نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی صدر جوبائیڈن کی ڈھٹائی مجھے حیران کئے ہوئے ہے۔اس کے ملک کے روایتی اور سوشل میڈیا پر سرسری نگاہ بھی ڈالیں تو فوراََ علم ہوجاتا ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت تلملائی ہوئی ہے۔ اسے امریکہ کا افغانستان سے ذلت آمیز انخلاء برداشت نہیں ہورہا۔ وہ افراد جو کئی دہائیوں سے امریکہ کی دفاعی اور غیر ملکوں سے تعلقات کی حکمت عملی تیار کرتے رہے واویلا مچارہے ہیں کہ دنیا کی واحد سپر طاقت کہلاتے ملک کی بات سننے کو اب کوئی اور ملک یا عالمی ادارہ آمادہ نہیں ہوگا۔اس کے علاوہ بے شمار افراد کو طالبان کی اقتدار میں فاتحانہ واپسی کے بعد آزادیٔ فکر اور عورتوں کے حقوق کا غم بھی لاحق ہوچکا ہے۔
امریکہ میں جمہوریت اور آزادیٔ صحافت کی بابت مچائے شور کو میں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔1975سے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کرتے ہوئے جنرل ضیاء کے گیارہ سال بھگتے ہیں۔ان برسوں میں صحافیوں کو ٹکٹکی پر باندھ کر برسرعام کوڑے لگائے گئے تھے۔ پریس کے لئے تیار ہوئے اخبار کی کاپی چھپنے سے قبل محکمہ اطلاعات کے دفتر بھیجی جاتی تھی۔ وہاں فیصلہ ہوتا کہ کیا چھپنا ہے اور کیا نہیں۔اسلام آباد میں تعینات امریکی سفارت کار مگر جب تنہائی میں بھی ملتے تو آف دی ریکارڈ یا بے تکلفانہ گفتگو کے دوران بھی جنرل ضیاء کے عزم کو پرجوش انداز میں سراہتے۔وہ شاداں تھے کہ ہمارے وردی والے صدر نے امریکہ کے سب سے بڑے شریک یا ویری یعنی کمیونسٹ روس کو افغانستان میں گھیرلیا ہے۔
بائیڈن نے جس انداز میں اپنی افواج کو افغانستان سے نکالا ہے اسے امریکہ کا ایک جید سفارت کار ریان سی کراکر گزشتہ کئی دنوں سے سخت ترین الفاظ میں تنقید کی زد میں لائے ہوئے ہے۔موصوف عراق اور افغانستان کے علاوہ پاکستان میں بھی امریکہ کے سفیر رہے ہیں ۔2007کے آغاز میں انہوں نے پاکستانی صحافیوں کے ایک گروپ کو اپنے گھر دوپہر کے کھانے کے لئے مدعو کیا۔کھانے کی میز پر جانے سے قبل نہایت مان سے موصوف نے جنرل مشرف کو Man of Visionثابت کرنے کی ٹھان لی۔ مجھ سے برداشت نہ ہوا۔میری گستاخی نے ساتھیوں کو حیران سے زیادہ پریشان کیا۔ایمان داری کی بات مگر یہ بھی ہے کہ امریکی سفارت کاروں کو صحافیوں کی بدزبانی برداشت کرنے کی عادت ہے۔ کراکر سے میرے مراسم اس دن کے بعد زیادہ بے تکلفانہ ہوگئے۔
موضوع آج کے کالم کا مگر بائیڈن کی اختیار کردہ ڈھٹائی تھی اور میں فروعات میں بھٹک گیا۔ اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے اعتراف کرنا ہے کہ آنکھوں کی شدید تکلیف کے باوجود میں منگل کی رات ساڑھے بارہ بجے تک اپنے موبائل سے چپکا رہا۔وائٹ ہائوس سے اعلان ہوا تھا کہ امریکی صدر افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء مکمل ہوجانے کے بعد صحافیوں کے روبرو آئے گا۔جو وقت اس کے خطاب کے لئے طے ہوا تھا وہ مگر گزر گیا۔ امریکہ میں اعلان کردہ وقت کے مطابق عمل نہ کرنا غیر معمولی بات تصور ہوتی ہے۔دیر ضرورت سے زیادہ ہوئی تو سوشل میڈیا پر بائیڈن کے مخالفین ’’بڈھے‘‘ کا توا لگانا شروع ہوگئے۔ طویل انتظار کے بعد وہ بالآخر کیمروں کے روبرو آگیا۔بہت عرصے بعد اس کا لہجہ معذرت خواہانہ نہیں تھا۔سینہ پھلا کر بلکہ اصرار کرتا رہا کہ محض دو ہفتوں میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب افغانوں کو کابل سے طیاروں کے ذریعے نکال کر امریکہ نے تاریخ رقم کردی ہے۔وہ مصر رہا کہ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی اس کے ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے اب ہرگز درکار نہیں تھی۔افغانستان اس کی دانست میں امریکہ کے لئے اہم ملک نہیں رہا۔وہ فقط یہ چاہتا ہے کہ وہاں دنیا بھر سے نفاذِ اسلام کے لئے متحرک ہوئے انتہا پسند ایک بار پھر محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں جمع نہ ہونا شروع ہوجائیں۔ اسے کامل اعتبار تھا کہ طالبان کی بھی یہی خواہش ہے۔وہ اس خواہش کو واقعتا بروئے کار لاناچاہیں تو امریکہ ان کی معاونت کو ہمہ وقت تیار ہے۔مختصر الفاظ میں وہ یہ پیغام دیتا رہا کہ افغانستان کے اندرونی حالات اب جو بھی رخ اختیار کریں وہ امریکہ کا دردِ سر نہیں۔طالبان جانیں اور ان کا افغانستان۔
مذکورہ پیغام واضح انداز میں سمجھا رہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ 1990کی دہائی کی طر ح افغانستان سے قطعی لاتعلقی اختیار کرنا شروع ہوجائے گی۔ اس ملک میں اب خلافت قائم ہوتی ہے یا امارتِ اسلامی وہ امریکہ کا مسئلہ نہیں۔ ’’ہم تو چلے سسرال‘‘ والا رویہ۔ قطعی لاتعلقی والا یہ رویہ افغانستان کے لئے خیر کی خبر نہیں ہے۔ بی بی سی کی ایک مشہور رپورٹر ہے لزڈیوسٹ۔وہ پاکستان میں بھی تعینات رہی ہے۔ایران،لبنان اور افغانستان کے معاملات کو کئی نام نہاد ماہرین سے زیادہ بہتر جانتی ہے۔میں اسے بخوبی جانتا ہوں۔جنگوں کی وجہ سے عام شہریوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے ہمیشہ بے چین رہتی ہے۔
31اگست کی صبح افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء مکمل ہوگیا تو وہ کابل کی ایک مرکزی شاہراہ پر چلی گئی۔وہاں بینکوں کے سامنے کھاتے داروں کی ایک طویل قطار لگی تھی۔ اس کی بدولت علم ہوا کہ افغانستان میں قائم بینکوں کی محض چند شاخیں ہی کھولی گئی ہیں۔ کھاتے دار اپنی جمع شدہ رقوم میں سے ہفتے میں ایک بار فقط اتنی رقم نکال سکتے ہیں جو 200امریکی ڈالروں کے برابر ہے جس شاہراہ پر وہ کھڑی تھی وہاں ترکی اور ایران کے سفارت خانے بھی ہیں۔ ان دونوں کے باہر بھی ویزا کے حصول کے لئے اتنی ہی لمبی قطار لگی تھی جو بینکوں کے سامنے نظر آرہی تھی۔اس کی بنائی ڈیڑھ منٹ کی ویڈیو کلپ عام افغانوں کے روزمرہّ زندگی کے حوالے سے ابھرتے مسائل اور سوالات کا جامع اظہارتھی۔
پاکستان میں امریکہ کی افغانستان میں ہوئی حالیہ ذلت ورسوائی کے بارے میں ٹویٹ لکھ کر جشن منانے والوں کو اندازہ ہی نہیں کہ 2021کا افغانستان 1997کے افغانستان سے قطعاََ مختلف ہے۔اس کے شہروں میں گزشتہ 20برسوں کے دوران لاکھوں کی تعداد میں ایسا متوسط طبقہ نمودار ہوا ہے جس کا طرز زندگی اور خواہشات ہر حوالے سے ’’گلوبل‘‘ ہوچکا ہے ۔’’گلوبل‘‘ ہوجانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ آپ مذہب کو بھلاکر ’’مغرب زدہ لبرل‘‘ ہوچکے ہیں۔بنیادی بات یہ ہے کہ آپ کا رویہ روایتی نہیں رہتا۔بچوں کو آپ جدید تعلیم دلوانا چاہتے ہیں۔موبائل روزمرہ زندگی کے لئے لازمی سمجھتے ہیں۔اس کے ذریعے آپ ’’باخبر‘‘ رہنا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی کو خوش حال بنانے کے خواب دیکھتے ہیں۔ ان خوابوں کے حصول کے لئے آپ کو نوکری یا کاروبار شروع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ افغانستان کی تاریخ میں نوکری فقط وہاں کی ریاست ہی فراہم کرتی رہی ہے۔ نجی شعبے میں نوکریوں کی گنجائش موجود نہیں تھی۔
نائین الیون کے بعد مگر امریکی جب دیگر کئی ممالک کی افواج کیساتھ افغانستان میں وارد ہوئے تو ’’ٹھیکے داروں‘‘ کی وسیع تعداد رونما ہوناشروع ہوگئی۔ ٹریول ایجنٹوں کی بھرمار ہوئی۔پراپرٹی کا دھندا بھی چمک اٹھا۔ اس کے علاوہ میڈیا اور تعلیم کے شعبوں میں روزگار کے ہزار ہا امکانات پیدا ہوئے ۔ان امکانات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں شہری متوسط طبقہ فروغ پانا شروع ہوگیا۔وہ زندگی کی چند سہولتوں کو اپنا پیدائشی حق تصور کرتا ہے۔
طالبان اگر ان کی زندگی معاشی اعتبار سے مایوس کن بناتے نظر آئے تو ان کے جذبات بالآخر غصہ بھرے طوفان کی صورت بھی اختیارکرسکتے ہیں۔ اس طوفان کی پیش بندی کے لئے طالبان 1997جیسا رویہ اختیارکرنے سے متاثر کن انداز میں گریز کررہے ہیں۔اپنی خفت کو شدت سے محسوس کرتا بائیڈن مگر ان سے ’’ڈومور‘‘ کا تقاضہ کرتا رہے گا۔ ’’ڈومور‘‘ کے پیچھے اصل سوچ البتہ یہ ہے کہ ہم یعنی امریکہ نے تو افغانستان کو چھوڑ دیا اور اب اس کے چین،پاکستان اور ایران جیسے ’’دوست‘‘ اس ملک کی معاونت کریں۔طالبان کی ریاست کو مستحکم بنانے کے لئے اسے سرمایہ فراہم کریں اور وہاں مختلف منصوبوں پر سرمایہ کاری بھی کریں تانکہ گزشتہ 20برسوں کے دوران ابھرا متوسط طبقہ اطمینان کی زندگی بسر کرسکے۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر