اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جمہوریت کو آزاد کرو۔۔۔ اشفاق نمیر

1982 میں بنگلہ دیش میں خون آلود فوجی بغاوت شروع ہوئی تو جنرل حسین محمد ارشاد نے ملک کی باگ دوڑ سنبھال لی اور عوام سے کرپشن کے خاتمے، حکومتی اصلاحات اور سیاست میں کلین اپ کا وعدہ کیا

اشفاق نمیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

جمہوریت کو آزاد کرو

1982 میں بنگلہ دیش میں خون آلود فوجی بغاوت شروع ہوئی تو جنرل حسین محمد ارشاد نے ملک کی باگ دوڑ سنبھال لی اور عوام سے کرپشن کے خاتمے، حکومتی اصلاحات اور سیاست میں کلین اپ کا وعدہ کیا لیکن 1986 میں جو انتخابات کراۓ اس میں دھوکہ دہی سے اپنی پارٹی کو جتوا دیا جس کے جواب میں 1987 میں ملک گیر مظاہرے شروع ہوگئے

نومبر 1987 میں جب ڈھاکہ میں جمہوریت کے حق میں مظاہرے ہوۓ تو فوجی آمر حسین محمد ارشاد نے ڈھاکہ کے تمام مواصلاتی رابطے بند کرا دیے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور ہوسٹلز کو بند کرا دیا اور اپنے ایمرجنسی. اختیارات کا استعمال کرتے ہوۓ جمہوریت کے حامی کارکنوں کو حراست میں لے لیا جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے اپنے حامیوں کو اس بات پر اکسایا کہ وہ صدر حسین محمد ارشاد سے استعفی کا مطالبہ کریں

دس نومبر 1986 کی صبح نو بجے ڈھاکہ میں مظاہرہ شروع ہوا تو پولیس والے مظاہرین کو پولیس سٹیشن لا کر پیٹتے اور حوالات میں بند کر دیتے لیکن دن گزرنے کے ساتھ ساتھ مظاہرین کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوتا گیا جب مظاہرین بے قابو ہوۓ تو پولیس نے ان پر گولیاں چلانا شروع کر دیں ان گولی لگنے والوں میں ایک شخص ایسا بھی تھا جس کے جسم پر آگے پیچھے دو نعرے لکھے ہوۓ تھے۔

اس شخص کے سینے پر نعرہ درج تھا "سائرہ چر نیپات جک” جس کا اردو میں مطلب ہے "اس استبداد کو گرا دو” اور اس کی پشت پر یہ نعرہ پینٹ کیا گیا تھا "گو نو تو نترا مکتی پاک” جس کا اردو میں مطلب ہے”جمہوریت کو آزاد کرو” یہ شخص جس کا نام نور حسین تھا اس کو بھی گولی لگی جو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوۓ پولیس سٹیشن میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔

لیکن اس کے جسم پر لکھے نعروں والی تصویر جب اگلے روز اخبارات کی زینت بنی تو وہ تصویر طویل خون آلود جدوجہد کی علامت بن گئی 26 سالہ نور حسین کی تصویر نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا اور لاکھوں لوگ اس کے سحر میں گرفتار ہو گئے

1987 میں ہونے والے ان مظاہروں کو تو پر تشدد طریقے سے ختم کرا دیا گیا لیکن جب 1990 میں مظاہرے دوبارہ شروع ہوۓ تو اس مظاہرے میں موجود بہت سے لوگوں نے نور حسین کی تصویر اٹھا رکھی تھی ان مظاہروں کا جنرل ارشاد سامنا نہ کر سکے اور استعفی دینے پر مجبور ہوگئے جس کے چند دن بعد ان کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔

جنرل ارشاد پر یہ الزامات لگاۓ گئے کہ انہوں نے 1986 میں انتخابات میں دھوکہ دہی کی، اقتدار کے دوران ملک کا آئین معطل کیا اور پارلیمنٹ میں سیاسی مخالفین پر کریک ڈاؤن کیا جنرل ارشاد کے تختہ الٹنے پر بنگلہ دیش کے لوگوں نے خوب جشن منایا

یہ بھی پڑھیں:چچا سام اور سامراج۔۔۔ اشفاق نمیر

%d bloggers like this: