اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سقوط کابل اتنا آسان کیوں ثابت ہوا ؟||رضوان ظفر گورمانی

چند دن قبل امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا تھا کہ ہم نے پچاسی ارب ڈالرز افغان فوج کی تربیت پہ لگائے ہیں۔تو یہ ممکن نہیں کہ چند ہزار گوریلا فائٹرز جن کے پاس نہ جدید اسلحہ ہے اور نہ ہی وہ تربیت یافتہ ہیں وہ ساڑھے تین لاکھ کی فوج سے جیت جائے۔

رضوان ظفر گورمانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چند دن قبل امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا تھا کہ ہم نے پچاسی ارب ڈالرز افغان فوج کی تربیت پہ لگائے ہیں۔تو یہ ممکن نہیں کہ چند ہزار گوریلا فائٹرز جن کے پاس نہ جدید اسلحہ ہے اور نہ ہی وہ تربیت یافتہ ہیں وہ ساڑھے تین لاکھ کی فوج سے جیت جائے۔
لیکن اب دنیا حیران ہے کہ ایسا کیسے ہوا۔اندازہ تو یہ تھا کہ اگلے نوے دنوں میں افغان طا۔لبان کابل پہ فتح پا لیں گے لیکن اک ہفتے کے اندر اندر کابل ایسے فتح ہو گیا کہ خود طا۔لبان حیران ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہمیں امید نہیں تھی کہ یہ سب اتنی آسانی سے ہو جائے گا۔اگر ہم صورت حال کا تجزیہ کریں تو سمجھ میں آتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔سب سے پہلی بات تو یہ ہمیں اس چیز کا ادراک کرنا ہو گا کہ افغان فوج کی تعداد کے متعلق جھوٹ بولا گیا تھا افغان حکومت جانتی تھی کہ امریکہ کو جھوٹ بولا گیا ہے کہ ہمارے پاس ساڑھے تین لاکھ کی فوج ہے۔نیو یارک ٹائمز کے مطابق اصل تعداد چھ گنا کم تھی یعنی ساٹھ ستر ہزار افراد پہ مشتمل فوج تھی۔پچھلے چند ماہ میں آدھے سے زیادہ فوجی فوج چھوڑ کر جا چکے تھے۔امریکہ اور افغان رجیم کا خیال تھا کہ قطر پیس ٹاک میں ہی ہم کوئی حل نکال لیں گے اور بات قبضے تک نہیں جائے گی۔طا۔لبان نے اک طرف قطر میں پیس ٹاک جاری رکھے اور دوسری طرف وہ بذور طاقت افغانستان پہ قبضہ کرنے کی پریکٹس بھی جاری رکھی۔پچھلے کچھ سالوں سے اچانک ہی طا۔لبان کا کارواں نکلتا اور شہر پہ قبضہ کر لیتا چند گھنٹوں بعد وہ قبضہ چھوڑ کر واپس تو چلے جاتے لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ نہ تو افغان فوج اور نہ ہی امریکی ڈرونز نے کبھی ان کو روکنے کی کوشش کی۔
کسی بھی ملک کی فوج سرحدوں کی محافظ ہوتی ہے اندرون ملک سیکیورٹی کی ذمہ داری پولیس کی ہوتی ہے جبکہ افغانستان کے حالیہ ایشو میں افغان پولیس کا کردار صفر رہا اور منظرنامے پہ افغان پولیس کہیں نظر ہی نہیں آئی۔
افغانستان رقبے کے لحاظ سے اک بہت بڑا ملک ہے ریموٹ ایریاز اور دور دراز کے دیہاتی پوسٹوں پہ تعینات فوجیوں کو پیچھے سے کمک ہی نہیں پہنچائی جا رہی تھی۔فوج بغیر کسی کمک کے بغیر کسی سٹریٹجی کے بغیر کسی کمیونیکیشن کے آخر کب تک لڑتی۔افغانستان میں جاری کرپشن بھی اس کی اک وجہ ہے اک طرف جنرل رشید دوستم جیسے فوجی افسران جن کی چھاتیوں پہ نئے میڈلز لگانے کی جگہ ہی نہ بچی ہو جن کے محل دیکھ کر بڑے بڑے بادشاہ شرما جائیں دوسری طرف عام افغان فوجی جسے کئی کئی ماہ سے تنخواہیں ہی نہ ملی ہوں۔جن کو کئی کئی ہفتے لڑائی لڑنے کے بعد بھی چھوٹے چھوٹے آلووں کا اک ڈبہ بھیجا جائے کہ چپس بنا کر کھا لو۔بھوک فٹیگ اور پے بیک کا نہ ہونا پہلے ہی فوجی مورال کو گرانے کا باعث تھا رہی سہی کسر افغان طا۔لبان کی نئی سٹریٹجی نے نکال دی۔پچھلی بار کی طرح فوجیوں کے گلے کاٹنے کی بجائے انہوں نے فوجیوں کو پیسے دے کر کہا راشن خریدو اور گھر جاؤ حکومت کو تمہارا کوئی خیال نہیں۔
اور یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کیونکہ اشرف غنی نے حمداللہ محب کو افغان فوج کا سربراہ بنا دیا جس کا ملٹری کا کوئی تجربہ ہی نہیں تھا اس نے فوجی رینکس کی پراہ کیے بغیر من مرضی کی تبدیلیاں کیں۔فوجیوں کو کہا جاتا کہ تم واپس آؤ نہ آؤ لیکن جس جہاز پہ جا رہے ہو اسے خراش نہیں آنی چاہیے۔یعنی فوجیوں کی جان کی اہمیت نہیں ان کو اپنے ساز و سامان صحیح سلامت چاہیں۔
جنگ کی صورت میں فوج کا پورا سسٹم اوپر سے نیچے تک کام کرتا ہے نقشوں کو جانچا جاتا ہے۔دشمن کی تعداد کا اندازہ لگایا جاتا ہے فوجیوں کی فارمیشن کی جاتی ہے حملے ترتیب دیے جاتے ہیں مگر یہاں تو فوجی اشرافیہ اپنے جوانوں سے رابطے تک میں نہیں تھی۔
چند محاذوں پہ افغان فوجیوں نے مزاحمت کی کوششیں کی بھی تو بنا کسی ایرئیل امداد کے وہ کامیاب نہ ہو سکے۔جنگ میں فضائیہ کا اک موثر کردار ہوتا ہے جبکہ یہاں افغان فوجیوں کو سپورٹ کرنے کے لیے اک بھی جنگی جہاز نے اڑان نہیں بھری۔طا۔لبان کو اگر ڈر تھا تو وہ فضائیہ سے تھا جس کا سرے سے استعمال ہی نہیں کیا گیا۔
امریکہ کا کردار بھی اس سارے منظر نامے میں نہایت مشکوک ہے پچھلے دس سالوں سے امریکہ کا طا۔لبان پہ اور طا۔لبان کا امریکیوں یا اتحادیوں پہ کوئی قابل ذکر حملہ نہیں ملتا۔امریکہ قطر میں آرام سے بیٹھ کر دیکھتا رہا اور طا۔لبان ملک پہ قابض ہو گئے۔ماہرین اس کے پیچھے کی وجہ طا۔لبان اور امریکہ کے اس معاہدے کو قرار دیتے ہیں جس میں طالبان کی طرف سے پاکستان اور چین کو تجارتی راستہ نہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
ہمارے ہاں لوگ جشن منا رہے ہیں اور طنز کر رہے ہیں کہ خونی لبرلز پہ موت کا سکوت ہے اشرف غنی بزدل ہے فرار ہو گیا بھاگ گیا۔لیکن ہمارے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ افغان جیلوں میں قید پاکستان تحریک طا۔لبان کے کمانڈرز جن پہ اے پی ایس کے معصوم بچوں کا خون قرض ہے ہزاروں کی تعداد میں آزاد ہو چکے ہیں۔وہ عالمی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہمارا اور افغان طا۔لبان کا کوئی جھگڑا نہیں اور ہم پاکستان میں آپریشن کا آغاز کرنے والے ہیں۔
افغان جیلوں سے آزادی پانے والے جنگجو پاکستانی سرحد پہ کھڑے ہمارے فوجیوں کا مذاق اڑا رہے ہیں اور خبردار کر رہے ہیں کہ اگلی باری تمہاری ہے۔
جشن ضرور منائیں لیکن اس سے پہلے مسجدوں میں ہونے والے دھماکوں سکول میں شہہد ہونے والے معصوم بچوں اور کوہاٹ کی پہاڑیوں تک آ جانے والے طا۔لبانوں کا ضرور سوچیں جو اسلام آباد سے صرف 90 کلومیٹر دور تھے اور ہم سجدوں میں گر کر دعائیں مانگ رہے تھے۔
دعا ہے اللہ پاک ہر انسان کو محفوظ رکھے اور امن و امان کا بول بالا ہو۔

۔

یہ بھی پڑھیں:

ملکی مسائل کا واحد حل۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

ریاستیں کیوں بنائی جاتی ہیں؟۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

تخت لہور اور سرائیکی وسیب کے سرائیکی محافظ۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

محرم کلیکشن،امام حسین کے کاپی رائٹس اور ہم سب۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

رضوان ظفر گورمانی کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: