اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملاح اور چراغی(قسط 3)۔۔۔گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی

معروف کالم نگار، محقق و مورخ جناب گلزار احمد خان اور محقق و ادیب وجاہت علی عمرانی کی ثقافتی، سماجی، روایتی اور تاریخی یادوں پہ مبنی افسانوی و ادبی طرز کی مشترکہ تحریر جو کہ 11 اقساط پر مبنی ہےنذر قارئین ہے۔

گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملاح اور چراغی۔
ہمارے سر کے اوپر سے کونجوں کی ایک لمبی ڈار گزر رہی تھی۔ یقین کریں کونج کے ڈاروں سے بھرے آسمان پر انہیں قطاروں میں چکر کاٹنے کا منظر بہت دلکش اور سحرانگیز ہوتا ہے ان کی رفتار، ردھم اور انداز دل موہ لیتا ہے۔ جب چاچے فضلو کے بھائی نے کونجوں کی ڈار دیکھی تو بے ساختہ کونجوں کو دیکھ کر ماہیا گانے لگا ” اڈدی کونج آئی ۔ ڈھولا ساکوں مل پووے ساکوں ڈاڈھی مونجھ آئی "۔
شہباز صاحب کی باتیں جاری تھیں کہ کشتی آہستہ آہستہ دوسرے کنارے کے قریب ہونے لگی اورچاچے فضلے نے دور ٹھہرے کسی احمدو نامی شخص کو دیکھ کر بلند آواز سے اسکا نام لیتے ہوئے ایک خاص صوتی انداز کی کوک لگائی۔پتہ نہیں اس کوک کا کیا مطلب تھا لیکن میں نے اس کوک کے بعد اس احمدو نامی شخص کو ایک ہاتھ میں رسی پکڑے کشتی کی طرف دوڑتے دیکھا۔ ادھر چاچے فضلو ملاح نے ایک لمبی بانس کی ڈانگ کے سرے پر بندھی ایک کوندر کی بنڈی یا ٹوکری، ایک ایک مسافر کے سامنے کرتا گیا اور کہتا رہا کہ چراغی ڈالیں۔ چنانچہ ہر مسافر نے کرائے کے علاوہ آٹھ آٹھ، چار چار آنے اس بنڈی میں ڈالنے لگا۔ یہ کشتی کی بحافظت و خیریت کنارے پر پہنچنے کی چراغی تھی۔ چراغی دراصل وہ رقم ہوتی ہے جو کسی درگاہ و مزار پر دی جاتی ہے یا پھر اس پیسوں سے نذر نیاز خیرات کی جاتی ہے۔ جلد ہی کشتی ایک پکی منڑ کے قریب لنگر انداز ہوگئی اور سب سے پہلے خواتین اور بعد میں ایک ایک کر کے سارے مسافر اترنے لگے۔۔۔۔۔
کیا دن تھے جب تبت کے پہاڑوں سے نکلنے والے شینھ سندھو دریا کے صاف و شفاف پانی کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے تمام ثقافتی و روایتی چیزیں دیکھنے کو ملتی تھیں۔ بے ہنگم ترقی کی دوڑ نے جہاں ہماری ثقافت و روایات کا گلہ گھونٹ دیا وہاں اب جنگلات کی تیز رفتار کٹائی، صنعتی آلودگی، گندگی کے نالوں اور بے توجہی نے علاقے میں نباتات اور حیوانات کے ساتھ ساتھ انسانوں کی زندگیوں پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کر رہا ہے۔
اب پرندے کیسے آئیں؟ پرندوں کو غذا، بیٹھنے اور چھپنے کی جگہ درکار ہوتی ہے۔ ماضی میں دریا کے قریب درخت، سبزہ اور بیٹوں پر کوندر، کانے اور گھاس کے قطعات کی مقدار اتنی زیادہ تھی کہ یہ چھوٹے چھوٹے جنگلات کی صورت پرندوں کو پناہ گاہ فراہم کرتے تھے۔تب دریا کے ساحل اور نیلگوں پانی میں مرغابیاں کے ساتھ ساتھ بلہنڑ (ڈولفن) پرندوں میں سفید سرخاب، سلیٹی راج ہنس، چپکو بطخ، نیل سر، پھارا بطخ، آری، جل ککڑ اور درجنوں قسم کے دوسرے پرندے اور آبی مخلوق نظر آتی۔۔ لیکن اب۔۔۔۔؎
ساڈے بیٹ تے غربت چھا گئی ہے ۔
اساں پتنڑ دیاں جھائیں ویچ ڈتن۔
اساں وسدی جھوک دے ونڑ ویچن۔
اساں پینگاں لانہیں ویچ ڈتن۔
ساڈے مال وکا ء گئے منڈیاں تے۔
اساں کانے کانہیں ویچ ڈتن۔
تُوں آصف ونگاں اج گھن آئیں۔
اساں کڈنڑ دیاں بانہیں ویچ ڈتن۔
(سیف اللہ آصف)
جاری ہے ۔۔۔

%d bloggers like this: