والی ایک ریڑھی کے نزدیک پہنچے تو میں نے کہا عمرانی صاحب! یاد ہے پہلے یہاں پردرجنوں فالودہ اور کھوئے والی آئیس کریم کی ریڑھیاں لگی ہوئی ہوتی تھیں۔ تقسیم کے بعد سب سے پہلے یہاں فالودے والی آئیس کریم کا کاروبار ہندوستان کے شہر دلی کے تہاڑ گاؤں اور چھتر پور سے ہجرت کر کے آنے والے بزرگ کرم الدین، رحیم الدین اور محمد شفیع نے غالباً 1952-53 میں "میاں جی ” کے نام شروع کیا تھا۔ پھر دیکھتے دیکھتے یہاں پر ہجرت کر کے آنے والوں نے اپنی اپنی فالودہ آئیس کریم والی مذید ریڑھیاں سجا لیں۔ 1972 میں میاں جی کے انتقال کے بعد اکثر آئس کریم والوں نے اپنی ریڑھیوں کو "بڑے میاں جی ” کی آئس کریم والے سائنبورڈوں سے سجا لیا۔ عمرانی صاحب! کچھ بھی ہو، یہ حقیقت ہے کہ ڈیرے والوں نے بھی ذائقے اور کوالٹی کی وجہ سے اس فالودے والی آئیس کریم کا دل کھول کہ خیر مقدم کیا۔ شام کے بعد یہاں کثیر تعداد میں بچے، جوان، بزرگ اور خواتین بھی سرکنڈوں کے بنے موڑھوں پر بیٹھ کر فالودے والی آئیس کریم کھانے آتے تھے۔۔ (جاری ہے)

%d bloggers like this: