اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کدھر ہے؟||سارہ شمشاد

اگر ہم یہاں حکومت کی جانب سے عوام کو فراہم کئے جانے والے ریلیف کی فہرست مرتب کریں تو افسوس کے ساتھ حکومت کے ہاتھ بالکل ہی خالی نظر آئیں گے کیونکہ منافع خور مافیا تو حکومت کے ہاتھوں سے پہلے ہی نکل چکا ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وطن عزیز میں حکومت کی جانب سے ہر شے کی قیمتیں تو اب ثواب سمجھ کر بڑھائی جانے لگی ہیں کہ اب کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب حکومت خود کو اس نیک کام سے محروم رکھ کر ثواب دارین حاصل نہ کرے۔ اسی لئے تو اب چینی اور پٹرول کی قیمتیں سینکڑے سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہیں اور قیمتوں میں اضافے کا یہ رجحان مزید طویل عرصے تک جاری رہنے کی توقع ہے۔ کہا جارہا ہے کہ آلو بھی جلد ہی اس سینکڑے یعنی 100کی کیٹیگری میں جگہ بنالے گا جبکہ آٹے کی قیمتوں کے بارے میں بھی کچھ یقین سے اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بھی تاریخ میںپہلی مرتبہ 3ہندسے حاصل کرنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کررہا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق حکومت عوام پر پٹرول کی صورت میں ایک اوربم گراکر ’’جنت‘‘ کمانے کی تیاریاں ہیں جبکہ وہ عوام کو اس کے برعکس دنیا میں ہی دوزخ کی تپش محسوس کروانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے تاکہ عوام کو آخرت میں اپنے اعمال نامے کو دیکھ کر کوئی زیادہ پریشانی نہ ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے کپتان صاحب حسب روایت خاموش ہیں یعنی عوام گھبرائیں تو بالکل بھی نہیں لیکن ہاں یہ ضرور یاد رکھیں کہ سکون صرف قبر میں ہے۔ اس لئے اگر ڈالر کی اڑان اونچی ہوتی ہے تو ہوجائے اس سے کسی کو کوئی لینا دینا نہیں۔ ڈالر غیروں کی کرنسی ہے، عوام کی تھوڑی ہے، غریب غرباء پر اس کا کوئی اثر پڑے۔ ویسے یہ تو ماننا ہی پڑے گا کہ اس دوران حکومت میں اگر کسی چیز نے ترقی کی ہے تو وہ صرف اور صرف ڈالر ہی ہے جس کی قیمت میں اس تیزی کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ وزیر خزانہ سٹیٹ بینک سے اس حوالے سے مداخلت کی باتیں کرتے نظر آرہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بعض معاشی پنڈت تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس مرتبہ ڈالر 200کا ہندسہ عبور کرتا نظر آرہا ہے یعنی حکومت جس رفتار سے قرضے اتارنے کے دعوے کررہی ہے وہ اس سے ڈبل رفتار سے مزید بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں جس کے باعث پاکستانی معیشت کے کریش ہونے کے چانسز ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں اس لئے حکومت کی کامیابی کے ڈونگرے بجانے والوں کو یہ بات ازبر کرلینی چاہیے کہ خان صاحب کی کامیابیوں پر ڈفلی بجانے کی بجائے عوامی مسائل کا ادراک کریں کیونکہ حکومت کی صرف ایک مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکامی اس کی تمام کامیابیوں کو دیمک کی طرح چاٹ جائے گی، یاد رکھنا چاہیے کہ بھوک تہذیب کے آداب مٹادیتی ہے اس لئے حکومت کو اپنے حالات پر خود ہی غور کرنا چاہیے ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی والا معاملہ بھی ہوسکتا ہے۔
اگر ہم یہاں حکومت کی جانب سے عوام کو فراہم کئے جانے والے ریلیف کی فہرست مرتب کریں تو افسوس کے ساتھ حکومت کے ہاتھ بالکل ہی خالی نظر آئیں گے کیونکہ منافع خور مافیا تو حکومت کے ہاتھوں سے پہلے ہی نکل چکا ہے۔ ایک دور تھا جب حکومتیں قیمتوں کا تعین کیا کرتی تھیں لیکن اب تو بڑے بڑے مافیاز قیمتوں کا تعین کرکے حکومت کو دیتے ہیں۔ حکومت کی مجال نہیں کہ وہ اس پر ذرا سی بھی چوں چراں کرنے کی جرات کرسکے۔ اسی لئے تو حکومت نے عوام کو مہنگائی کے رحم و کرم پر چھوڑدیا ہے کہ وہ اپنی ہر لڑائی خود ہی لڑیں۔ اسی لئے تو منافع خور مافیا عوام کو مہنگی مہنگی چیزیں فروخت کرنے کے باوجود اس کی کوالٹی کو یقینی بنانے کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے اور وہ دیں تو کیوں کہ حکومت کو عوام کی صحت اور جان کی پروا تھوڑی ہے کہ وہ منافع خور مافیاز سے یہ پوچھنے کی بھی زحمت گوارہ کرے کہ بھئی ڈبل سے بھی زائد آپ منافع کمارہے ہیں عوام کو ذرا کوالٹی پراڈکٹ بھی مہیا کرنے کی طرف توجہ دیں۔
وزیراعظم عمران خان جو یورپ کے نظام اور سسٹم کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے تو کیا انہوں نے اس ایشو کی طرف بھی توجہ دینے کی زحمت کی ہے کہ وہ عوام کو فراہم کی جانے والی اشیائے خوردنی سمیت دیگر چیزوں کی کوالٹی کو بہتر سے بہتر بنائیں گے اور اس پر کسی قسم کا کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے۔ اب کوکنگ یا گھی کو ہی لے لیجئے اگر اس کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کروایا جائے تو اچھے سے اچھے برانڈ کی کوالٹی پر بھی انگلیاں اٹھیں گی۔ یہ معاملہ بالکل ایسا ہی ہوگا کہ جب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے منرل واٹر کی کوالٹی کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا تھا۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ آج پاکستان کی عوام مہنگی ترین چیزیں خرید کر بھی بدترین چیزیں استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی بڑی وجہ حکومت کی عوام کی زندگیوں، صحت سے مکمل لاتعلقی ہے اسی لئے تو عوام کوUn-hygenic چیزیں کھلائی جارہی ہیں اس سے حکمران طبقے کو قطعاً کوئی سروکار نہیں۔ اندازہ کیجئے کہ ایک ٹشو رول یا ٹوائلٹ پیپر جو پاکستان میں برطانیہ کی نسبت نہ صرف مہنگا ملتا ہے بلکہ اس کی کوالٹی انتہائی ناقص ہے۔ یہاں میں کس کس کمپنی کا نام لوں کہ یہ ٹشو بنانے والی کمپنیاں قیمتیں بڑھانے کو ہی اپنی زندگی کا واحد مقصد بنائے ہوئے ہیں۔ اسی طرح دالوں، چاول، بیکری آئٹم، الیکٹرانکس، آئل نجانے کس کس چیز کا یہاں ذکر کروں، یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اسی لئے تو وطن عزیز میں صحت کے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں کہ کسی کو عوام کی زندگیوں سے کوئی سروکار نہیں۔
ویسے پاکستان میں ایک کوالٹی کنٹرول انشورنس ڈیپارٹمنٹ نامی ادارہ بھی موجود ہے اور ہر مہینے قومی خزانے سے لمبی لمبی تنخواہیں بنا کچھ کئے وصول کرتا ہے۔ اب ذرا کوالٹی کنٹرول انشورنس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہمیں یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ ان کے شعبے کی سالانہ کارکردگی کیا ہے بلکہ وہ یہی بتادیں کہ ان کا شعبہ کرتا ہی کیا ہے۔ جس کے ذمے کون سی ذمہ داریاں ہیں اور اس نے پچھلے ایک برس میں جو جو کام کئے ہیں وہ ذرا عوام کے سامنے تو پیش کریں۔ آخر کو یہ ادارہ قوم کے خون پسینے کی کمائی سے تنخواہیں وصول کرتا ہے اور یہ سرکاری ملازم عوام کے خادم ہیں اس لئے عوام کو پورا پورا حق ہے کہ وہ ان سے جواب طلبی کریں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں ادارے تو موجودہیں جن کا واحد مقصد خزانے سے ہر ماہ بھاری بھرکم تنخواہیں وصول کرنا ہے انہیں عوام کی خدمت اور اپنی ذمہ داریوں سے چونکہ کوئی لینا دینا نہیں ہے اسی لئے تو اشیا کی کوالٹی تو خراب ہورہی ہے سو ہورہی ہے بلکہ اگر عوام کو کوئی دونوں ہاتھوں سے بھی لوٹے تو حکومت کو کیا، اس کی جیب سے تھوڑا کچھ جاتا ہے۔ پاکستان میں عوام کو جب خراب کوالٹی کی چیزیں فراہم کی جاتی ہیں اس پر سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ ان سطور کے ذریعے میں وزیراعظم عمران خان سے اپیل کروں گی کہ وہ کم از کم ہفتے میں ایک ادارہ کی کارکردگی کے حوالے سے میٹنگ لیں تو بہت سے معاملات ویسے ہی کھل کر سامنے آجائیں گے۔ بہتر یہی ہوگا کہ حکومت عوام کو صرف یہ بتانے پر ہی اکتفا نہ کرے کہ سکون صرف قبر میں ہے بلکہ عوام کی حالت زار پر کچھ تو رحم کھائے اور انہیں مہنگی چیزوں کے ساتھ کم از کم اچھی کوالٹی کو تو یقینی بنائے۔ یہاں تازہ دودھ کی بات کی جائے تو اس میں دودھ کم اور پانی زیادہ ہوتا ہے اسی طرح لال مرچ میں اینٹوں کا برادہ عوام کو کھلے عام بیچا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بچوں کو جو سلانٹی اور کرکرے کھلائے جاتے ہیں وہ تو کسی طور بھی معیاری نہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ کوالٹی کنٹرول انشورنس ڈیپارٹمنٹ نامی کوئی ادارہ وطن عزیز میں موجود ہے تو پہلے سامنے آئے اور پھر اپنی کارکردگی بھی عوام کے سامنے رکھے کیونکہ عوام کو جس طرح کی ناقص، غیرمعیاری Un-hygenic اشیا کھلائی جارہی ہیں وہ کسی طور بھی بین الاقوامی معیار کے برابر نہیں۔ اس سے پہلے کہ عوام ان بڑی بڑی برانڈڈ کمپنیوں کی ناقص اور غیرمعیاری کوالٹی کے خلاف سڑکوں پر آئیں، بہتر ہوگا کہ وہ خود ہی اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں وگرنہ عوام ان کا بائیکاٹ کرنے کا مکمل استحقاق رکھتے ہیں۔ اگر کوالٹی کنٹرول انشورنس نامی ڈیپارٹمنٹ کچھ نہیں کرسکتا تو حکومت کو اسے خزانے پر بوجھ سمجھتے ہوئے فی الفور بند کردینا چاہیے یہی وقت کا تقاضا ہے کہ کم از کم خزانے پر اضافی بوجھ میں کسی طور ہی سہی، کمی تو آئے گی۔

۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: