اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بن کھلے مرجھانے والا انقلاب||حیدر جاوید سید

کہنے کو تو وزیر داخلہ نے بھی کچھ کہا ہے لیکن اس کہے کا ذکر رہنے دیجئے۔ یہ اتوار کو انقلاب لانے کا پرعزم اعلان اور سوموار کو مفاہمت و مزاحمت کی بجائے شفاف انتخابات کا تقاضہ، حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھاگئے والا معاملہ ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتوار کو پی ڈی ایم کا کراچی میں جلسہ ہوا، وہی جلسہ جس میں خواتین کی شرکت پر پابندی تھی۔ مقررین نے انقلاب کے لئے لانگ مارچ، دھرنے، جلسے اور جلوسوں کے ہتھیار آزمانے کا اعلان کیا، محبِ مکرم قائد انقلاب مولانا فضل الرحمن کے ولولہ انگیز خطاب نے سماں باندھ دیا۔ قائد محترم میاں نوازشریف "کامریڈ” کا ویڈیو لنک سے خطاب بھی بے مثال تھا۔ جلسہ کے بعض مقررین (ان میں سندھ کے مذہبی شناخت رکھنے والے مولانا صاحبان شامل تھے) نے سندھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔
اس کی ضرورت بھی تھی اور حق بھی۔ جلسہ سے ایک دن قبل پی ڈی ایم کے قائدین نے پیپلزپارٹی پر تابڑتوڑ حملے کئے۔
پیپلزپارٹی بھی ایک ایک کرکے حملوں کا جواب دے رہی ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل ایک بات عرض کرنا ہے وہ یہ کہ سال 1979ء سے وفاق کے ہر محکمے اور ادارے کا سندھ اور پنجاب سے رویہ مختلف ہے اور اس پر دو آراء بھی نہیں لیکن بلاول بھٹو نے سکھر اور لاہور کے اپوزیشن لیڈر کے حوالے سے جو کچھ کہا نرم سے نرم لفظوں میں یہ مناسب نہیں ہے۔ کیوں مناسب نہیں اس بارے تفصیل سے عرض کیا جاسکتا ہے مگر مختصراً دو باتیں اولاً یہ کہ پیپلزپارٹی اطلاعاتی محاذ پر (ن) لیگ سے لگ بھگ ایک صدی پیچھے ہے۔ ثانیاً یہ کہ اس کے رہنماوں کو محکموں اور اداروں کو ’’رام‘‘ کرنے اور ان میں اپنی جگہ بنانے کے "گُر” نہیں آتے۔
چلیں ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ پی ڈی ایم نے اتوار کو کراچی میں منعقدہ اپنے جلسہ میں ملک کی عمومی صورتحال کا جو نقشہ کھینچا اور جس طرح لاکھوں لوگ لے جاکر اسلام آباد میں انقلاب برپا کرنے کی نوید دی اس پر بہت خوشی ہوئی۔
فقیر راحموں تو رات گئے تک کہتے رہے دیکھا پیپلزپارٹی کے بغیر بھی انقلاب لانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ جب تحریک چلے گی تو حکمران اتحاد کے ساتھ پیپلزپارٹی کا بھی صفایا ہوجائے گا۔
اور بھی بہت کچھ کہا اس میں سے "کچھ کچھ” رقم کرنے میں امر مانع یہ ہے کہ پتہ نہیں فقیر راحموں کس وقت یہ کہہ دیں کہ آف دی ریکارڈ گفتگو کو افشا کرنا صحافتی اصولوں کے خلاف ہے۔ البتہ یہ ضرور بتائے دیتے ہیں کہ فقیر راحموں نے انقلاب کی جدوجہد میں عملی طور پر شرکت کے لئے سوموار کی صبح اپنا بیگ تیار کرلیا تھا۔
دو جوڑے کپڑے، 4کتابیں اور موبائل چارجر سنبھال لیا گیا تھا۔ ہائے مگر دل کے ارماں بیانوں میں بہہ گئے۔
پی ڈی ایم کے جلسہ کے ٹھیک 24گھنٹے بعد قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور (ن) لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے اسی کراچی میں دبنگ انداز میں کہا
’’ہم مفاہمت یا مزاحمت نہیں 2023ء کے شفاف انتخابات چاہتے ہیں‘‘۔
اس بیان بلکہ ارشادِ جاتی امراء میں سمجھنے والوں کے لئے نشانیاں بہت ہیں ان نشانیوں میں اُس ملاقات کا کوئی ذکر نہیں جو اتوار اور پیر کی درمیانی شب کراچی کے ایک ہوٹل میں جس کی بغلی سڑک ریلوے سٹیشن کی طرف جاتی ہے، ہوئی تھی۔
یقین کیجئے میں قطعاً یہ نہیں کہہ لکھ رہا کہ سابق وفاقی وزیر اور (ن) لیگ خیبر پختونخوا کے صدر امیر مقام کا سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کے خلاف کھڑکی توڑ بیان اس ملاقات کا نتیجہ ہے۔ امیر مقام بھلے آدمی ہیں کبھی وہ ہمارے دہلوی سرکار کے پستول بدل بھائی ہوا کرتے تھے اس لئے اب بھی ان کی عزت و احترام واجب ہے۔
البتہ یہ مفاہمت اور مزاحمت کی بجائے 2023ء کے انتخابات کو شفاف بنوانے کی یقین دہانی کے طلبگار میاں شہباز شریف ہی اصل قصہ بتاسکتے ہیں۔
یقیناً یہ اصل قصہ جیالوں کے اس الزام سے مختلف ہوگا کہ (ن) لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان میاں نوازشریف کی روانگی کے پس منظر میں یہ طے پایا تھا کہ حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیئے جائیں گے۔
خیر چھوڑیں ہفتہ اتوار کو پی ڈی ایم کے رہنما کراچی میں یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ اگر پیپلزپارٹی مارچ میں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے معاملے میں ساتھ دیتی تو ملک اور عوام کو انصافی حکومت سے نجات مل سکتی تھی لیکن پیپلزپارٹی نے اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرلی۔
غالباً اس ڈیل میں پیپلزپارٹی نے یہ بھی مان لیا کہ خورشید شاہ کی ضمانت نہیں ہوتی تو نہ ہو کچھ "معززین” انہیں نسلی انتقام کا نشانہ بناتے ہیں تو بناتے رہیں۔ سوموار کو میاں شہباز شریف نے ایک بار پھر قومی حکومت کا دانہ بھی ڈالا۔
فرمایا ملک کو درپیش چیلنجز کا حل صرف قومی حکومت ہے۔ کوئی ایک جماعت صورتحال کو نہیں سنبھال سکتی۔
تکرار ناگوار نہ گزرے تو اب بیان کے دونوں حصوں کو ملاکر پڑھتے ہیں
’’مفاہمت اور مزاحمت نہیں 2023ء کے شفاف انتخابات چاہتے ہیں، ملک کو درپیش چیلنجز کا حل قومی حکومت ہے کوئی ایک جماعت صورتحال کو نہیں سنبھال سکتی‘‘۔
سادہ آسان اور عوامی زبان میں یہ کہہ لیجئے کہ ’’وہ پڑا ہے انقلاب‘‘ خاص اردو میں یوں کہ ’’بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا‘‘۔
اچھا یہ قومی حکومت والا راگ اگر پیپلزپارٹی نے الاپا ہوتا تو اس وقت طلعت حسین سے استاد مشتاق احمد اور مجاہد اینکر سے عصری صحافت کے رام داس تک نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہوتا۔
استاد مشتاق احمد آجکل مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں اور سارے گولے پیپلزپارٹی پر پھینک رہے ہیں۔ چونکہ ہمارے محبوب دوست ہیں اس لئے سات خون معاف ہیں۔ ارے ایک بار پھر ساعت بھر کے لئے رُکیئے، وہ ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری نے میاں شہباز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ "شہباز شریف سیاست چھوڑدیں، وکیلوں کے ساتھ وقت گزاریں، مقدمات کا فیصلہ جلد ہوگا‘‘۔
کہنے کو تو وزیر داخلہ نے بھی کچھ کہا ہے لیکن اس کہے کا ذکر رہنے دیجئے۔ یہ اتوار کو انقلاب لانے کا پرعزم اعلان اور سوموار کو مفاہمت و مزاحمت کی بجائے شفاف انتخابات کا تقاضہ، حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھاگئے والا معاملہ ہے۔
خیر اب کالم کے آخری حصے میں یہ بھی سن لیجئے کہ ہمارے محبوب وزیراعظم نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے ’’حکومت کی اولین ترجیح عام آدمی کا تحفظ اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنانا ہے‘‘۔ ادب کے ساتھ عرض کریں، مرنہ جاتے گر اعتبار ہوتا۔ اطلاع یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس 13ستمبر کو بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ صدر مملکت چوتھے پارلیمانی سال کے آغاز پر خطاب فرمائیں گے۔ کریں خطاب ہمیں اور آپ کو کیا، کونسا ان کے خطاب سے دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی یا ڈن ہل سستی ہوگی۔
ویسے آجکل ہمارے سردار عثمان علی خان بزدار بیانوں کے چوکے چھکے مار رہے ہیں۔ کل فرمارہے تھے
’’کراچی کا ناکام جلسہ عقل و بصیرت سے عاری، کراچی کرچی اتحاد کیلئے نوشتہ دیوار ہے‘‘۔
عرض صرف یہ کرناہے کہ جس بھی افسر نے یہ بیان لکھا ہے وہ سردار صاحب کو آسان اردو میں سمجھا بھی دے کہ کیا کہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: