مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عزت کی موت مرنے والا جنگجو اور سلینا کریم کی کتاب||محمد عامر خاکوانی

یہ کتاب اس قابل ہے کہ ہمارے علمی ، صحافتی حلقوں میں زیربحث آئے۔ اس کا اردو کے ساتھ سندھی، پشتو جیسی زبانوںمیں ترجمہ بھی ہونا چاہیے۔ سلینا کریم نے ایک بڑی قومی خدمت کی ہے

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ممتا محقق، مورخ اور مصنف ڈاکٹر صفدر محمود کے انتقال کی خبر اورمعروف ریسرچ سکالر سلینا کریم کی کتاب مجھے ایک ہی دن ملی۔ ڈاکٹر صاحب کی علالت کا کچھ عرصے سے علم تھا، یہ پتہ چلا کہ وہ مہلک مرض کا شکار ہیں۔ کچھ عرصہ وہ امریکہ میں علاج کی غرض سے مقیم رہے، پھر انتقال سے تین ماہ پہلے لاہور واپس آ گئے تھے۔ اس کا علم نہ ہوسکا۔ویسے بھی ملاقات مشکل تھی کہ ڈاکٹر صفدر محمود بیماری کی وجہ سے اپنی یاداشت کھو بیٹھے تھے۔ کورونا کے ان سیاہ، تکلیف دہ ایام میں بہت سے محترم اہل علم رخصت ہوئے ہیں ۔ علم وادب کی دنیا پر یہ پچھلے ڈیڑھ دو برس بہت بھاری گزرے۔
ڈاکٹر صفدر محمود کا اپنا میدان تھا اور اس میں ان کا درجہ کسی لیجنڈ سے کم نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب بیوروکریٹ رہے اور سینئر پوزیشن پر ریٹائر ہوئے۔ انہوں نے دوران ملازمت ہی خاصا کچھ کام کر ڈالا تھا۔ وہ ڈکٹیٹروں کے ادوار میں قلمی نام سے کالم بھی لکھتے رہے، غالباً ان مضامین کا مجموعہ بھی شائع ہوا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے مزید جم کر کام کیا اور کئی شاندار کتب تحریر کیں۔ ان کی ابتدائی کتابیں بھی اپنے انداز میں منفرد حیثیت کی حامل ہیں۔
’’مسلم لیگ کا دور حکومت ‘‘ایسی کتاب ہے جسے پڑھنے کا بہت سے نوجوانوں کو مشورہ دیا ۔جس پبلشنگ ہائوس نے یہ شائع کی، وہ اب بند ہوچکا، لاہور کے کتاب میلوں میں مگرایک سٹال سے بچا کھچا سٹاک فروخت کیا جاتا تھا، یہ کتاب لے کر تین چار دوستوں کو گفٹ کی۔ اس میں 1947سے لے کر 1958تک (قبل از ایوب خان مارشل لائ) کے برسوں کا احاطہ کیا گیا۔ اس زمانے پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کی یہ کتاب پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیسی کیسی سیاسی قلابازیاں کھائی گئیں اور محلاتی سازشوں نے کیا گل کھلائے؟
’’پاکستان : تاریخ وسیاست‘‘ ان کی ایک مشہور کتاب ہے، اس میں 1947سے 1988 تک پاکستانی سیاست اور تاریخ کا جائزہ لیا گیا۔ بعد کے ایڈیشنوں میں اسے اپ ڈیٹ بھی کیا گیا۔ اسی دوران ان کی سانحہ مشرقی پاکستان پر کتاب ’’پاکستان کیوں ٹوٹا؟‘‘شائع ہوئی، یہ بھی اہم تصنیف ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے پچھلے بیس برسوں میں درجنوں کتابیں لکھی ہیں۔چند ایک انگریزی میں چھپیں، جبکہ بعض تالیف اور ترجمہ بھی تھیں، جیسے ’’سدا بہار‘‘اردو کے بہترین مزاح نگاروں کا انتخاب تھا،’’تقسیم ہند، افسانہ اور حقیقت‘‘ ان کا ترجمہ تھا۔ڈاکٹر صاحب دو عشروں سے زائد عرصے سے اردو اخبار میں کالم لکھ رہے تھے۔
’’امانت‘‘، ’’روشنی‘‘،’’ حکمت‘‘اور درد آگہی ان کے مختلف مضامین اور کالموں کے مجموعے تھے۔ پچھلے سال ان کی دو اہم کتابیں ’’سچ تو یہ ہے۔‘‘ اور ’’اقبال، جناح ،پاکستان‘‘ شائع ہوئیں۔ اپنی کم آمیزی اور کسی حد تک تساہل کی وجہ سے میرا ملنے جلنے کا حلقہ محدود ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود سے زیادہ ملاقاتیں نہیں ،مگرڈاکٹر صاحب کی علمیت اور ان کی محنت وکمٹمنٹ کا ہمیشہ مداح رہا ہوں۔
ان سے فون پر اکثر بات ہوجاتی تھی۔ کئی بار کسی کالم کے حوالے سے ان کا فون آ جاتا ۔اسلام، پاکستان، تحریک پاکستان اور قائدین پاکستان خاص طور پر اقبال اور قائداعظم کی محبت ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے تن تنہا ان حوالوں سے کسی بڑے ادارے سے زیادہ کام کیا۔وہ ایک زبردست جنگجو تھے جنہوں نے عزت کمائی اور شاندار انداز میں علمی معرکے لڑے، فتح یاب ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب کی آخری دونوں کتابیں ’’سچ تو یہ ہے ‘‘ اور ’’اقبال، جناح، پاکستان‘‘بہت اہم ہیں۔
’’سچ تو یہ ہے‘ ‘ میں ڈاکٹر صفدر محمود نے قائداعظم کے حوالے سے کئی اہم فتنوں اوربے بنیاد شوشوں کا بھرپور اور مدلل جواب دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے یہ دونوں کتابیں بڑی شفقت سے بھجوائیں اوربار بار فون کر کے ان کے ملنے کا پوچھتے رہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کی کتابیں لاہور کے معروف اشاعتی ادارے قلم پبلی کیشنز نے شائع کی ہیں، اس کے روح رواں علامہ عبدالستار عاصم ہیں۔
عبدالستار عاصم صاحب رات دس گیارہ بجے مجھے گھر کتاب دینے آئے ، انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے آج ہی کتاب پہنچانے کی اتنی تاکید کی کہ میں نے صبح کا انتظار نہیں کیا۔اللہ ڈاکٹر صفدر کی مغفرت فرمائیں، چھوٹو ں پر شفقت اور زرہ نوازی کا یہ قرینہ ڈاکٹر صاحب کے صوفی مزاج کی وجہ سے تھا۔ انہیں تصوف سے گہری دلچسپی تھی اور اپنے کالموں میں بسا اوقات اس حوالے سے بھی لکھتے۔ لاہور کے ممتازصوفی بزرگ قبلہ سرفراز شاہ صاحب سے بھی ان کی ملاقاتیں رہیں ۔ سرفراز شاہ صاحب کی کتابوں پر بھی ڈاکٹر صاحب نے لکھا۔ پچھلے سال مجھے کورونا ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے بڑی محبت کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا۔
وہ کورونا کے حوالے سے معروف ہومیو پیتھ ڈاکٹر نیاز احمد کا اپنے کالموں میں تعارف کرا چکے تھے۔ ڈاکٹر نیاز کا قبلہ سرفراز شاہ صاحب سے بھی نیاز مندانہ تعلق ہے ،اس لئے میری بھی ان سے واقفیت تھی۔ ڈاکٹر صفدر کے مشورے سے میں نے ابتدا ہی سے ہومیو پیتھک ادویات استعمال کیں ، الحمد للہ بہت نفع ہوا۔ ڈاکٹر صاحب وضع دار آدمی تھے، بڑے شائستہ لب ولہجے میں بات کرتے۔
یہ تحریر لکھتے ہوئے میرے کانوں میں ڈاکٹر صفدر محمود کی آواز گونج رہی ہے۔ان کا دم غنیمت تھا۔ تحریک اور تاریخ پاکستان کے حوالے سے کسی بھی نکتہ پرہم الجھتے تو انہیںواٹس ایپ میسیج کر دیتے یا فون کر لیتے۔ ڈاکٹر صاحب فوری سلجھا دیتے یا کسی خاص کتاب کی طرف رہنمائی فرما دیتے۔ ان کی یاداشت غیر معمولی تھی، چیزیں اپنی جذئیات کے ساتھ یاد رہتیں۔ قائداعظم کی شخصیت کے ڈاکٹر صفدر محمود دل سے مداح تھے۔اپنی کتاب ’’سچ تویہ ہے ‘‘ کے پہلے صفحے پر انہوں نے لکھا تھا،’’قائداعظم اور تاریخ پاکستان کے حقائق مسخ کرنے والوں کو تاریخی شواہد کی بنا پر مدلل جواب۔ اس کتاب کے مضامین کی فہرست میں سے چند کے عنوان لکھ رہا ہوں تاکہ اندازہ ہوجائے کہ یہ کتنی مفید کتاب ہے۔
’’خطبہ الہ باد ، قرارد اد پاکستان اور مخالفین کے بے بنیاد الزامات‘‘،’’ قائداعظم اور سیکولرازم‘‘، ’’ستائیسویں رمضان ، قیام پاکستان اور غلط بیانیاں‘‘، ’’قائداعظم لسانی مسئلہ ، قومی زبان اور معترضین‘‘،’’ اقبال جناح اور مذہبی کارڈ‘‘، قائداعظم ، جگن ناتھ آزاد اور قومی ترانہ … سب سے بڑا جھوٹ ‘‘ ، ’’تاریخی افسانے‘‘، ’’قائداعظم اور عید‘‘،’’ڈاکٹر مبارک علی کا قرارداد پاکستان پر بہتان‘‘، ’’چودھری رحمت علی کی برسی اور لفظ پاکستان‘‘، ’’قائداعظم ، ختم نبوتﷺ اورعید میلاد النبیﷺ‘‘،’’ قائداعظم کے آخری ایام اور سازشی افسانے‘‘، ’’مظلوم قائداعظم ‘‘،’’اقبال اور جناح‘‘ ، ’’قائداعظم اور سوشلزم‘‘…۔
ان عنوانات سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ڈھائی سو کے لگ بھگ صفحات کی یہ کتاب کتنی اہم گتھیاں سلجھاتی ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود کوان امور پر بار بار لکھنا پڑا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک معروف سیکولر، الٹر اسیکولر طبقہ بار بار یہی مغالطے اور کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ قائداعظم سے ہر بار وہ الفاظ منسوب کر دئیے جاتے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ اور ثبوت ہی نہیں۔
کبھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے رائٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے فلاں فلاں الفاظ کہے، تحقیق کرنے پر علم ہوتا ہے کہ ایسا کچھ تھا ہی نہیں۔ کبھی کسی اور جگہ پر قائد کی کسی تقریر سے اقتباس دیا جاتا ہے، تحقیق پر پتہ چلتا ہے کہ یہ اقتباس فرضی اور جعلی ہے۔ کچھ تاریخی قصے خواہ مخواہ مشہور کر دئیے گئے ہیں، جبکہ ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے سب سے بڑا کام یہی کیا کہ کھرے کو کھوٹے سے الگ کر دیا۔ اللہ ان کی محنت قبول فرمائے اور مغفرت عطا فرمائے۔ حق تو یہ ہے کہ ان کے بعد دور دور تک ویسی محنت اور کمٹمنٹ سے کام کرنے والا نظر نہیں آ رہا۔
ایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے جو شائد کبھی نہیں پر ہوسکے گا۔ کالم کی ابتدا میں سلینا کریم کی کتاب کا ذکر آیا۔ سلینا کریم نوٹنگم ، انگلینڈ میں مقیم معروف ریسرچ سکالر ہیں ، ان کے بارے میں ڈاکٹر صفدر محمود کے کالموں ہی سے پتہ چلا تھا۔ سلینا کریم نے ایک بڑاکام یہ کیا کہ قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کی کوششوں کا نہایت ٹھوس علمی انداز میں رد کیا ہے۔ پاکستانی عدالتی تاریخ کے ایک بدنام جج جسٹس منیر نے اپنی کتاب’’ جناح سے ضیا‘‘میں قائداعظم سے ایک ایسا اقتباس منسوب کیا جو سلینا کریم کی تحقیق سے بے اصل اور جعلی نکلا۔
سلینا بی بی نے اس موضوع پر تحقیق کی تو انہیں بہت کچھ ایسا لگا جس کی اصلاح کی جانی چاہیے۔ انہوں نے سیکولر جناح اینڈ پاکستان نامی کتاب لکھی۔ اب اس کا چوتھا اور زیادہ تفصیلی ایڈیشن لاہور کے یوایم ٹی پریس نے شائع کیا ہے۔Secular Jinah & Pakistan(what the nation doesn,t know) نامی اس کتاب میں سلینا کریم نے کمال کر دیا ہے۔ 639 صفحات پر مشتمل اس شاندار کتاب پر تفصیل سے لکھا جانا چاہیے۔
یہ کتاب اس قابل ہے کہ ہمارے علمی ، صحافتی حلقوں میں زیربحث آئے۔ اس کا اردو کے ساتھ سندھی، پشتو جیسی زبانوںمیں ترجمہ بھی ہونا چاہیے۔ سلینا کریم نے ایک بڑی قومی خدمت کی ہے، مجھے حیرت ہے کہ پچھلے چند برسوں کے دوران انہیں کسی قسم کا قومی ایوارڈ نہیں دیا گیا۔ بانی پاکستان پر ایسی غیر معمولی کتاب لکھنے والے کو کوئی بڑا صدارتی ایوارڈ ملنا چاہیے۔ اس کتاب پر ان شااللہ تفصیل سے لکھنا مجھ پر قرض ہے۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: