مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

برطانیہ کا پاکستان سے ناروا سلوک||سارہ شمشاد

وزیراعظم عمران خان جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو وطن عزیز کا بڑا اثاثہ قرار دیتے نہیں تھکتے، آج وہ لاکھوں کی تعداد میں بیرون ملک پڑھنے کے لئے جانے والوں کے لئے آواز بلند کرنے سے کیونکر انکاری ہیں
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ریڈلسٹ سے نکالنے کا جائزہ لیں گے۔ یاد رہے کہ برطانیہ نے مارچ سے پاکستان کو سفری پابندیوں والے ملک میں شامل کررکھا ہے جبکہ دوسری طرف بھارت جس میں کورونا نے ایسی تباہی مچائی کہ دنیا لرز کر رہ گئی، اس کو برطانیہ نے سب سے آخر میں ریڈلسٹ میں شامل کیا اور سب سے پہلے اس فہرست سے خارج کیا مگر افسوس کہ بورسن جانسن جو وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دوست ہونے کے دعویدار ہیںتو دوست پر ذرا سا بھی احسان کرنے کو تیار نہیں خاص طورپر اس وقت جب ستمبر میں برطانیہ سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانی طلبا نے جانا ہے لیکن اس کے باوجود برطانیہ نے پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کررکھا ہے۔ ادھر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان سے جانے والے شہریوں کو برطانیہ میں 10روز کے لئے Quarantine کسی ہوٹل میں کرنا پڑے گا جس کی پہلے فیس 1750پائونڈ لی جارہی ہے جوکہ اب بڑھاکر 2300پائونڈ کردی گئی ہے۔ یوں تو ہمارے دفتر خارجہ کی کارکردگی کبھی بھی اچھی نہیں رہی کہ وہ صحیح معنوں میں پاکستان کے اصولی موقف کو عالمی سطح پر اجاگر کرسکے۔ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ آج تک جتنے بھی سفیر دنیا بھر میں تعینات کئے گئے انہوں نے قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان عالمی سطح پر تنہا ہی نظر آیا جبکہ دوسری طرف ہمارا ہمسایہ ملک بھارت ہے جو دہشت گردوں کی آماجگاہ ہونے کے باوجود اس کی تعریف دنیا بھر میں کی جاتی ہے جس کی بڑی وجہ اس کا فارن آفس ہے جس کی زبردست لابنگ کی وجہ سے اس کو کئی مراعات حاصل ہوجاتی ہیں جسے دہشت گردی کا گڑھ ہونے کے باوجود امریکہ، برطانیہ سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک بھارت سے اپنے تجارتی، سفارتی اور سیاسی تعلقات قائم کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بھارتی طلبا کا غیرملکی یونیورسٹیوں میں سب سے زیادہ داخل ہوتا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ بھارتی طلبا کو زیادہ سے زیادہ سکالر شپس بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ اسی طرح اگر دنیا بھر میں بڑی بڑی یونیورسٹیوں پر ملٹی نیشنل کمپنیوں میں تعینات افراد کی ایک فہرست مرتب کی جائے تو یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہ جائے گا کہ زیادہ تر بھارتی ہی ان بڑی بڑی پوسٹوں پر تعینات ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں قصور کس کا ہے۔ پاکستان کے غریب عوام کا یا پھر حکومتوں اور فارن آفس کا کہ جنہوں نے کبھی اس ملک اور اس کے غریب عوام کی بہتری کے لئے سنجیدگی سے کوشش کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی اور آج جب عالمی سطح پر برملا اس بات کا اعتراف کیا جارہا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے جنہوں نے کورونا جیسی عالمی وبا کا بہترین انداز میں مقابلہ کیا جبکہ دوسری طرف ہمارا ہمسایہ ملک بھارت ہے جس میں کورونا نے سب سے زیادہ تباہی مچائی لیکن اس کے باوجود برطانیہ سمیت دیگر کئی ممالک نے اس پر سفری پابندیاں نرم کردیں جبکہ دوسری طرف پاکستان ہے جس میں کورونا مثبت کیسز کی شرح آج بھی برطانیہ سے بے حد کم ہے لیکن اس کے باوجود برطانیہ نے تاحال کئی مہینے گزرنے کے باوجود پاکستان کو سفری پابندیوں والی فہرست میں رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح اگر یہاں پر بات یو اے ای کی جائے تو اس نے کئی مہینوں کے بعد پاکستانیوں کو اپنے ملک آنے کی اجازت تو دے دی لیکن ایسی شرائط عائد کردی ہیں کہ جن کو پوراکرنا پاکستانیوں کے لئے ناممکن ہے۔ پاکستان کے غریب عوام کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں اور کس سے منصفی چاہیں کیونکہ عوام نامی مخلوق کے لئے نہ تو حکومت کوئی سہولت فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے اور نہ ہی بیرون ملک جانے والوں کو سر اٹھاکر عزت سے بھیجنے میں اسے کوئی خاص رغبت ہے۔
وزیراعظم عمران خان جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو وطن عزیز کا بڑا اثاثہ قرار دیتے نہیں تھکتے، آج وہ لاکھوں کی تعداد میں بیرون ملک پڑھنے کے لئے جانے والوں کے لئے آواز بلند کرنے سے کیونکر انکاری ہیں۔ عمران خان کے اقتدار میں آنے سے قبل ایک بات کا سب کو یقین تھا کہ دنیا بھر میں پاکستان کا امیج بہتر ہوگا۔ بلاشبہ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد پاکستان کا مثبت امیج دنیا کے سامنے ابھرا لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا پاکستان کو وہ عزت اور مقام دینے سے انکاری ہے جو اس کا حق ہے اسی لئے تو پاکستان آج بھی عالمی برادری کی نظروں میں مطعون ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کی 60فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے تو حکومت پر لازم ہے کہ وہ وطن عزیز کے قابل اور پڑھے لکھے بچوں کو بیرون ملک سکالر شپس پر تعلیم دلوانے کے لئے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان نوجوانوں نے اپنے وطن کی ہی خدمت کرنی ہے۔ چلو ایک لمحے کے لئے
اس رائے کو بھی تسلیم کرلیا جائے کہ پڑھا لکھا نوجوان پاکستان واپس نہیں آتا اور وہیں برطانیہ، امریکہ، کینیڈا میں مستقل طور پر رہائش پذیر ہوجاتا ہے تو یہ بھی گھاٹے کا سودا اس لئے نہیں ہے کہ بعد میں اس نے پائونڈز اور ڈالرز کی صورت میں سرمایہ پاکستان ہی تو بھیجنا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کچھ عرصہ قبل سفراء کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی صحیح معنوں میں خدمت کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن کیا وزیراعظم خود یہ بتانے کی زحمت گوارہ کریں گے کہ وہ اپنے دوست بورسن جانسن جو ان کے ساتھ تصویر بنوانے کو بڑا اعزاز سمجھتے ہیں، سے استفسار کریں کہ اس نے کیونکر پاکستان کو ریڈلسٹ میں ڈالا ہوا ہے۔ ادھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ برطانیہ کی زیادہ ہمدردیاں بھارت کے ساتھ ہوتی ہیں چاہے وہ سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے ہوں یا بین الاقوامی فورم پر پاکستان کی حمایت کرنے کا معاملہ ہو۔ برطانیہ کو ہمیشہ بھارت کے ساتھ ہی کھڑا پایا گیا۔ یہاں پاکستان کے ساتھ ہونے والی کس کس زیادتی کا رونا رویا جائے کہ سب کو اپنے مفادات عزیز ہیں کوئی پاکستان اور اس کے عوام کی قسمت بدلنے کے لئے کوئی سنجیدہ ہی نہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں صرف اپنے سفیروں سے یہ پوچھنے کی جسارت کریں کہ بین الاقوامی یونیورسٹیاں پاکستانی طلبا کو سالانہ کتنے سکالر شپس دے رہی ہیں تو ان ممالک کا بھارت کی طرف جھکائو سب کو سمجھ آجائے گا۔
اطلاعات ہیں کہ بورسن جانسن پر بھارت کی طرف سے شدید دبائو تھا کہ وہ پاکستان سے پہلے بھارت کو ریڈلسٹ میں سے نکالے تاکہ کورونا کے باعث ڈیڑھ برس سے رکے اس کے زیادہ سے زیادہ طلبا تعلیم کے لئے انگلینڈ جاسکیں جبکہ دوسری طرف ہمارے دفتر خارجہ کو ان ’’غیرسنجیدہ‘‘ مسائل میں کوئی خاص دلچسپی اس لئے نہیں ہے کہ یہ ان کے بچوں کا معاملہ نہیں بلکہ دوسروں کے بچوں کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ Quarantine کے لئے ہوٹل میں 10روز کے لئے 1750پائونڈز فیس کی بجائے 2300پائونڈ ہونے سے ان کی جیب پر کوئی تھوڑا فرق پڑے گا اس لئے غریب عوام کے قابل بچوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑدیا گیا ہے۔ دراصل یہی وہ اپروچ اور رویہ ہے جس کی بنا پر پاکستانی طلبا اور مغربی ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے لازوال قربانیاں دیں لیکن برطانیہ الزام تراشی کرنے والے ممالک کی فہرست میں ہمیشہ امریکہ کے ساتھ ہی کھڑا نظر آیا۔ پاکستان کو برطانیہ کی جانب سے تاحال ریڈلسٹ میں رکھنے کے معاملے کو ہر فورم پر اٹھایا جانا چاہیے تاکہ دنیا کو معلوم ہوسکے کہ پاکستانی اب مزید اپنی توہین، تذلیل اور ناانصافی برداشت نہیں کریں گے۔ ہم ایک آزاد قوم کے باشندے ہیں جو سر اٹھاکر جینا چاہتے ہیں لیکن اس کے لئے حکومت بطور خاص دفتر خارجہ کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرنا چاہیے اور فی الفور برطانوی سفیر کو طلب کرکے استفسار کرنا چاہیے کہ پاکستان کو تاحال ریڈ لسٹ میں کیوں رکھا جارہا ہے۔وزیراعظم عمران خان اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں کہ وہ فی الفور اس معاملے پر بورسن جانسن سے بات کریں تاکہ پاکستان کو سفری پابندیوں والے ممالک کی فہرست سے نکالنے کی راہ ہموار ہوسکے۔ اس معاملے پر تھوڑی سی بھی تاخیر کئی طلبا کے مستقبل دائو پر لگاسکتی ہے خاص طور پر اس وقت جب ستمبر کے پہلے ہفتے میں برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں کلاسز شروع ہوجائیں گی اس لئے ضروری ہے کہ عمران خان بطور نوجوان نسل کے نمائندے اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں اور عوام کو ریلیف دلوانے کے لئے جو کچھ ممکن ہوسکے اپنی ذاتی حیثیت میں کروائیں، یہی وقت کا تقاضا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: