مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملاح اور چراغی(قسط 2)۔۔۔گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی

معروف کالم نگار، محقق و مورخ جناب گلزار احمد خان اور محقق و ادیب وجاہت علی عمرانی کی ثقافتی، سماجی، روایتی اور تاریخی یادوں پہ مبنی افسانوی و ادبی طرز کی مشترکہ تحریر جو کہ 11 اقساط پر مبنی ہےنذر قارئین ہے۔

گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملاح اور چراغی۔
کشتی کے ناخدا چاچے فضلے کے ہاتھ میں دس پندرہ فٹ لمبا بانس کا ڈنڈا تھا جس سے وہ کشتی کو دھکیل رہا تھا، کشتی کے ایک طرف اس کا بھائی چپو چلانے اور ایک خاتون جو شاید چاچے فضلے کی رشتہ دار تھی کشتی کا رخ ٹھیک کرنے ہاتھ میں ایک ڈنڈا لیے آگے بیٹھی تھی۔ جہاں میں بیٹھا تھا ساتھ ہی پانی پینے کے لیئے لکڑی کی سادہ گھڑونجی پر پانی کا گھڑا مع مٹی کے گلاس پڑا تھا۔ خاموش و پُرسکون پانی پر اپنی تیرتی کشتی پر اکیلے بیٹھ کر سکون قلبِ اور عیاشی کے لیئے چاچے فضلو نے ایک طرف اپنا حقہ، حویذہ اور تمباکو کی پوٹلی بھی سنبھال رکھی تھی۔ جب کشتی دریا کے درمیان پہنچی تو بوڑھا شخص میرے ساتھ آ بیٹھا اور مجھ سے حال احوال پوچھنے لگا۔بزرگ نے بتایا کہ اس کا نام شہباز ہے وہ ریٹائرڈ فوجی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں نیپال برما کے محازوں پر جنگ میں شریک ہوا اور اپنی بہادری کی بنا پر انگریزوں سے کئی میڈل بھی حاصل کر چکا ہوں۔ مجھے وہ بزرگ پڑھے ہوئے سے زیادہ کڑھا ہوا لگ رہا تھا۔ یقین کریں اس وقت آلودگی سے پاک سندھو دریا کا پانی کسی آئینے کی طرح چمک رہا تھا بلکہ اسکا نیلگوں پانی، زمین کی انگشتری میں کسی نیلم جیسی ہی آب و تاب کا حامل تھا۔ دریا میں کہیں کہیں نیل سر، آری جل مرغیاں اور مرغابیاں تیرتی نظر آ رہی تھیں۔ ہم باتیں کر رہے تھے کہ یکا یک ایک مقام پر گومل گھیر (بھنور) آگیا۔ جس سے کشتی ہلکوروں کے ساتھ ساتھ نیچے کی طرف کھچنے لگی۔ تمام مسافر حفاظت کی دعائیں مانگنے لگے اور چاچے فضلے اور اسکے بھائی نے اپنے تجربے اور زور لگا کر کشتی کو بھنور سے دور کر دیا۔ اللہ اللہ کر کے ہمارے چہروں سے تشویش کے آثار ختم ہوئے تو بزرگ شہباز نے مجھے دریائے سندھ کی کہانی سنانی شروع کی۔ ان کے بقول ہندؤوں کا عقیدہ ہے کہ دریائے سندھ دیوتاؤں کا مسکن ہے۔ تبت کے بدھ مذہب کے لوگ کہتے ہیں مہاتما گوتم بدھ اپنے پانچ پیروکاروں کے ساتھ اس دریا میں مقیم ہیں۔ ہندو اور بدھ مت دونوں اس دریا کے پانی کو متبرک سمجھتے ہیں۔ برہمن شاعروں نے اس دریا کو زرفشاں کہا ہے، جس کا مطلب ہے سونا اچھالنے والا دریا۔ اس دریا کو شیر دریا بھی کہا جاتا، اسی وجہ سے ہم سرائیکی اسے شینھ دریا کہتے ہیں۔صوبہ سندھ میں یہ دریا مہران کہلاتا ہے۔لیکن اس دریا کا سب سے دلچسپ نام اباسین ہے۔ اباسین "شینا” زبان کا لفظ ہے جس میں۔۔ابا۔۔باپ کو کہتے ہیں اور۔۔سین دریا کو۔۔تو اباسین کا مطلب۔۔دریاؤں کا باپ۔ اس دریا کو انڈس اور یہاں کی تہذیب کو انڈس سولائزیشن کہا جاتا ہے پھر انڈیا کا لفظ بھی اسی انڈس ہی سے نکلا ہے۔۔
جاری ہے

%d bloggers like this: