اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تذکرہ جہانیاں||ظہور دھریجہ

برصغیر میں دین اسلام کی ترویج کیلئے بزرگان دین کی خدمات تاریخ کا حصہ ہے۔ وسیب کے مرکزی شہر ملتان کو مدینتہ الاولیاء کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈیرہ غازیخان کی سرزمین بھی علم و عرفان سے خالی نہیں ہے۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برصغیر میں دین اسلام کی ترویج کیلئے بزرگان دین کی خدمات تاریخ کا حصہ ہے۔ وسیب کے مرکزی شہر ملتان کو مدینتہ الاولیاء کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈیرہ غازیخان کی سرزمین بھی علم و عرفان سے خالی نہیں ہے۔
دوسرے نامور بزرگان کے ساتھ ساتھ حضرت غلام جہانیاں کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ کی پیدائش 1908ء میں ہوئی اور آپ کا نام سید جلال الدین بخاری المعروف مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی نسبت سے غلام جہانیاں رکھا گیا۔ آپ کا تعلق خاندان قریش کے سلسلہ شطاریہ سے ہے۔ اڈھائی برس کی عمر میں آپ کے والد بزرگوار قاضی محمد شریف وصال کر گئے۔ آپ کی والدہ نے تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔
پرائمری کرنے کے بعد آپ نے مولانا غلام رسول آف پھلن سے فارسی پڑھنا شروع کی اور گلستان سعدی کے اسباق پڑھے۔ بعدازاں آپ نے لاہور کے مدرسہ دارالعلوم نعمانیہ سے علم، فنون، صرف نحو، منطق، علم ہیئت، ریاضی، علم عروض، علم عقائد، علم تفسیر، حصول تفسیر، علم حدیث، حصول حدیث، حصول فقہ، علم فقہ، علم میراث، علم تصوف، علم فلسفہ و دیگر علوم حاصل کئے۔ آپ اپنے وقت کے معروف علماء مولانا غلام حسین آف کوٹلہ علی بند، مولانا غلام رسول آف پھلن، پیر صاحب شاہ جمال، مولانا سلطان محمود آف کانڈھ والا، مولانا فیض محمد آف شاہ جمال، مولانا غلام محدث آف مظفر گڑھ، مولانا محمد امین، مولانا محمد دین آف ملتان سے علوم حاصل کئے اور تحصیل علم کے بعد علم کے فیض کو عام کیا۔
علامہ غلام جہانیاں نے ظاہری علوم و فنون کے ساتھ ساتھ تصوف اور معرفت کے علوم بھی حاصل کئے۔ آپ کی نسبت درگاہ عالیہ کوٹ مٹھن سے ہے۔ آپ حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے پوتے خواجہ معین الدینؒ سے دست بیعت تھے۔ خواجہ معین الدینؒ نے آپ کو خرقہ خلافت سے نوازا اور آپ کو ظاہری خلافت مولانا محمد فیض محمد جمالی آف ڈی جی خان نے عطاء کی۔ آپ نے پوری زندگی علم کی ترویج کا سلسلہ جاری رکھا۔
14 جنوری 1977ء بمطابق 22 محرم الحرام 1397ہجری آپ کا وصال ہوا اور آپ کا دربار بلاک نمبر 18 محلہ فیض آباد فرید آباد کالونی ڈی جی خان میں ہے اور ہر سال عقیدت و احترام کیساتھ عرس منایا جاتا ہے۔ آپ کے کارہائے نمایاں کے بارے میں ایک کتاب 898صفحات کی ایک زخیم کتاب تذکرہ جہانیاں کے نام سے شائع ہوئی ہے جو کہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تذکرہ جہانیاں کے مصنف کے بارے میں بھی اپنے قارئین کو بتائوں کہ تذکرہ جہانیاں کے مصنف محبوب احمد چشتی کی پیدائش چاہ حمزے والا شاہ جمال ضلع مظفر گڑھ میں 11 اگست 1966ء کو ہوئی۔
حصول علم کے بعد آپ نے علمی خدمات سر انجام دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ 1993ء میں بحیثیت مدرس جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں خدمات سر انجام دیں۔ مورخہ 4اکتوبر 1993ء آپ محکمہ اوقاف میں بطور امام و خطیب بھرتی ہوئے اور عرصہ تقریباً بیس سال سے وزیر اعلیٰ ہائوس لاہور میں بحیثیت بطور امام و خطیب خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ تذکرہ جہانیاں دراصل مولانا محبوب احمد چشتی کا ایم فل کا مقالہ ہے جو کہ ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ کتاب اُس شخصیت کی ہے جن کی پہچان وسیب میں اُن کی کتاب ’’ہفت اکتاب‘‘ بنی یہ کتاب وسیب کے سات بزرگان دین کے بارے میں ہے اور کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ علامہ صاحب کی وفات کے 21 سال بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں اپنے صد سالہ جشن کے موقع پر اس کتاب کو ایوارڈ فرید کیلئے منتخب کیا۔ یہ ایوارڈ آپ کے صاحبزادے محمد انور حسن قریشی ایڈووکیٹ نے 19 مارچ 2014ء کو وصول کیا۔
حضرت علامہ غلام جہانیاں نعیمی کو اپنے وسیب سے بہت محبت تھی اور جس طرح چولستان کے ایک ایک ذرے سے محبت کی اسی طرح آپ نے بھی اپنے وسیب سے محبت کی اور وسیب کے لوگوں کو علم کی دولت سے فیض یاب کیا۔ جو بھی شخص وسیب سے محبت کرتا ہے، انسانوں سے محبت کرتا ہے وہ بہت عظیم ہوتا ہے۔ آج علماء کو اور مشائخ کو بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔
انسانیت سے پیا رکرنے کی ضرورت ہے اور حق کیلئے خواجہ فریدؒ کی طرح اپنی نگری آپ وسا توں، پٹ انگریزی تھانے کا نعرہ بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا محبوب احمد چشتی نے اپنی کتاب تذکرہ جہانیاں میں ڈیرہ غازیخان کا تعارف کرواتے ہوئے لکھا ہے کہ ڈیرہ غازیخان ایک قدیم شہر ہے جو غالباً چوتھی یا پانچویں ہجری میں آباد ہوا تھا۔ اس علاقے کو آباد کرنے والے میرانی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور یہاں کے والی ریاست غازیخان اوّل، دوم یا حاجی خان اوّل کے نام سے مشہور ہوئے۔ ڈیرہ غازیخان وسیب کا اہم ڈویژن ہے۔
قیام پاکستان سے پہلے یہ ایک ضلع تھا۔ یہ شہر دریائے سندھ کے مغربی کنارے واقع ہے۔ اس کی مشرق میں ضلع مظفر گڑھ جبکہ اس کا مغربی حصہ صوبہ بلوچستان سے ملتا ہے۔ کوہ سلیمان کا سلسلہ بھی ڈیرہ غازیخان سے منسلک ہے۔ دوسری طرف ڈیرہ اسماعیل خان ہے ۔ جسے 9 نومبر 1901ء کو وائسرائے ہند لارڈ کرزن نے ناجائز طور پر صوبہ سرحد کا حصہ بنایا تھا۔ ڈیرہ غازیخان کا جنوبی حصہ سندھ کے سکھر اور جیکب آباد سے ملا ہوا ہے۔ ڈیرہ غازیخان وسیب کا مرکز اور چاروں صوبوں کا سنگم ہے۔
علامہ غلام جہانیاں اپنے علاقے جھگی والا سے ڈیرہ غازیخان 1942ء میں کچھ عرصہ ریخ ارائیں جو کہ فاضل پور کے قریب ہے قیام پذیر رہے۔ اسی سال کے آخر میں حافظ عبدالواحد کونگر، حافظ قادر بخش، حافظ اللہ بخش کی دعوت پر ڈیرہ غازیخان میں سکونت اختیار کی اور بلاک سولہ میں قیام کیا۔ ڈیرہ غازیخان کے آمد کے ساتھ ہی علم و ادب کی دنیا میں انقلاب آگیا۔ مدرسہ نعیمیہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ تنظیم المدارس قائم ہوئی اور سب سے اہم یہ کہ تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور تحریک پاکستان کے جلسوں میں شریک ہوئے۔
قیام پاکستان کے بعد 1953ء میں تحریک ختم نبوت میں اہم کردار ادا کیا اور ڈی جی خان میں مرکزی جامعہ مسجد کی تکمیل ہوئی۔ ڈی جی خان کے مورخ ملک سراج احمد اور ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملک احمد بخش بھاپہ نے علامہ غلام جہانیاں کی خدمات کو شاندار لفظوں میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: