اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کربلا ثانی ||اشفاق نمیر

اس آرڈیننس کے تحت متعدد لوگ گرفتار ہوئے اور ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں جن میں باچا خان، ڈاکٹر جبار خان صاحب، قاضی عطا اللہ، ارباب عبدالغفور اور کئی دوسرے افراد شامل تھے۔

اشفاق نمیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کی حکومت نے بارہ اگست 1948 کو بابڑہ چارسدہ کے مقام پر ایک جلسے کے لیے اکٹھے ہوئے چھے سو پختونوں کو گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا
بی بی سی اردو کے مطابق "قیام پاکستان کے وقت ڈاکٹر عبدالجبار خان صاحب صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ تھا۔ مگر فقط آٹھ دن بعد یعنی 22 اگست 1947 کو قائداعظم نے ان کی وزارت برطرف کر دی۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے 15 اگست 1947 کو پاکستان کا جھنڈا لہرانے کی تقریب میں شرکت نہ کر کے ’’ملک سے عدم وفاداری‘’ کا ثبوت دیا ہے (عبدالجبار خان کا تعلق خدائی خدمتگار پارٹی سے تھا اور یہ مشہور پشتون لیڈر غفار خان المعروف باچا خان کے بڑے بھائی تھے)
"ڈاکٹر جبار خان صاحب کی حکومت کی برطرفی کے بعد خان عبدالقیوم خان کو صوبہ سرحد کا وزیرِ اعلیٰ بنا دیا گیا۔۔
آٹھ مئی 1948 کو باچا خان نے کراچی میں سیاسی کارکنوں کے ایک اجلاس میں شرکت کی۔ جس میں ایک نئی سیاسی تنظیم ’پیپلز پارٹی‘ کو تشکیل دینے کا اصولی فیصلہ کیا گیا۔ یہ پارٹی ایک آئینی اپوزیشن کی ضرورت پوری کرنے کے لیے تشکیل دی جا رہی تھی۔ باچا خان کے دیگر ساتھیوں میں جی ایم سید اور عبدالصمد خان اچکزئی بھی شامل تھے۔ غفار خان اس نئی تنظیم کے صدر اور جی ایم سید جنرل سیکریٹری چنے گئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس پارٹی کو پورے پاکستان میں پھیلایا جائے گا اس مقصد کے لیے باچا خان سرحد واپس آئے اور صوبے کا دورہ شروع کر دیا لیکن ایک ماہ کے اندر ہی 15 جون کو وہ اپنے بیٹے عبدالولی خان اور قاضی عطا اللہ خان سمیت گرفتار کر لیے گئے
عبدالصمد اچکزئی کو بھی حراست میں لے لیا گیا اور جی ایم سید کو کراچی سے نکال دیا گیا۔ یوں ایک نئی سیاسی تنظیم، جو جمہوری عمل اور سیاسی آزادیوں کی جدوجہد کے ذریعے پورے ملک میں قومی یکجہتی کے لیے اپنے کام کا آغاز کر رہی تھی، اپنی پیدائش کے ساتھ ہی دم توڑ گئی
لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ توقع سے کہیں زیادہ تھا
جولائی میں صوبہ سرحد کی حکومت نے پبلک سیفٹی آرڈیننس کے ذریعے خدائی خدمت تحریک کو بھی خلاف قانون قرار دے دیا۔ اس آرڈیننس کے ذریعے حکومت کو اختیار دیا گیا کہ وہ بغیر کوئی وجہ بتائے کسی بھی شخص کو غیر معینہ مدت کے لیے حراست میں لے سکتی ہے اور اس کی جائیداد ضبط کر سکتی ہے، حراست میں لیے گئے شخص کو یہ اختیار بھی حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنی گرفتاری کو کسی عدالت میں چیلنج کر سکے
اس آرڈیننس کے تحت متعدد لوگ گرفتار ہوئے اور ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں جن میں باچا خان، ڈاکٹر جبار خان صاحب، قاضی عطا اللہ، ارباب عبدالغفور اور کئی دوسرے افراد شامل تھے۔
قدرتی طور پر باچا خان اور ان کے ساتھیوں کی نظر بندی کا خدائی خدمت گار تنظیم کے ارکان میں ردعمل ہوا۔ جولائی 1948 کے اواخر میں باچا خان کے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صاحب نے ان نظر بندیوں کے خلاف چارسدہ کے نزدیک بابڑہ کے مقام پر ایک جلسہ کرنے کا اعلان کیا تو انھیں گرفتار کر لیا گیا
پانچ اگست کو چارسدہ کے ڈویژن مجسٹریٹ نے اس علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دی لیکن ڈاکٹر خان صاحب کے اعلان کے مطابق 12 اگست 1948 کو صوبے بھر سے خدائی خدمت گار تنظیم کے ارکان بابڑہ جمع ہو گئے
بتایا جاتا ہے کہ ان افراد کی تعداد 25 ہزار کے لگ بھگ تھی۔ اس مظاہرے کو روکنے کے لیے صوبائی انتظامیہ نے پولیس اور پیراملٹری فورس کی بھاری نفری بلا لی۔ ہزاروں لوگ جمع ہو چکے تھے کہ اچانک نہتے کارکنوں پر گولیاں برسنے لگیں۔
اس فائرنگ کے نتیجے میں سرکاری اعلان کے مطابق 25 افراد ہلاک اور 35 زخمی ہوئے مگر غیر سرکاری اندازے کے مطابق اس قتل عام میں مرنے والوں کی تعداد 600 سے زیادہ تھی۔ بیشتر لاشوں کو نہایت پرسرار طریقے سے ٹھکانے لگا دیا گیا، زخمیوں کو سرکاری ہسپتال میں داخل کرنے کی اجازت نہ دی گئی اور انھیں طبی امداد سے محروم رکھا گیا”
بابڑہ کو جلیانوالہ والا باغ سے بڑا سانحہ کہا جاتا ہے اور اسے کربلا ثانی بھی کہا جاتا ہے
روزنامہ نوائے وقت نے اپنے اداریے میں اس وقت لکھا تھا کہ یہ جو قتل عام ہوا ٹھیک ہوا۔۔ پاکستان کے غداروں کے ساتھ یہی ہونا چاہیے تھا اور آئندہ بھی یہی ہوگا۔۔
12 اگست 2020 کو اسی روزنامہ نوائے وقت نے اسفندیار ولی خان کا بیان شائع کیا ہے جس میں اسفندیار نے بابڑہ واقعے کو کربلا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ پاکستان حکومت کی جانب سے بہت بڑا ظلم تھا۔
کہا جاتا ہے کہ مقتولوں پر جو گولیاں پاکستانی سرکار نے چلائی تھیں ان گولیوں کی قیمت بھی مقتولوں کے لواحقین سے وصول کی گئی تھی
میرے دیس کے نصاب میں باچا خان غدار ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ پینتس برس سامراج کی جیلیں کاٹ کر جس نے برطانوی افواج کے پاوں اکھیڑ دیے تھے، کیا اس کے لیے پاکستان سے ٹکرا جانے یا اپنے برتن الگ کردینے کے لیے بارہ اگست انیس سو اڑتالیس سے بہتر کوئی دن تھا؟ حب الوطنی کی جعلی اسناد بنانے والی فیکٹریوں کے مالکان بابا کی سند ضبط کیے بیٹھے ہیں۔ اس بابا کی سند، جس نے جیل سے پیغام بھیجا
”پختونو! دنیا بہت بدل گئی ہے مگر برداشت کا فلسفہ نہیں بدلا۔ اپنی لاشیں رات کے اندھیرے میں خاموشی سے دفنا دو۔ اگرغیرت مند پختون ہو اور میرے بیٹے ہو تو گولی کا جواب صبر سے دینا“

یہ بھی پڑھیں:

چچا سام اور سامراج۔۔۔ اشفاق نمیر

جمہوریت کو آزاد کرو۔۔۔ اشفاق نمیر

طعنہ عورت کو کیوں دیا جاتا ہے۔۔۔ اشفاق نمیر

مائیں دواؤں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں۔۔۔ اشفاق نمیر

بچوں کے جنسی استحصال میں خاموشی جرم۔۔۔ اشفاق نمیر

اشفاق نمیر کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: