اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنڈورا لیکس، پاکستان صرف قبروں کیلئے!!||سارہ شمشاد

وطن عزیز میں احتساب کا عمل اس قدر سست روی کا شکار ہے کہ یہ عوام کو اب ایک بھونڈا مذاق لگنے لگا ہے۔ جس کا بہترین طریقہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنا ہے جس کا مقصد مٹی پائو ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم عمران خان نے پنڈورا لیکس کی آمد کے بعد اعلان کیا ہے کہ ان کی حکومت اپنے تمام شہریوں کی پڑتال کرے گی جس کے نام پنڈورا پیپرز میں آئے ہیں اور اگر کچھ غلط ثابت ہوا تو ہم مناسب کارروائی عمل میں لائیں گے۔ انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ ماحولیاتی تغیرات کے بحران کی طرح اس صریح ناانصافی کے تدارک کا بھی بدرجہ اتم اہتمام کیاجائے۔ یاد رہے کہ پنڈورا پیپرز میں 700 پاکستانیوں کی آف شورکمپنیوں بارے اطلاعات ملی ہیں۔ پنڈورا پیپرز سے کافی لوگوں کا کچھا چھٹہ سامنے آیا ہے۔ رپورٹ میں پانامہ کے مقابلے میں پاکستان کے بہت بڑے اور مشہور نام شامل ہیں۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم سے بڑے مالیاتی سکینڈل کو سامنے لانے پر مبارکباد کی مستحق ہے کہ جنہوں نے 2سال کی سخت محنت کے بعد ایک کروڑ انیس لاکھ فائلز پر مشتمل ایک جامع رپورٹ مرتب کی۔ ادھر مسلم لیگ (ن) نے پنڈورا پیپرز کے بعد عمران خان سے مستعفی کا مطالبہ کیا ہے۔تاہم وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پنڈورا لیکس کی تحقیقات کے اعلان کے بعد عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے کہ چلو کسی حد تک ہی سہی، انہیں اپنے عوام سے کئے گئے وعدے یاد ہیں کیونکہ ماضی میں جب پانامہ پیپرز سامنے آئے تھے تو قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس میں اس بارے تحقیقات نہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پانامہ میں 4ہزار لوگوں کے نام سامنے آئے لیکن تحقیقات صرف نوازشریف کے خلاف ہی ہوئیں اسی لئے تو اس ٹرائل کو سیاسی قرار دیا جاتا ہے۔ اگر پانامہ میں آنے والے دیگر تمام افراد کا بھی ٹرائل کیا جاتا تو بلاامتیاز احتساب کا تاثر تقویت پکڑتا مگر ہمارے ہاں چونکہ ایسی روایات کا فقدان ہے اسی بنا پر معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ عوام کو احتساب اب صرف ایک انتقامی نعرہ ہی نظر آتا ہے۔ یوں بھی اگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ آج تک احتساب صرف سیاستدانوں کا ہی ہوا ہے وہ بھی اپوزیشن میں موجود سیاستدانوں کا۔
وطن عزیز میں احتساب کا عمل اس قدر سست روی کا شکار ہے کہ یہ عوام کو اب ایک بھونڈا مذاق لگنے لگا ہے۔ جس کا بہترین طریقہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنا ہے جس کا مقصد مٹی پائو ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ وزیراعظم نے جو تحقیقات کا اعلان کیا ہے وہ بجلی، گیس، چینی اور آٹا بحران کی تحقیقاتی کمیٹیوں کے شور میں تو نہیں دب جائیں گی اور خان صاحب اپنے قریبی وزراء سے تحقیقات تک عہدوں سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں یا نہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے 3برس سے زائد کا عرصہ ہونے کو آیا ہے لیکن آج تک کتنے لوگوں کا احتساب کیا گیا ہے اس بارے کیا حکومتی ترجمان عوام کو یہ بتانے کی زحمت کریں ۔ چلو اپنے سیاسی حریف شریف فیملی پر کرپشن کے کیسز میں سے کتنوں کا فیصلہ ہوا اور کتنوں کو سزا ہوئی بس یہی عوام کو بتادیں تو احتساب کس چیز کا نام ہے، عوام کو خود ہی سمجھ آجائے گا۔ وزیراعظم عمران خان جو 2018ء کے عام انتخابات سے قبل لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے لئے بڑے لمبے چوڑے دعوے کیا کرتے تھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ آج 3برس گزرنے کے باوجود یہ بتانے کی پوزیشن میں ہی نہیں کہ کتنی لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے میں جمع کروائی گئی۔ اسی طرح چیئرمین
نیب کی جانب سے ہر تھوڑے دنوں کے بعد ایک سخت بیان تو سامنے آجاتا ہے لیکن کتنے کرپٹ افراد کے گرد شکنجہ کسا گیا اور کتنوں کو سزا ملی اور کتنوں نے لوٹی ہوئی دولت خزانے میں جمع کروائی، بارے بھی کبھی کچھ بتایا گیا کیونکہ انگریزی کی کہاوت ہے کہ Actions speaks louder than words یہ ناقص پالیسیوں کاہی نتیجہ ہے کہ اسے آئے روز آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے اس لئے تو عوام پنڈورا لیکس کو پانامہ سے زیادہ اہمیت اس لئے بھی دینے کو تیار نہیں ہیں کہ اگر پنڈورا تحقیقات ہوئیں تو حکومت کی نمبرگیم متاثر ہوگی اور چند ووٹوں کے سہارے سے قائم حکومت دھڑام سے نیچے آگرے گی۔ اسی طرح اگر اس اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرے جس کی عمران خان ماضی میں بات کرتے آئے ہیں تو اب تک تو پنڈورا باکس میں آنے والے حکومتی عہدیدران کو ازخود اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجانا چاہیے تھا لیکن یہاں بھی معاملہ دور کے ڈھول سہانے والا ہی ہے اسی لئے تو تحقیقات کا اعلان بظاہر ایک سوچی سمجھی حکمت عملی ہی نظر آرہی ہے کہ جب تک تحقیقات ہوں گی تب تک حکومت آئندہ الیکشن میں جانے والی ہوگی تو پھر خان صاحب حسب روایت عوام کو
متاثر کرنے کے لئے ان حکومتی عہدیداران کو ان کے عہدوں سے یہ کہہ کر برطرف کردیں گے کہ وہ اصولوں پر کسی طور بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے لیکن معاملہ ’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘ کا ہے اسی لئے تو عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کی بات کی جارہی ہے۔ پانامہ پیپرز ہوں یا پنڈورا باکس، یہ عوام کے ساتھ صریحاً زیادتی ہے۔ ادھر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آف شور کمپنیاں بنانا کوئی غیرقانونی کام نہیں لیکن اس اضافی سرمائے سے اپنے ملک کے لوگوں کو محروم رکھنا بہرحال اس کے مکینوں کے ساتھ کسی بڑی زیادتی سے کم نہیں۔ اطلاعات ہیں کہ وزیراعظم نے پنڈورا لیکس کی تحقیقات کے لئے انسپکشن کمیشن کے تحت ایک اعلیٰ سطحی سیل قائم کیا ہے۔ یہ سیل پنڈورا لیکس میں شامل تمام افراد سے جواب طلبی کرے گا اور جلد حقائق قوم کے سامنے رکھے گا۔ تحقیقاتی کمیشن کی سربراہی خود وزیراعظم عمران خان کریں گے جس میں آف شور کمپنیوں کے سرمائے کی قانونی حیثیت کی انکوائری کی جائے گی۔ چلو دیکھتے ہیں کہ وزیراعظم کی سربراہی میں یہ تحقیقاتی کمیشن کیسے کام کرتاہے کیونکہ خان صاحب نے عوام کو گھبرانا نہیں کی جو نصیحت کی تھی وہ دن ہے اور آج کا دن، مجال ہے کہ ایک دن بھی ایسا گزرتا جب مہنگائی میں اضافہ نہ ہوا ہو یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم جب بھی کسی چیز کا نوٹس لیتے ہیں تو عوام خوفزدہ ہوجاتے ہیں کہ اب ان کی خیر نہیں اور ان کے ساتھ معاملہ مزید تلخ ترین ہوتا چلا جاتا ہے۔
تاہم پنڈورا پیپرز سامنے آنے کے بعد ڈاکٹر معید یوسف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ لندن میں جائیدادیں خریدنے والوں میں پاکستانی 5ویں نمبر پر ہیں اور ترقی کے تقریباً ہر اعشاریے میں پاکستانی آخری نمبروں پر جس کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس ملک کی اشرافیہ واقعی پاکستان میں صرف اپنی قبر ہی رکھنا چاہتی ہے۔ یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل روسی صدر نے پاکستانیوں کے بارے میں کچھ یہی الفاظ کہے تھے کہ پاکستانی سوائے قبروں کے اپنا سب کچھ بیرون ملک رکھتے ہیں۔ پاکستانیوں بارے دنیا کا یہ منفی امیج ہمارے لئے باعث تشویش ہونا چاہیے لیکن ہمارے ہاں اخلاقیات اس قدر زوال پذیر ہیں کہ نفسانفسی کے اس دور میں سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ اگر کسی کی کوئی ویڈیوز لیکس ہوتی ہیں تو اس سیاسی جماعت کی نائب سربراہ اسے ترجمان کا ذاتی فعل قرار دیتی ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ اگر سیاسی قیادت کی اخلاقیات کا یہ معیار ہے تو پھر اس سے وطن عزیز میں دیوالیہ پن اور اخلاقی پستی کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہ جاتا۔ اسلام کے نام پر قائم کئے جانے والے ملک میں 22کروڑ عوام کے ساتھن جو اخلاقیات سوز سلوک پچھلی کئی دہائیوں سے روا رکھا جارہا ہے اس کے باعث اب وہ کومے میں چلے گئے ہیں اسی لئے تو حکومت کے نزدیک ہر بیماری کی دوا صرف اور صرف قیمتوں میں اضافہ ہے اسی لئے بجلی کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر ایک روپیہ 60پیسے اضافہ کرکے عوام کو روزانہ کی بنیادوں پر تبرک دیا جارہاہے کہ جیسے حکومت کی یہ سائیکی کہ ا گر عوام کو تبرک (مہنگائی) نہ دیا گیا تو اس کا کہیں دم ہی نہ گھٹ جائے اسی لئے تو عوام کو ’’توانا‘‘ رکھنے کے لئے مہنگائی کا تبرک فرض سمجھ کر دیاجارہا ہے۔ ان حالات میں جب عوام گردن تک مسائل کے انبار میں دھنس چکے ہیں تو ایسے میں پنڈورا لیکس کی صاف شفاف فوری تحقیقات کرکے ذمہ داران کو سزا دیکر اور لوٹی ہوئی دولت واپس لاکر عوام کو کسی طور ریلیف فراہم کیا جاسکتا ہے۔ اگر حکومت نے اب بھی عوام سے گھبرانا نہیں کا مذاق جاری رکھا تو پھر اسے یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اس کی ’’داستان بھی نہ ہوداستانوں میں‘‘ والا معاملہ ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: